ملفوظ 513: شب قدر میں تین چیزوں کا اہتمام

شب قدر میں تین چیزوں کا اہتمام ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت آج ستایسویں شب ہے اس کو شب قدر کہتے ہیں اس میں کیا پڑھنا چاہئیے فرمایا کہ ایسے موقع پر سلف میں تین چیزیں معمول تھیں اب لوگوں نے دو کو حذف کر کے ایک پر اکتفاء کر لیا ہے وہ تین چیزیں یہ تھیں ذکر ، تلاوت، قرآن، نفل نماز – اس میں سے عابدین نے نفل نماز اور تلاوت قرآن کو حذف کر دیا یعنی اس میں مشغولی بہت ہی کم ہے بس زیادہ تر ضربیں ہی لگاتے ہیں اور اتفاق سے مجھ کو یہ تینوں چیزیں ایک آیت میں جمع مل گئی ہیں – اتل ما اوحی الیک من الکتب واقم الصلوۃ ان الصلوۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر ولذکر اللہ اکبر ـ الحمد اللہ حصہ اول ،، الافاضات الیومیہ ،، کا تمام ہوا –

ملفوظ 512: غیبت کرے تو اپنی ماں کی کرے

غیبت کرے تو اپنی ماں کی کرے فرمایا کہ امام صاحب فرماتے ہیں کہ اگر غیبت کرے تو اپنی ماں کی کرے خواجہ صاحب نے بہت ہی تعجب آمیز لہجہ میں عرض کیا کہ امام صاحب نے فرمایا کہ ماں کی غیبت کرے فرمایا کہ آپ کو کیوں تعجب ہوا ہاں یہی بات فرماتے ہیں کہ میں اگر غیبت کروں تو اپنی ماں کی کروں تاکہ اگر میری نیکیاں کسی کے پاس جائیں تو ماں ہی کے پاس کیوں نہ جائیں – گھر کی نعمت گھر ہی میں رہے کہیں باہر نہ جائے – اسلئے یہ فرما دیا تو اس میں تعجب کی کون سے بات ہے – ایک بزرگ کی حکایت ہے کہ ایک شخص ان کو گالیاں دیا کرتا تھا یہ بزرگ اس کو روپیہ پیسہ دیا کرتے تھے اس نے یہ سمجھ کر کہ محسن ہیں گالیاں دینی چھوڑ دیں ان بزرگ نے روپیہ پیسہ دینا چھوڑ دیا – اس شخص نے ان بزرگ سے عرض کیا کہ حضرت یہ کیا فرمایا بھائی یہ تو لینا دینا ہے تم پہلے کچھ دیا کرتے تھے ہم بھی دیتے تھے تم نے دینا چھوڑ دیا ہم نے بھی چھوڑ دیا –

ملفوظ 511: دین و دنیا کی مفت خوری –

دین و دنیا کی مفت خوری – حضرت کی تواضع فرمایا کہ معاند لوگ بزرگوں کو برا بھلا کہتے ہیں بزرگوں پر یہ بھی خدا کی ایک رحمت ہے کہ اس سے عجب پیدا نہیں ہوتا اور مجھ کو جو برا بھلا کہتے ہیں اس کی ایک خاص وجہ بھی بحمد اللہ میری سمجھ میں آ گئی ہے وہ یہ ہے کہ میری ساری عمر مفت خوری میں کٹی ہے پہلے تو باپ کی کمائی کھائی بس بیچ میں بہت تھوڑے دنوں تنخواہ سے گزر ہوا پھر اس کے بعد سے پھر وہی سلسلہ مفت خوری کا جاری ہے یعنی مدت سے نذ رانوں پر گذر ہے نہ کچھ کرنا پڑتا ہے نہ کمانا – کھانا کھانے کو دونوں وقت ملتا ہے یہ تو دنیا کا قصہ ہوا چونکہ آخرت کے متعلق بھی کوئی ذخیرہ اعمال کا نہ تھا جس سے آخرت میں کچھ ملتا اس کا ذریعہ یہ ہو گیا کہ لوگ برا بھلا کہیں جس سے ان کے اعمال میں سے کچھ مل جائے گا – پس یہاں بھی مفت خوری میں گذری اور وہاں بھی مفت خوری سے کام بنے گا کسی کی نماز مل رہی ہے کسی کی زکوۃ بس اس طرح کام چل جائیگا –

