ملفوظ 165: دوسروں کے حقوق کی گہری رعائتیں

( ملفوظ 643) ذکر و شغل خود نفع ہے

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض لوگ ذکر و شغل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ نفع نہیں ہوا حضرت حاجی صاحب اس کے جواب میں فرمایا کرتے تھے کہ کیا یہ نفع نہیں کہ ذکر و شغل کرتے ہو اللہ تعالی کا نام لیتے ہوئے میاں اسی طرح کا کام میں لگے رہو اور یہ شعر پڑھا کرتے تھے ۔
یا بم اور ایانیابم جستجوئے می کنم حاصل آید یا نیاید آرزوئے می کنم
ایک ذاکر نے حضرت حاجی صاحب سے عرض کیا کہ میں نے طائف میں چلہ کیا اور سوا لاکھ اسم ذات روزانہ پڑھا مگر نفع نہیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ناراض ہیں فرمایا کہ اگر میں ناراض ہوتا تو تم کو سوا لاکھ اسم ذات کی توفیق ہی نہ ہوتی اور یہ بات جو حضرت نے فرمائی اس میں نقشبندیت کی ایک شان ہے کیونکہ نقشبندیہ میں ناز کی شان غالب ہے اور چشتیہ میں نیاز کی اور ہمارے حضرات مرکب ہیں چشتیت اور نقشبندیت دونوں سے ان میں دونوں شاخیں جمع ہیں مگر غلبہ اسی نیاز اور عشق ہی کو ہے جس کی حقیقت فنا ہے ۔

( ملفوظ 642) مجاہدات و ریاضات کا فائدہ

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مجاہدات ریاضات سے رزائل دب جاتے ہیں مضمحل ہو جاتے ہیں زائل نہیں ہوتے واقع میں موجود رہتے ہیں مگر مجاہدات سے مقاومت سہل ہو جاتی ہے اور ان پر عمر بھر کے لئے قابو ہو جاتا ہے باقی یہ شبہ کہ جب مقاومت کی سہولت سے افعال کا صدور بے تکلف ہونے لگے اور اجر کامل موقوف ہے مشقت پر تو چاہئے کہ مجاہدہ کے بعد اجر کامل نہ ملے اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے جہاں یہ مثال ہے کہ مشی فعل اختیاری اور مسبوق بالقصد ہے مگر پھر بھی ہر قدم پر ارادہ کرنا نہیں پڑتا بس شروع میں ایک مرتبہ کا ارادہ کافی ہو جاتا ہے اور اگر اس ارادہ کا امتداد حکمی کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو وہ دوسرا سمجھ لے کر کبھی بلا قصد بھی تو اجر مل جاتا ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ کوئی شخص کھیتی کرے یا باغ لگائے اور کوئی آدمی یا جانور اس میں سے کھا جائے تو اجر ملتا ہے حالانکہ اس کا قصد نہ تھا اور اگر قصد بھی کر لیا تو کیا ہی بات ہے تو نور علی نور ہے جیسے ایک بزرگ ایک شخص کے مکان پر تشریف لے گئے مکان کا روشن دان دیکھ کر دریافت فرمایا کہ یہ کس لئے ہے عرض کیا کہ روشنی اور ہوا کی نیت سے رکھا ہے فرمایا اگر یہ نیت کر لیتے کہ اذان کی آواز آیا کرے گی تو روشنی اور ہوا بھی آتی اور جب تک یہ مکان قائم رہتا تمہارے نامہ اعمال میں ثواب لکھا جاتا بے قصد کے اجر ملنا کا ایک اور مادہ یاد آیا دیکھئے بیمار ہونے کا کسی کسی کا بھی قصد نہیں ہوتا مگر بیمار کو بیماری کا برابر اجر ملتا ہے اور بیماری کے سبب جو اوراد معمولہ ناغہ ہو جاتے ہیں ان کا بھی اجر اس لئے ملتا ہے کہ حالت تندرستی میں یہ قصد اور نیت تھی کہ یہ ہمیشہ کرتا رہوں گا بہرحال قصد سابق کا امتداد اور عدم قصد دونوں مقارن اجر ہو سکتے ہیں ۔

( ملفوظ 641) بڑی چیز دین ہے

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ دین میں دنیوی مصالح سے متاثر ہونا سب کمزوری کی باتیں ہیں بڑی چیز دین ہے یہ محفوظ رہے خواہ تمام مصالح بلکہ سارا عالم فنا ہو جائے کچھ پرواہ نہیں ۔

( ملفوظ 640)تصوف کی کتابیں منتہی کے لئے ہوتی ہیں

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ تصوف کی کتابیں منتہی کے واسطے ہیں مبتدی کے لئے نہیں جیسے کتابیں طب کی طبیب کے لئے ہیں مریض کے لئے نہیں بس اسی طرح تصوف کی کتابیں شیوخ کے لئے ہیں عوام الناس کے لئے نہیں آخر قرآن پاک میں حق تعالی فرماتے ہیں :
ھل یستوی الذین یعلمون و الذین لا یعلمون
سو دونوں ہر معاملہ میں مساوی کیسے ہو سکتے ہیں ایک جاہل غیر مقلد ایک حدیث کی کتاب دیکھ رہے تھے وہ کتاب اردو میں تھی آج کل اردو میں ترجمے ہو گئے ہیں اس میں وہ حدیث تھی : من ام منکم فلیخفف اور اس کا ترجمہ تھا کہ امام کو چاہئے کہ ہلکی نماز پڑھے آپ نے ہلکی کو ہل کے پڑھا جس کے معنی جنبش کے ہیں پس آپ نے یہ شروع کیا کہ جب امامت کرتا تو خوب ہلا کرتا اسی طرح ایک شخص نے مسائل کی کتاب میں دیکھا کہ دو رکعت بھری اور دو خالی پڑھے تو آپ نے سنتوں میں بھی دو خالی اور دو بھری پڑھنا شروع کر دیا اور سالہا سال تک اسی طرح پڑھی ۔

