بنائے سفر لاہور

ان دونوں سفروں کے بعد تیسرا سفر ہوا جو درحقیقت اہمیت رکھتا ہے – حضرت والا کو
عرصے سے معدے کی شکایت چلی جاتی تھی – جس سے غذا کم ہوگئی تھی اور جس قدر ہوتی تھی
وہ بھی ہضم نہ ہوتی تھی – چونکہ دانت اوپر کے اور بعض نیچے کے ٹوٹ گئے تھے اس لئے خیال
ہوا کہ شاید غذا پورے طور پر چبتی نہ ہو اور اس وجہ سے ہضم میں فتور ہو کر معدہ خراب ہوگیا
ہو – دانت بنوانے کا خیال ہوا – حضرت والا کے مخلص خادم ڈاکڑ عیزیز احمد جلال الدین
صاحب جو اس فن میں مہارت تامہ اور نہایت کمال رکھتے ہیں اور لاہور میں ایک مشہور و
تجربہ کار دندان ساز ہیں ان سے دانت بنوالے کا ارادہ ظاہر فرمایا – ڈاکٹر صاحب نے عرض
کیا کہ میرے لئے یہ خدمت باعث سعادت وخوش قسمتی ہے اور اگرچہ دانت بنانے کے
لئے جن آلات اور مشینوں کی ضرورت ہوگی وہ تھوڑی سی وقت سے تھانہ بھون میں بھی لائی
جاسکتی ہیں لیکن ان میں بجلی سے کام لیاجاتا ہے اور تھانہ بھون نیں بجلی ہونے کے باوجود
حضور کے یہاں بجلی کی فٹنگ نہیں نیز لاہور سے تمام سامان کا لانا بھی مشکل ہے اور اگر
لایا بھی گیا پھر بھی طور پر سے کل ضرویات پوری نہ ہوسکیں گی اور وہ سہولتیں جو وہاں ممکن ہیں تھانہ بھون میں بہم نہ ہوسکیں گی – اگر کسی وقت حضور والا لاہور کا سفر فرمائیں تو سب
سے بہتر ہوگا – دانت بننے کے ولاعہ میرے لئے باعث برکت ہوگا – اور حقیقت تویہ ہے کہ
حضور کی غیور اور با اصول طبیعت ہی نے یہ گوارا نہیں فرمایا کہ اپنے ذاتی کام کے لئے
دوسروں کو تکلیف دی جائے بکلہ یہ طے فرمایا کہ مجھے خود وہاں جانا اور کل خرچ برداشت کرنا
چاہیئے یہاں تک کہ کھانے کا صرف اور دانتوں کی اصل لاگت بھی میرے ہی ذمہ ہو اس
خیال کی بناء پر حضور نے وہاں تشریف لے جانا منظور فرمایا لیکن اس خیال وگفتگو کو دو سال
ہوگئے چونکہ ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر ہے اور بغیر اس وقت کے کام کا ہونا غیر ممکن
اب دو سال کے بعد وہ وقت آگیا اور سفر کی تیاریاں ہونے لگیں –

سفرسہارنپور

پہلا سفر غالبا ذی قعدہ 1353 ھ اور دوسرا 18 جمادی الاخریٰ 1354 ھ کو سہارنپور تک ہوا ان
دونوں سفروں کی غرض یہ تھی کہ حضرت کے بڑے بھانجے مولوی سعید احمد صاحب مرحوم کی
صاحبزادی جو جناب چھوٹی پیرانی صاحبہ مدظہلا کے بطن سے ہیں اور جواب گویا حضرت والا ہی کی
صاحبزادی ہیں اور حضرت والا پر ان کے حقوق پدرانہ و بگتگانہ ہیں مولوی جمیل احمد صاحب
مدرس مدرسہ مظاہر العلوم سہانپور سے منسوب ہیں ان کو ایک مرتبہ سفر حج کے سلسلے میں سہارنپور
تک پہنچانے کے لئے اور دوسری مرتبہ سہارنپور سے لانے کے لئے صرف ان کی خاطر سے
بغایت شفقت و محبت تکلیف گوارا فرمائی – یہ دونوں مختصر اتفاقی اور فوری سفر اس طرح شروع اور ختم
ہوئے صھب عادت گرامی ان سفروں میں رموز معرفت اسرار حقیقت اور نکات طریقت کی
گہرباری ہوئی اور خوش قسمتوں نے دامن مراد کامیابی کے موتیوں سے بھر لئے –