ملفوظ 510: آج کل کچھ پیسہ جمع کر کے رکھنا چاہئیے

ملفوظ 510: آج کل کچھ پیسہ جمع کر کے رکھنا چاہئیے فرمایا کہ علماء کو تو ان جاہل واعظین نے زیادہ بد نام کیا ہے در بدر مانگتے پھرتے ہیں –
وعظ میں دوسروں کو خدا پر بھروسہ کی تعلیم دیتے ہیں اور خود خدا پر بھروسہ نہیں کرتے – اسی لئے کہا کرتا ہوں کہ آجکل پیسہ کی قدر کرنا چاہئیے – اس کے نہ ہونے کی وجہ سے یہی انسان بہت سی آفات میں مبتلا ہو جاتا ہے – یہ دین فرشی بھی اسی آفت کی ایک فرد ہے – ایک بزرگ کی حکایت ہے انہوں نے خدا سے دعا کی تھی کہ اے اللہ شیطان روزانہ وسوسے ڈالتا ہے کہ کہاں سے کھائے گا مجھ کو اندیشہ ہے اس سے کہ کہیں مجھ کو کسی آفت میں مبتلا نہ کر دے اسلئے چاہتا ہوں کہ عمر بھر کا رزق مجھ کو ایک دم عطا فرما دیجئے – تاکہ میں اس کو ایک کوٹھڑی میں بند کر کے اور علی گڑھ کا تالا ڈال کر اطمینان سے بیٹھ جاؤں اور جب شیطان وسوسہ ڈالے کہے کہاں سے کھائے گا میں جواب دیدوں اس کوٹھڑی میں سے کھاؤں گا – شیطان غائب میں وسوسہ ڈالتا ہے مشاہد میں نہیں ڈال سکتا – کوٹھڑی ذخیرہ مشاہد ہو گا اور ذخیرہ منافی توکل تھوڑا ہی ہے توکل کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ ؎ گر توکل میکنی درکار کن کسب کن پس تکیہ بر جبار کن گفت پیغبر بآواز بلند بر توکل زانوئے اشتر بہ بند ( اگر توکل کرتے ہو تو کام میں توکل کرو کہ کماؤ ( اور اس پر نتیجہ میں مرتب ہونے میں ) حق تعالی پر بھروسہ کرو – حضور اقدسؐ نے صاف فرما دیا ہے کہ اونٹ کو باندھ کر خدا پر بھروسہ کرو ( یعنی انسان جو سامان حفاظت کرتا ہے اس کے بعد بھی خدا پر ہی بھروسہ کرنا چاہئیے )

ملفوظ 509: اب بھی رازیؒ و غزالیؒ پیدا ہو سکتے ہیں

ملفوظ 509: اب بھی رازیؒ و غزالیؒ پیدا ہو سکتے ہیں فرمایا کہ اعتراض کر دینا کون مشکل کام ہے زبان ہلانی پڑتی ہے حقیقت کا سمجھنا مشکل ہے ایک صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ نہ معلوم آجکل غزالی اور رازی جیسے کیوں نہیں پیدا ہوتے میں نے کہا کہاں سے پیدا ہوں دنی الطبع کم حوصلہ لوگ تو علم دین پڑھنے لگے اور جو لوگ خاندانی بلند حوصلہ عالی دماغ تھے انہوں نے علم دین پڑھنا چھوڑ دیا – انتخاب کا اختیار تم کو دو – انتخاب ہم سے کراؤ پھر دیکھو ہم غزالی اور رازی پیدا کر کے دکھلا دیں – ہے تو بے ادبی مگر میں بے ادبی نہیں سمجھتا اسلئے کہ یہ عرفا بے ادبی سمجھی جاتی ہے – حقیقت میں بے ادبی نہیں وہ یہ ہے کہ خدا تعالی کے فضل سے امام غزالی اور رازی سے افضل اس وقت موجود ہیں دیکھ لیجئے امام غزالی اور رازی کے بھی مصنفات موجود ہیں اور اس وقت بعض بزرگوں کے بھی موجود ہیں موازنہ کر لیا جائے حضرت نبوت ختم ہوئی ہے علم اور ولایت ختم نہیں ہوئی –