( ملفوظ 639) خشک لوگ ، اہل معنی کو کیا جانیں ؟

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ یہ خشک لوگ بے چارے اہل معنی کی کیا قدر جانیں اس راہ ہی سے نہیں گزرے کسی نے حضرت امام احمد حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا کہ بشرحافی ایک امی شخص ہیں آپ عالم ہو کر ان کے کیوں معتقد ہیں انہوں نے فرمایا ہم کتاب کے عالم ہیں وہ صاحب کتاب کے عالم ہیں اس سائل نے کہا میں ان سے کچھ مسئلے پوچھتا ہوں امام نے منع فرمایا مگر اس شخص نے نہ مانا اور دو مسئلے پوچھے ایک یہ کہ اگر نماز میں خطرات آنے سے سہو ہو جائے کیا حکم ہے فرمایا ایسے قلب کو سزا دینی چاہئے کہ خدا کے سامنے کھڑا ہو کر خطرات کو جگہ دیتا ہے جس سے سہو ہوتا ہے پھر دوسرا مسئلہ پوچھا کہ زکوۃ کا کیا حکم ہے کتنے مال میں کتنی زکوۃ ہماری یا تمہاری عرض کیا کہ حضرت دونوں فرما دیجئے فرمایا کہ تمہاری زکوۃ تو یہ ہے کہ جب نصاب کے مالک ہو جاؤ تو سال گزرنے پر چالیسواں حصہ دے دو اور ہماری زکوۃ یہ ہے کہ اتنا مال ہی نہ ہونے پائے جس کی زکوۃ دی جائے اور اگر اتفاقا ہو جائے تو وہ سب مال دے اور اسی قدر اور کما کرجرمانہ میں دے سائل اس قدر متاثر ہوا کہ سوال ہی پر نادم ہوا ۔

( ملفوظ 638)مولانا شیخ محمد اور نواب صدیق حسن خان

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مولانا شیخ محمد صاحب نواب صدیق حسن خان صاحب کو مولوی نہیں کہتے تھے مگر فرماتے تھے کہ منشی اعلی درجہ کے ہیں ۔

( ملفوظ 637) حضرت حاجی صاحب سے تعلق ایک شخص کا حضرت تھانوی سے سوال

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک شخص نے دیوبند میں مجھ سے سوال کیا کہ تم لوگ لکھے پڑھے اور حضرت حاجی صاحب ظاہرا اتنا لکھے پڑھے بھی نہیں پھر ان کے پاس کیا چیز ہے جو تمہارے پاس نہیں ، میں نے کہا کہ حضرت میں اور ہم میں فرق ہے کہ جیسے ایک شخص تو وہ ہے کہ جس کو مٹھائیوں کی فہرست یاد ہے مگر اس نے کبھی کھائی نہیں اور ایک وہ شخص ہے کہ اس کو نام تو ایک مٹھائی کا بھی یاد نہیں مگر کھائی ہیں سب یہی فرق ہے ہم میں اور حاجی صاحب میں ہم اہل الفاظ ہیں اور وہ اہل معنی اور ظاہر ہے کہ اہل الفاظ محتاج ہو گا اہل معنی کا نہ کہ برعکس ۔

( ملفوظ 636)کشف و کرامات ، حقیقی کمالات کے سامنے کچھ نہیں

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل کشف و کرامات کو بڑی چیز سمجھتے ہیں مگر حقیقی کمالات کے سامنے یہ بیچارے کیا چیز ہیں مگر عوام الناس ان کمالات کا ادراک نہیں کر سکتے چنانچہ اسی بناء پر مولانا محمد حسین صاحب الہ آبادی سے کسی نے سوال کیا تھا کہ تم نے حضرت حاجی صاحب میں ایسی کون سی چیز دیکھی جس کی وجہ سے تعلق کیا بناء سوال ان ہی رسمی کمالات کی عدم شہرت تھی مولانا نے جواب دیا کہ یہی تو دیکھا کہ کچھ نہیں دیکھا مراد رسوم کی نفی ہے اہل کمال بھی ان رسمی چیزوں کی طرف نظر بھی نہیں کرتے بلکہ جو چیز دوسروں کے یہاں منتہائے کمال ہے وہ ان حضرات کے یہاں نقص ہے ۔

( ملفوظ 635)صوفیہ کی صحبت سے کچھ اور رنگ چڑھتا ہے

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ان حضرات کی صحبت سے کچھ اور ہی رنگ ہو جاتا ہے مفتی الہی بخش صاحب کاندھلوی خاتم مثنوی نے ایک موقع پر حضرت سید صاحب کی نسبت یہ فرمایا تھا کہ ہم تو صندوق ہیں جواہرات کے اور یہ جوہری ہیں اور یہ بھی فرماتے تھے کہ ہم نے جو قرآن شریف پہلے پڑھا تھا وہ اور طرح کا معلوم ہوتا تھا اور اب سید صاحب کی صحبت کی برکت سے اور طرح کا معلوم ہوتا ہے ۔