ار مغان جاوداں

1357 ھ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمد و نصلی علیٰ حبیبہ الکریم
یوں تو ہر سفر کی کوئی غرض و غایت ضرور ہوتی ہے لیکن اصل سفر تو اہل اللہ کا سفر ہے جو
اگرچہ بظاہر کسی دینوی ضرورت ہی سے جائے مگر جہاں ان کے بابرکت قدم جاتے ہیں
بغیر ان کے اہتمام یا ارادے کے خدا کی رحمتیں ساتھ ساتھ ہوتی ہیں انوار الہیٰ کا ظہور ہوتا
ہے فیوض و برکات نمایاں ہوتے ہیں رشد و ہدایت کی شمعیں روشن ہوجاتی ہیں حقائق
و معارف کی بارش ہونے لگتی ہے اور ہر نشنہ کام معرفت کو اس کی استعداد اور طلب کے
موافق اس خذانہ معرفت سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور مل جاتا ہے –
ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا اب بھی دیکھنے والے بکثرت موجود ہیں – اب سے پندرہ برس
کچھ کم و بئش پہلے بزرگان دین کی کافی تعداد موجود تھی – مشائخ کرام کی برکتوں سے
ہندوستان خصوصیت کے ساتھ فائز المرام ہو رہا تھا علماء و فضلاء کے اثرات پورے طور سے
پھیلے ہوئے تھے – کفر و ضلالت کی قوتیں دبی ہوئی تھیں لیکن اب وہ دور نہیں رہا زمانے نے
کروٹیں بدلیں خیالات نے پلٹا کھایا اور وہی دین مبین جس کے آثار آفتاب سے زیادہ
درخشاں اور تاباں نظر آتے تھے آج دھند لے نظر آرہے ہیں اولیاء اللہ نے دنیا سے پردہ کرلیا
خدا کے خاص بر گزیدہ اور مقبول بندوں نے اس جہان فانی کو چھوڑ دیا مسجدیں خالی خانقاہ
سونی حجرے ویران آج اگر ڈھونڈا جائے تو مبشکل چند ایسے مقدس نفوس مل سکیں گے جن کا
ہر لمحہ خدا کی رضا کے واسطے صرف ہوتا ہو اور جن کی ہر ساعت خدمت دین کے لئے وقف ہو –

میری انہیں آنکھوں نے بہت کچھ دیکھا بڑی بڑی مقدس ہستیوں کی زیارت کی اور آج
بھی نظریں ان با برکت مناظر اور ان با فیض ہستیوں کو ڈھونڈ رہی ہیں ویرانی بے اثرے اور
آزادی دکھائی دیتی ہے دین سے بے پروائی کم تو جہی بلکہ بیزاری ہر طرف موجود ہے دلوں
میں مذہب کی وہ عزت اور وہ وقار جو پہلے تھا آج نہیں نہ وہ اہتمام نہ وہ انہماک بے شرمی بے
حیائی بے غیرتی بے باکی ہر سمت پھیلی ہوئی ہے – کشتی بھنور میں ہے اور نا خدا ملتا نہیں – لیکن
خداوندی وعدوں پر یقین رکھنے والا مسلم گھبراتا نہیں – لا تقنطوا من رحمتہ اللہ کی آمید
افزا آیت اس کو یاد آجاتی ہے – ایک غیبی آواز سنتا ہے گھبرا نہیں نا خدا موجود ہے – اس کا
دامن تھام اس کا وسیلہ حاصل کرنا کہاں ضلع مظفر نگر کا مشہور قصبہ تھانہ بھون – اپنی ململ تابشیں
دکھاتا ہوا نظر پڑتا ہے – اور خانقاہ امدادیہ اپنے تمام جلوؤں اور انوار و برکات کے ساتھ نمودار
ہوجاتی ہے اور اس میں وہ خاخدا جس کی طرف اشارہ کیا گیا تھا دستگیری کے لئے آمادہ مستعد
پایاجاتا ہے – آفتاب کی طرح منورہ چہرے پر رعب و سطوت اور جلالت و جبروت جلوہ فگن
آنکھیں حقیقت و معرفت کے انوار سے ضیا بار نظریں مصروف کشش پیشانی جگمگاتی ہوئی –
دماغ میں طاعت حق اور خدمت خلق کے خیالات مجتمع دل خدا اور اس کے حبیب کی محبت
سے سرشار سینہ میں ہیبت و خشیت الہٰی کا خزینہ رگ رگ میں تجلیات باری کی بجلیاں دوڑتی
ہوئی – دست مبارک ہر وقت دعا کے لئے آمادہ تمام جسم پیکر نور بنا ہوا – ستتر اٹہتر سال حیان
ظاہری کی منزلیں طے کئے ہوئے ارادوں میں کامیابی کے آثار مقاصد میں تکمیل کی لہر ہمت
واستقلال جلو میں قوت و نصرت علمبر دار فضل و رحمت باری سایہ کئے ہوئے امداد الہٰی کی بے
پناہ طاقیتں ساتھ ساتھ اس طرح اور اس شان سے اس نا خدائے سفینہ اسلام ملجا و ماواے نام
محی سنت حامی شریعت سالک مسالک طریقت و معرفت قامع بدعت و ضلالت مصلح
القلوب ولا رواح صاحب الفلاح والافلاح مجدد المنت حیکم الامت مرشد زمانہ شیخ یگانہ
مقبول بارگاہ قادر قوی حضرت مولانا حاجی حافظ قاری شاہ محمد اشرف علی صاحب فاروقی حنفی
تھانوی ادام اللہ برکاتہم و فیوضہم کا جلوہ زیبا کھایا جاتا ہے

زفرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا ست
مشاہدات
اللہ اللہ یہ مقدر حاضر ہوں میں آیسے آستاں پر
کاشانۃ فیض جس کو کہئے خمخانۃ فیض جس کو کہئے
ہر سمت سے رند آرہے ہیں قسمت سب آزمارہے ہیں
ہر وقت ہے خاطر و مدارات میخانہ کھلا ہوا ہے دن رات
انوار حقیقت اس میں شامل اللہ کی رحمت اس میں شامل
جلوہ افروز ذات اس میں ضوبار ہیں کل صفات اس میں
ہے طرفہ فضا عجب ہے عالم مے ہے کہچھلک رہی ہے ہر دم
ہر لحظہ ہے دور جام عرفاں صبح عرفان ہے سان عرفان
ہر رنگ نیا نیا سماں ہے شیشوں میں حیات جادواں ہے
پیمانوں میں روح عجز وایثار زہاد سے بڑھ گئے ہیں میخوار
ہر ظرف میں بادۃ شریعت ہر قطرے میں جلوۃ طریقت
ابھرے ہوئے سادگی کے جوہر گردش میں وہی قدیم ساغر
ہے غیرت آفتاب ہر جام مے نوش ہیں اور جام پر جام
انگڑائیاں لے رہی ہیں موجیں صہبا میں یہ نور کی ہیں موجیں
اس مے کو مے طہور کہئے یا شعلہ برق طور کہئے
اس مے سے ہے مست آج ہر ایک توحید پرست آج ہر ایک
مستون کو ہے ذکر و شغل سے کام کیسا آرام کس کا آرام
ہر رند یہاں کا پارسا ہے ذرہ ذرہ خدا نما ہے
تقوی کی چہل پہل یہاں ہے مقصود فطق عمل یہاں ہے

شہرت کا یہاں وجود مفقود ذکر نام و نمود مفقود
دنیا سے جدا یہ سر زمیں ہے کبر و نخوت یہاں نہیں ہے
کوئی بھی نہیں یہاں مقرب مصروف ہیں اپنے کام میں سب
ہو کر مایوس ہر جگہ سے آتے ہیں مریض ہر طرح کے
تشخیص کا ہے نیا جگہ سے آتے ہیں مریض ہر طرح کے
تشخیص کا ہے نیا طریقہ بے مثل علاج کا طریقہ
ملتی ہے یہاں دلوں کو راحت پاتا ہے ہر ایک مریض صحت
تدبیر نئی دوا نئی ہے اصلاح قلوب ہو رہی ہے
ناز اور نیاز سب یہاں ہے کہتے ہیں جسے ادب یہاں ہے
آئین بتائے جارہے ہیں آداب سکھائے جارہے ہیں
ہوتی ہے رضائے حق کو تعلیم ہر کام بصد اصول و تنظیم
تعلیم میں تربیت ہے شامل اللہ کی معرفت ہے شامل
تعلیم کا طرز ہی نیا ہے ہر اک کی تربیت جدا ہے
بعضوں سے تخاطب و تکلم اس طرح نوازش و ترحم
بعضوں کو یہی امور ممنوع ہر شائبہ غرور ممنوع
تادیب اصول کے مطابق تجویز مزاج کے موافق
لطف اور کرم بھی ساتھ ہی ساتھ تیار دعا کے واسطے ہاتھ
مجلس کا یہاں کی پوچھنا کیا مجلس ہے کہ فیض کا ہے دریا
انوار کا وہ ہجوم اس میں وہ ضو افشاں علوم اس میں
ہٹتا ہے یہاں خدا کا انعام ملفوظ کی شکل میں ہے الہام
ملفوظ کی شان اللہ اللہ پر کیف بیان اللہ اللہ
ہر لفظ میں ہیں ہزار نکتے ہر نکتے میں بے شمار نکتے
اس حسن مقال کی کسے تاب مجلس ہے کہ ہو رہی ہے بیتاب
چھائی ہوئی چار سو تجکی اٹھتے ہی نگاہ برق چمکی

