(ملفوظ ۹۵)ایک شخص کی غلطی پر تنبیہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ زیادہ تر جو تکلیف ہوتی ہے وہ بے عقلی سے نہیں ہوتی بلکہ بے فکری سے ہوتی ہے اگر فکر سے آدمی کام لے تو موٹی موٹی باتوں میں غلطی نہیں ہو سکتی اور عقلوں میں تفاوت ضرور ہوتا ہے مگر اس قدر نہیں کہ فکر سے کام لینے کی حالت میں اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے مگر جب فکر ہی سے کام نہ لیں تو پھر بہائم اور انسان میں فرق کیا رہ گیا کیونکہ جانور میں فکر نہیں ہے یعنی دوسری جانب کا احتمال اس کے ذہن میں حاضر نہیں ہوتا سو آدمی کو چاہئے کہ جو کام کرنا چاہے پہلے سوچ لے کہ نہ معلوم اس کا کوئی پہلو مصلحت کے خلاف ہو۔ اس شخص نے عرض کیا کہ میں معافی چاہتا ہوں فرمایا کہ معاف ہے خدانخواستہ کوئی انتقام تھوڑا ہی لے رہا ہوں مگر کیا منتبہ بھی نہ کروں بدون تنبیہ کے یہ کیسے معلوم ہوگا کہ ایسی حرکت کرنا غلطی ہے عرض کیا کہ میرے مقدر میں اسی طرح تھا فرمایا کہ یہ اور نامعقول عذر ہے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ بولنے کا بھی مرض ہے محض بے ہودہ ہو آپ کہتے ہیں کہ مقدر میں بھی تھا اس کے معنی تو یہ ہیں کہ خدا ہی کی تجویز ایسی ہے میں مجبور ہوں اپنے تبریہ(جان چھڑانا) کے لئے مقدر کو پیش کرنا کس قدر نالائق اور بےہودہ حرکت ہے اب تک تو میں نے نہیں کہا تھا مگر اب کہتا ہوں کہ تم کو مجھ سے مناسبت نہیں کہیں اور جاؤ