ملفوظ 508: آج کل مولوی طماع کیوں ہونے لگے

آج کل مولوی طماع کیوں ہونے لگے ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت آجکل مولوی طماع زیادہ کیوں ہونے لگے فرمایا کہ سب تو نہیں عرض کیا کہ اکثر فرمایا اس کی خاص وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ عربی پڑھنے والے زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو پہلے سے طماع اور مفلس ہیں بعد پڑھ لینے کے بھی ان کی وہی عادت رہتی ہے طبیعت میں سے وہ بات جاتی نہیں اسی لیے ان کی تبلیغ میں بھی غرض کا شبہ ہو جاتا ہے اگر عالی خاندان لوگ امرا حکام نواب رئیس اپنے بچوں کو عربی پڑھائیں اور پھر وہ لوگ تبلیغ کریں – دیکھئے کیا اثر ہوتا ہے ورنہ واعظ کے افلاس میں یہی شبہ ہوتا ہے کہ چندہ مانگنا تو جانتے ہیں اور دنیا نہیں جانتے – میں جس وقت ڈھاکہ گیا تھا تو وہاں کے ایک مدرسہ کے پرنسپل نے مدرسہ میں مدعو کیا – میں گیا انہوں نے مجھ سے یہی شبہ پیش کیا کہ اکثر علماء میں یہ مرض ہے میں نے کہا کہ اس کی جڑ انتخاب کی غلطی ہے اکثر غرباء کے بچے علم دین پڑھتے ہیں ان کا حوصلہ ان کا ظرف تو ویسا ہی ہو گا اگر امراء کے بچے علم دین پڑھتے ہیں ان کا حوصلہ ان کا ظرف ویسا ہی ہو گا – پرنسپل صاحب نے کہا کہ حضرت آج میرا ایمان محفوظ ہوا ورنہ مجھ کو اندیشہ اپنے ایمان کا ہو گیا تھا – میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ علم دین کا تو اثر نہیں میں نے کہا توبہ کیجئے کیا علم دین ایسی چیز ہے اور اثر کی نسبت میں نے کہا کہ یہ امراء کے بچے انگریزی کے اثر سے تو بگڑ گئے اگر انگریزی نہ پڑھتے تو ان کے اخلاق اس حالت کی نسبت اچھے رہتے اور غرباء کے بچے علم دین پڑھ کر کسی قدر سنور گئے اگر عربی نہ پڑھتے ان کے اخلاق اس حالت کی نسبت اور زیادہ خراب ہو جاتے – مطلب میرا اس کہنے سے یہ تھا کہ غرباء کے بچے جس قدر خراب ہونے چاہئیں تھے عربی کی بدولت اتنے خراب نہیں رہے اور امراء کے بچے جس قدر اچھے ہونے چاہئیں تھے انگریزی کی بدولت اتنے اچھے نہیں رہے اور یہ انتخاب کی غلطی مشاہدہ میں آ رہی ہے کہ خود ایک ہی شخص کے بچوں میں جو سب میں زیادہ بے وقوف کند ذہن بد فہم کم عقل بد صورت ہو اس کو عربی پڑھانے کے لیے تجویذ کیا جاتا ہے اور جو سمجھ دار عقلمند ذہین صورت ہو اس کو انگریزی کے لیے تجویذ کیا جاتا ہے – اس گفتگو کے بعد اسی جلسہ میں پرنسپل صاحب کہنے لگے – وا قعی آپ نے سچ فرمایا – اس وقت جو میں ذہن میں مدرسہ کے رجسٹر کی جانچ کرتا ہوں تو قریب ڈھائی سو طلباء کے ہیں مگر جو عربی پڑھتے ہیں ان میں اکثر گاؤں کے اور کم درجہ کے لوگوں کے بچے ہیں اور انگریزی خواں خاندانی اور امیروں کے بچے ہیں ـ میں نے کہا کہ اب آپ خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ ایسے لوگوں میں بلند حوصلہ ذی لیاقت غیر طماع کیسے پیدا ہو سکتے ہیں ـ