اب ہوش کہاں حواس کیسے صدقے ان ساعتوں کے صدقے
ایں مجلس فیض بالقین است دربار ولی حق ہمین است
اللہ ری بخشش و عنایت دارین کی بٹ رہی ہے دولت
کہہ دے کوئی طالبان حق سے بھرلیں وہ جیب و دامن اپنے
لے لیں لے لیں طلب ہو جتنی ایسی دولت نہ پھر ملے گی
ساقی کا ہے فیض عال جاری ہہے دور سبود جام جاری
بادہ اس کی نگاہ بادہ بردوش جو ہے وہ یہاں ہے مست و مدہوش
میخانے کا کل نظام مدہوش ساغر مدہوش جام مدہوش
مے مست ہے مے کی آرزو مست پیمانہ شیشہ و سیو مست
ہر جلوہ و جلوہ گاہ مدہوش سجادہ و خانقاہ مدہوش
جزبان کشش دعا اثر مست نظارہ و ناظر و نظر مست
گلزار و گل و بہاں مدہوش مستی بیخوذ خماز مدہوش
بیخود ہر کوہ محو صحرا موجیں مدہوش مست دریا
بیخود افلاک ہیں زمین مست سجدہ مدہوش ہے جبین مست
مدہوش وجود دو جہاں مست کل کون ومکان ولا مکان مست
یہ کس کی نگاہ کا اثر ہے ؟ ساقی ہے کون کچھ خبر ہے ؟
وہ بیخود و محو و مست ساقی سر شار مے الست باقی
وہ اشرف اولیائے درواں وہ صدر نشین بزم عرفاں
وہ زینت مسند شریعت وہ بادی منزل طریقت
وہ نائب خاتم النبین وہ صاحب عز وجاہ و تمکین
جام وحدت پلانے والا بدعات کا وہ مٹانے والا
قانع اللہ کی رضا پر حاضر ارشاد مصطفیٰ پر
وہ حامی دیں امین سنت وہ غوث زماں حکیم امت

وہ کون ؟ مجدد زمانہ وہ کون ؟ محدث ہگانہ
اللہ اللہ شان کیا ہے جس نے یہ کہا ہے سچ کہا ہے
خاصان خدا خدا نباشند لیکن زخدا جدا نباشند
ہاں ایک نظر ادھر ساقی
کچھ مہر غلام پر بھی ساقی
اب تو اپنا سے بنا لے اس کی ہستی ترے حوالے
میخانے میں جس قدر ہو مے دے صدقے ان انکھڑیوں کے صدقے
منہ مانگی مراد وصل پائے محروم نہ تیرے در سے جائے
بہ طالب عزت غلامی مقبول حسیش ہگرامی
در پہ تیری پڑا ہوا ہے تیرا صدقہ وہ مانگتا ہے
دے دے کچھ بھیک اس کو دیدے جاگے اس کا نصیب جاگے
گلزار امید میں کھلیں پھول مقبول ہو عرض وصل مقبول
یہ دور یہ ملیدہ تک
اےتھانہ بھون تجھے مبارک
خانقاہ امدادیہ
جو پہلے حضرات اقطاب ثلاثہ شیخ المشائخ قطب الاقطاب غوث وقت حضرت
حاجی شاہ امداد اللہ صاحب تھانوی مہاجر مکی سلطان العارفین سراج السالکین حضرت حافظ
محمد ضامن صاحب شہید تھانوی اور افضل الفضلا اکمل الکملا حضرت مولانا شیخ
محمد صاحب محدث تھانوی قدس سرہ اسرار ہم ونور اللہ مرقد ہم خلفائے سرجات اولیاء شہنشاہ
اصفیاء مخدوم محترم الاتقیاء حضرت میں جی نور محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی ایک جگہ
مخلتف حجروں میں قیام کی وجہ سے دکان معرفت کہلاتی تھیں اس کی وہ متبرک سہ دری اور وہ
مخصوص پر انوار و برکات حجرے جن میں خصوصیت کے ساتھ حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ

علیہ کی ایسی مقدس ترین ہستی رونق افروز تھی جن میں بڑی بڑی عبادتیں ریاضتیں اور
مجاہدات کئے تھے آج بھی روز افزوں ترقیوں کے ساتھ گوناگوں تجلیات سے معمور ہیں –
خانقاہ شریف کا ذرہ ذرہ آفتاب عالمتاب بنا ہوا ضیا باری کر رہا ہے حقیقت و معرفت کی شمع
آج بھی روشن ہے اور شریعت و طریقت کا ناپیدا کنار سمندر آج بھی یہاں لہریں لے رہا
ہے طالبان معرفت آتے اور سیراب ہو کر چلے جاتے ہیں شمع کے گر پرانوں کا ہجوم ایک
عجیب نظارہ ہے آنے والے کسی وضع قطع کے ہوں ان سے بھی کوئی خشگی نہیں برقی جاتی
لیکن زیادہ وقت نہیں گزرنے پاتا وہ بھی اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں وہ بھی شریعت و
طریقت کے دیوانے نظر آتے ہیں – ان کو بھی رضائے خداوندی کی دھن ہوجاتی ہے اور وہ
بھی عرفان کی منزلوں کو طے کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں نہ ان سے کچھ تعرض کیا جاتا ہے نہ
ان کو بطور خطاب خاص کچھ کہا جاتا ہے – صرف ایسی گرامی صحبت کے وہ بابرکت لمحات جو
بغیر اثر کئے ہوئے نہیں رہ سکتے کارفرمائی کرتے ہیں – میر مجلس کا جاذب نظر وہ پر اخلاص عمل
اور حاضرین کا حسن اعتقاد و ذوق اتباع یہی وہ چیزیں ہیں جو افعال واعمال کیا طبائع میں
انقلاب پیدا کردیتی ہیں ہر قول مین صدق ہر عمل میں حقانیت ظاہر وہ باطن میں خلوص میتیں
پاک ارادے نیک اور ہر ہر قدم پر صراط مستقیم پر چلنے کی خواہش یہی انداز اپناوالہ وشیدا بنا
لیتے ہیں یہی وہ باتیں ہیں جن پر دنیا مٹی ہوئی ہے –
جس برگزیدہ ہستی کی ہر ساعت اعلامے کلمۃ الحق میں گزری ہو جس کا ہر نفس احیائے سنت
اور تبلغ شریعت میں صرف ہوا ہو جس کی ساڑھے سات سو سے زیادہ تالیفات و تصنیفات سے
ایک عالم فیضیاب ہو رہا ہو- اس کی کدمت کا کیا اندازہ اور شمار ہوسکتا ہے – یہی نہیں جس نے
اپنی عمر گرامی کا بہت بڑا حصہ درس و تدریس لے علاوہ مواعظ وپبد نصائح ارشاد وہدایت اصلاح
نفوس و قلوب میں گزار ہو کیا ایسی مثال آسانی سے مل سکتی ہے جس نے مشرق و مغرب شمال و
جنوب ہندوستان کے اطراف و جوانب میں خود جاکر جام شریعت اور ساغر معرفت سے جانے
کتنوں کو متوالا بنایا ہو ایسے ساقی کی کہیں نظیر ہائی جاسکتی ہے جو اس کبر سنی میں بھی تعلین و تلقین
کے لئے ہر وقت مستعد اور مریضان معصیت کی مسیحائی کے لئے ہر لحظہ تیار ہوا یسےعارف ایسے