ملفوظ 506: ہدیہ میں خلوص کی ضرورت ہے فلوس کی نہیں

ہدیہ میں خلوص کی ضرورت ہے فلوس کی نہیں فرمایا کہ ایک مرتبہ نعمت اللہ خان صاحب جلال آبادی جو ریاست بھوپال میں اس وقت تحصیل دار تھے پھر ناظم ہو گئے تھے یہاں پر آ ئے اور بطور ہدیہ پچیس روپیہ میرے سامنے رکھ دیے میں نے ان میں سے دس روپیہ اٹھا لئے اور یہ کہا کہ پچیس زائد ہیں انہوں نے اصرار بھی کیا مگر دل نے قبول نہیں کیا جب وہ چلے گئے ان کے ایک ہمراہی سے جو رہ گئے تھے معلوم ہوا کہ پہلے انہوں نے ہدیہ کے دس ہی روپیہ تجویذ کئے تھے پھر خیال ہوا کہ دس روپیہ تو تھوڑے ہیں میری حیثیت کے اعتبار سے بھی اور اس کی شان کے اعتبار سے بھی اس لئے پندرہ اور بڑھا لئے یہ حقیقت تھی اس پچیس روپے کی – اس پر فرمایا کہ ہدیہ میں شان وغیرہ کا خیال کرنا بڑی گڑ بڑ کی بات ہے اس میں تو زیادہ تر خلوص کی ضرورت ہےفلوس کی فکر نہ کرنا چاہیئے خلوص دل سے چاہے پانچ سات مٹی کے ڈھلے ہی ہوں کہ وہ استنجے ہی کے کام آئیں گے – پھر فرمایا کہ اس واپسی سے نہ معلوم لوگ کیا خیال کرنے لگیں کہ شاید مجھ کو اس کا کشف ہو گیا ہو کہ پہلے انہوں نے دس روپیہ تجویذ کئے تھے اس لئے وہی دس لیے یہ بات نہیں اس کی بھی حقیقت سن لیجئے – میں نے ایک روز قبل دس روپیہ کی لکڑیاں خریدی تھی اور میری عادت قرض لینے کی نہیں ہے مگر اس وقت بضرورت قرض کیا گیا اس لئے میں نے دعا کی تھی کہ اے اللہ ! دس روپیہ دیدیجئے اگلے ہی روز وہ خان صاحب لے کر آ گئے چونکہ مجھ کو دس ہی کی ضرورت تھی وہی میں نے لے لئے اور اس وجہ سے بھی لیے کہ حق تعالی نا خوش نہ ہوں کہ نا معقول ایک تو مانگتا ہے اگر دیتے ہیں نخرے کرتا ہے یہ حقیقت ہے اس واقعہ کی نہ کشف تھا نہ کرامت تھی –