ہادی ایسے رہبر ایسے محسن معالج اور ایسے حکیم کا ثانی کہیں مل سکتا ہے
ز سرتا ناخن پایت سراسر نازمی بینم کجا حد ست حسنت راہنوز آغازمی بینم
حضرت والا کے اسفار
حضرت والا کے بے شمار سفروں میں سے پہلا سفر 1301 ھ میں شروع ہوا اور اخیر سفر
غالبا 1343 ھ میں ختم ہوا – جن لوگوں نے حضرت والا کے سفر کی حالت دیکھی ہے سفر میں
حضرت والا کے ساتھ رہے ہیں ان سے حضرت والا اصول سفر پوچھئے آئین و قواعد
دریافت کیجئے – معمول سے معلولی باتوں پر خیال کہ کوئی امر خلاف شریعت نہ ہو اس کی
حالت وہی بناسکتے ہیں – سفر میں حضرت اقدس کے فیوض و برکات کی کیفیت دیکھنے والے
آج بھی بکثرت موجود ہیں ان کے مشاہدات آج بھی شہادت دے سکتے ہیں –
ایک زمانہ میں اس خادم کو بھی خوش قسمتی سے ہر دوئی سے لکنؤ – کانپور سے قنوج قنوج
سے تھانہ بھون تھانہ بھون سے دہلی گورکھ پور سے لکھنو حضرت والا کے ہمرا سفر کرنے
اور خدمت میں رینے کی سعادت حاصل ہوئی – کچھ نہیں کہہ سکتا کیا دیکھا کیا پایا یہ وہ
چیزیں ہیں جو بیان میں آہی نہیں سکتیں – بس من کم یذق لم یدر کا مصداق ہے
کیا کہوں میں کہ میں نے کیا دیکھا کیا بتاؤں کہ میں نے کیا پایا
میں نے دیکھا سفینئہ اسلام میں نے قسمت نسے ناخدا پایا
میں نے دیکھا جمال پر انوار میں نے آنکھیں کو پر ضیا پایا
میں نے دیکھا جو دیکھنا تھا مجھے میں نے جو کچھ تھا مدعا پایا
میں نے دیکھا فزوں توقع سے میں نے امید سے سوا پایا
میں نے دیکھا فزوں توقع سے میں نے امید سے سوا پایا
ترک سفر
شوال 1334 ھ کے بعد سے حضرت والا نے سخت مجبوریوں کبر سنی اور ضعف کے
باعث ترک سفر کا مصمم عزم فرمالیا اور کسی صورت میں کسی کی درخواست منظور نہیں فرمائی –
لیکن پھر بھی اپنی ذاتی ضروتوں اور اپنی وجہ سے دوسروں کو تکلیف سے بچانے کے لئے چار
مرتبہ سفر کی زحمت گوارا کرنا پڑی –

مقدمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حامدا و مصلیا
التماس آشفتہ حال
1357 ھ
رازے کہ بر خلق نہفتیم و نلتقیم با دوست بگوئیم کہ او محرم راز ست
اے مجلسیاں ! سوز دل حافط مسکین از شمع پیر سید کہ در سوذ و گدازست
مجھ میں آشفتہ حالی اور بیقراری کیوں ؟ سینے مین سوزش جگر میں ٹیس اور دل میں
بیتابی واضطراب کس سبب سے ہے ؟ خود میری سمجھ میں نہیں آتا – کیا بتاؤں – کیا جواب
دوں – ہر غیر کی صحبت سے پریشانی پیدا ہوجاتی ہے – کسی دوسرے کے ذکر سے طبیعت
گھبرانے لگتی ہے – ہر وقت یہی تمنا کہ اس کے پاس بیٹھو جو اپنے ساقی کا ذکر کرتا ہو – ہر لمحہ
یہی آرزو کہ اپنے ہم مشرب رندوں کے سوا دوسروں سے بات بھی نہ کروں – اس بزم میں
حاضر رہو جہاں اپنا ساقی قاسی گرمی کرتا ہو – سر میں یہی سودا کہ ہر وقت اپنے ہی ساتھی کا
تذکرہ ہو – آنکھیں ڈھونٹی ہیں تو میخانہ امدادیہ کے انوار و برکات کو نظروں کو تجسس ہے تو