ملفوظ 505: ہدیہ دینے والے اور لینے والے کا ایک واقعہ

ملفوظ 505: ہدیہ دینے والے اور لینے والے کا ایک واقعہ فرمایا کہ حیدر آباد دکن سے ایک صاحب نے رومال بطور ہدیہ بھیجا ہے میں نے لکھ دیا ہے کہ قبول کرتا ہوں اور بے حد مسرت ہوئی لیکن اگر ہدیہ روانہ کرنے سے قبل دریافت کر لیا جایا کرے تو زیادہ بہتر ہے اس پر فرمایا کہ بعض چیزیں ایسی آتی ہیں کہ میرے یہاں ان کا کوئی مصرف ہی نہیں ہوتا – ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت جو فرماتے ہیں کہ پہلے دریافت کر لیا کرو اس کا معمول ہی نہیں نہ کسی نے آج تک اس کے متعلق لوگوں کو آ گاہ کیا – حالانکہ اصولی بات ہے – طرفین کی راحت کا سبب ہے اسلیے کہ اس میں خود بھیجنے والے کو بھی تو انتخاب میں تکلیف ہوتی ہے فرمایا کہ جی ہاں دریافت کر لینے میں سب مصالح کی رعایت ہے پھر فرمایا کہ یدیہ قیمتی ہونا ضرور نہیں اس میں تو خلوص کی ضرورت ہے فلوس کی ضرورت نہیں – ایک بزرگ کسی دوسرے بزرگ کی ملاقات کے لیے چلے پاس کچھ نہ تھا محبت میں خیال ہوا کہ خالی ہاتھ نہ جانا چاہئیے کچھ تو لے کر چلنا چاہئیے راستہ میں دیکھا کہ درختوں پر سے لکڑیاں سوکھ کر زمین پر پڑی ہیں ان کو جمع کر کے ایک گٹھڑی باندھ ان بزرگ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ حضرت کچھ لکڑیاں لایا ہوں – حضرت کے یہاں ایک وقت کی روٹی ہی پک جائے گی – بطور جملہ معترضہ کے فرمایا کہ اب تو کوئی ایسا کرے اور اس کا اندازہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مہدی الیہ ( جس کو ہدیہ پیش کیا گیا ہے 12) بہت بڑا اپنے دل میں فرض کر لیا جائے اور چھوٹے درجہ کا لانے والا لے لیا جائے پھر سوچئے کوئی ایسا کر سکتا ہے اور اگر کوئی کر بھی لے تو لوگوں کی نظر میں اس کی وقعت ہوگی – اب سنیے وہ بزرگ اس ہدیہ کی کیسی قدر کرماتے ہیں اور خادم کو حکم دیتے ہیں کہ یہ چیز حب فی اللہ کی وجہ سے آئی ہے اس کی تحقیر نہ کرنا – ویسے ہی مت جلا ڈالنا بلکہ اس کو محفوظ رکھو ہمارے مرنے کے بعد ہمارے غسل کا پانی ان سے گرم کرنا وہ انشاء للہ تعالی ہماری نجات کا ذریعہ ہو گا خلوص ہو تو ایسا ہو جیسا ان مہدی ( ہدیہ دینے والے – 12) کو تھا اور قدر ہو تو ایسی ہو جیسی ان مہدی الیہ نے کی –