تھانہ بھون کے درخشاں ذرات کی تابش کی کان سننا چاہتے ہیں تو ان پر اثر الفاظ اور پر کیف
کلمات کو جو ساقی بادۃ الست کے لب و دہب سے نکلے ہوئے ہوں – قوت شامہ کو ہوس ہے تو
صرف اس پھول کی خوشبو کی جو گلستان شریعت میں مہک کر تما عالم کو مست و بیخود بنا رہا ہو –
ہاتھ ان مبارک ہاتھوں کے جو یا ہیں جن کے زریعے کبھی کوئی عہدہ و پیمان لیا گیا تھا – پاؤں
اس منزل کی طرف چلنا چاہتے ہیں جو میرے ساقی کی بناتی اور دکھائی ہوئی ہو خیالات متحمل
ہیں تو ایسے مالک بہار عالم حسن کے تصور کے جس کے لئے کہا گہا ہے
بہار عالم حسنش دل و جاں تازہ می دارد
برنگ اصحاب صورت رابہ بوار باب معنی را
مجھے نہیں معلوم کیا ہوگیا ہے سودائی ہوگیا ہوں یا بنادیا گیا ہوں – کسی وقت چین نہیں
سکون نہیں تمام جسم میں آگ لگی ہوئی ہے یا لگادی گئی ہے کسی طرح نہیں بجھتی بلکہ میں دیکھتا
ہوں کہ روز بروز تیز ہوتی جاتی ہے – جبان مجذوب
سے سوختہ جان ! پھونک دیا کیا مرے دل میں
ہے شعلہ زن اک آگ کا دریا مرے دل میں
اب تو یہ حالت ہے کہ اگر چند دن کے لئے تھانہ بھون سے باہر جاتا ہوں تو اپنے قابو
میں نہیں رہتا چاہتاہوں کہ ہر گھڑی یہیں بسر ہو اور ہر پل خدمت ساقی میں گزرے ساقی کا
جادہ جہاں آرا سامنے ہو اور دور چل رہا ہو –
ابھی زمانہ نہیں گزرا یہی عالم تھا – دیوانگی نے بڑھنا شروع کیا تھا کہ پنجشنبہ 13 جمادی الاخریٰ
1357 ھ مطابق 11 اگست 1938 ء کو میرے ساقی – میرے آقا – میرے مولا – میرے ہادی
میرے رہبر – میرے حامی میرے یارو شیخ الشیوخ عالم فیوض و برکات مجسم – قطب یگانہ –
غوث زمانہ حضرت حکیم الامت سراپا رحمت مولانا حاجی حافظ قاری شاہ محمد اشرف علی صاحب
تھانوی مدظہلم اللہ قوی بغرض علاج رونق افروز لکھنو ہوئے – علاج شروع ہوا – بحمد اللہ مرض
میں بھی افاقہ ہوا – طاقت بھی آنے لگی – قیام گاہ پر بے تکلف اصحاب کو حاضری کی بھی اجازت
دے دی گئی ٓ پھر مسجد خواص کے حجرے کے پاس نشست بھی ہونے لگی – مفلوظات کا سلسلہ بھی

 