ملفوظ 504: شیخ کو بھی لرزاں وتر ساں رہنا چاہئیے

شیخ کو بھی لرزاں وتر ساں رہنا چاہئیے فرمایا کہ کوئی کیا ناز کر سکتا ہے حضرت شیخ آدم رحمتہ اللہ علیہ بہت بڑے بزرگ شاہ جہاں بادشاہ کے زمانہ میں تھے یہ عالم بھی ہیں – ایک شخص مرید ہونے آیا جس کی وضع خلاف شریعت تھی آپ اس پر ناراض ہوئے اور کہا کہ اس وضع پر مرید ہوتے شرم نہیں آتی وہ چلا گیا فورا الہام ہوا کہ اس کو بلاؤ ورنہ تمہاری خیر نہیں اگر اس کی حالت خلاف شرع تھی اس کو تعلیم کر دیتے انکار چہ معنی – آپ نے کسی دوسرے مرید کو بلانے بھیجا وہ بھی بگڑ چکا تھا کہا جاؤ ہم نہیں آتے کیا دنیا میں یہی ایک شیخ رہ گئے ہیں اور کوئی نہیں رہا – ہم کسی اور سے تعلق کر لیں گے مرید نے آ کر واقعہ بیان کیا فرمایا اچھا پھر جاؤ اور اس کے کان میں ایک مرتبہ اللہ اکبر کہہ دو – دیکھیں کیسے نہیں آ ئے گا حضرت شیخ نے یہ اس ناز کی بنا پر کہا جو عین حالت عتاب میں ان کو حاصل تھا بس اس مرید کا جا کر ایک مرتبہ اللہ اکبر کان میں کہنا تھا کہ دھڑ سے زمین پر بے ہوش ہو کر گرا اور جب ہوش آیا کہتا تھا کہ خدا کے لیے شیخ کے پاس پہنچاؤ غرض حاضر ہوا اور بیعت ہو گیا – اس واقعہ میں ادھر شیخ کو چشم نمائی کر دی گئی ادھر اس طالب کی گوشمالی ہو گئی اور دونوں کو جوڑ دیا – پھر فرمایا کہ حق تعالی کا بڑا اور بار ہے وہاں لرزاں اور ترساں رہنا چاہئیے نہ معلوم کس کے ساتھ کیا معاملہ ہو کسی کو کیا خبر وہاں کی کرسی کسی کے مامزد نہیں کہ اپنی اپنی پر استحقاقا بیٹھو اور قطع نظر اس سے کہ بیٹھ جانے کے بعد بھی بدل سکتے ہیں ہر وقت اختیار ہے قدرت ہے قوت ہے خدا معلوم کس کو کہاں بٹھا دیں اور کس کو کہاں – کوئی ویسرائے کا دربار تو ہے نہیں جو خود بھی ضابطہ کا محکوم ہے کہ کرسیوں پر درباریوں کا نام کندہ ہے جس سے وہ بدلی ہی نہیں جا سکتیں –

ملفوظ 503: عین مؤاخذہ کرتے وقت حضرت کی اپنی حالت

عین مؤاخذہ کرتے وقت حضرت کی اپنی حالت فرمایا کہ میں بقسم عرض کرتا ہوں کہ عین مواخذہ اور تادیب کے وقت بھی یہ اعتقاد قلب میں مستحضر ہوتا ہے کہ شاید عنداللہ یہ مجھ سے زیادہ مقبول ہو اور یہ دونوں چیزیں یعنی تادیب استحضار مذکور ایک وقت میں جمع بھی ہو سکتی ہیں ـ اس کی ایک مثال عرض کیا کرتا ہوں وہ یہ کہ مثلا شہزاد سے کوئی جرم ہوا بادشاہ نے بھنگی کو حکم دیا کہ شہزادے کو بید لگاؤ وہ لگائے گا ضرور – کیونکہ بادشاہ کا حکم ہے اگر نہ لگائے گا تو خود کے لگنے کا خوف ہے مگر عین بید لگانے کے وقت بھی شہزادے سے اپنے کو افضل ہر گز نہ سمجھے گا بلکہ اس وقت بھی اس کو یہی مستحضر ہوگا کہ شہزادہ شہزادہ ہی ہے اور میں بھنگی چہ نسبت خاک رابعالم پاک – جس سے کسی کو سزا دلوائی جائے یا سیاست کرائی جائے – وہ اس سزا یاب کو اگر حقیر سمجھے یا اپنے کو افضل اس کا – اس کو کوئی حق نہیں – ہاں یہ ضرور ہے کہ بے وقوف کی بات پر بے وقوف ضرور سمجھے گا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص کام تو کرے بے وقوفی کا اور سمجھا جائے عقلمند – مگر اسی وقت یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ممکن ہے کہ اس کی بے وقوفی کسی عارض سے خدا کے نزدیک پسندیدہ ہو اور تری عقلمندی کسی عارض سے پسندیدہ نہ ہو – میں تادیب سے یہ چاہتا ہوں کہ اس میں خدا کی محبت اور خشیت اور تواضع پیدا ہو جائے –