جاری ہوا – معارف و حقائق کی بارش ہو رہی تھی فیوض و برکات کا دریا موجزن تھا کہ میرے دل
نے مجبور کیا اور میں نے ارادہ کرلیا جس طرح بھی ہو زمانہ قیام لکھنؤ کے ملفوظات قلمبند ہو
جائیں گے – اور خدا بزرگ و بر تر نے توفیق دی اور اس کی مدد شامل ھال ہوئی تو طبع کرا کر
شائع بھی کردیئے جائیں گے – تاکہ خلق اللہ کو ان سے فائدہ پہنچے – دور افتادہ تشنہ کاموں کو جام
فیوض کا ہدیہ بھیجا جائے اور حضوری سے معذور بیقراروں کے لئے مایہ تسکین فراہم کیا جائے –
چنانچہ اسی دھن میں میں نے اپنے سرکار مدظلہم العالی سے اجازت حاصل کی – مولوی جمیل احمد
صاحب تھانوی سے اپنی تمنا ظاہر کی – ممدوح نے اپنے لطف و کرم سے خود اس کام کی انجام دہی
کا ذمہ لیا – لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ایک اور شخص بھی ہونا چاہئے جو میری عدم موجودگی
میں اس کو جاری رکھے – کیونکہ میں ہر وقت موجود بھی نہیں رہ سکتا – اس کو سن کر میں نے عزیزی
مولوی حافظ ابرار الحق سلمہ ابن جناب مولوی محمدود الحق صاحب بی اے ایل ایل بی ایڈوکیٹ
ہر دوئی و مجاز صحبت حضرت اقدس مدظہلم العالی کے سپرد یہ خدمت کی انہوں نے طیب خاطر
اس کو منظور کر لیا – بلکہ باعث برکت و سعادت سمجھا اور اس طرھ جو ملفوظات قلبند ہوسکے ان کا
ایک اچھا خاصہ مجموعہ تیار ہوگیا لیکن اس کی ضرورت تھی کہ حضرت اقدس کے ملا حظہ سے گزر
جائے – اس لئے یہ مجموعہ میں میں نے تھانہ بھون کی واپسی کے بعد حضرت اقدس کے حضور میں
ملا حظہ کی مؤدبانہ درخواست کے ساتھ پیش کردیا – حضرت والا نے سر سری نظر سے ملا حظہ فرماکر
ارشاد فرمایا کہ مولوی جمیل احمد کے قلمبند کردہ ملفوظات کی تصحیح تو آسان ہے لیکن مولوی ابرار الحق
کے لکھئے ہوئے ملفوظات کی صحت دشوار ہے – انہوں نے میرے الفاظ کو نقل نہیں کیا – یادواشت
لکھ کر میری گفتگو کو بطور روایت بالمعنیٰ کے اپنی عبارت میں لکھا ہے اور سی وجہ سے الفاظ
مطلب واقعہ غرض وغایت سب میں کچھ فرق آگیا – میرے لئے اس ضعف میں نئے سرے
سے دماغ پر زور ڈال کر واقعے کو سوچنا اور لکھنا غیر ممکن ہے – اس کے معلوم ہونے پر جس قدر
مجھے پریشانی ہوئی وہ بیان میں ہیں آسکتی – خدا وند تعالیٰ بڑے کریم وکار ساز ہیں – دیکھتا کیا
ہوں کہ محترمی جناب مولوی اسعد اللہ صاحب مدرس مدرسہ مظاہر العلوم سہانپور و مجاز طریقت
حضرت اقدس مدظلہم العالیٰ تشریف لا رہے ہیں – معلوم ہوا کہ پورا رمضان المبارک کا مہینہ

تھانہ بھون ہی میں ختم ہوگا – عید کی نماز پڑھ کر واپس جائیں گے – ان سے مولوی ابرار الحق
سلمہ کے تحریر کردہ ملفوظات کی کوتاہیں بتا کر تکمیل کی استدعا کی – اور موصوف نے انتہائی محبت و
مسرت کیساتگ اس کو قبول و منظور فرمایا اور خاص توجہ و کوشش کے ساتھ ان کی تحریر کو بغور ملاحظہ کر
کے جا بجا صاحب ملفوظ سے تحقیق کر کے درست کیا مربوط اور صاف کر کے تمام خامیوں کو نکال
کر رمضان شریف کے اندر ہی مجھے دیدئے – خدا کا شکر ہے کہ حضرت والا نے ان کو پسند فرما
لیا اور اس طرح میری دعا مقبول اور رتمنا کامیاب ہوگئی –
میں چاہتا تھا کہ ملفوظات کی صحت ہوجائے اور یہ فورا طبع کرا کے شائع کردیئے جائیں –
حضرت اقدس نے میری بے تابی کی حالت ملا حظہ فرما کر جلد سے جلد نظر اصلاحی کے کام کو ختم
فرمادیا اور اپنی کاص شفقت سے جامع کے ناموں کی مناسبت پر غور فرماتے ہوئے مولوی جمیل
احمد صاحب کے جمع کردہ ملفوظات کا نام جمیل الکلام اور مولوی ابرار الحق سلمہ کے جمع کردہ
ملفوظات کا پہلا نام نزول الابرار اور جناب مولوی اسعد اللہ صاحب کی تصیح کے بعد دونوں جامع
کے ناموں کی رعایت سے دوسرا اخیر نام اسعد الا برار تجویز فرمایا –
اسی گزشتہ رمضان المبارک میں میں بھی برابر حاضر تھانہ بھون رہا – میں نے ارادہ کیا کہ
ان ملفوظات کے شروع میں مختصر سادیباچہ لکھ کر شامل کردوں جس میں لکھنو کے سفر کا ضمنا
ٹزکرہ بھی ہو – لیکن جس وقت لکھنے بیٹھا ہوں تو اس وقت کچھ حالات ہی اور ہوگئی – لکھنو کے
سفر کے ساتھ ایک اور سفر کا خیال آگیا وہ لاہور کا سفر تھا – جو لکھنو کے سفر سے پہلے قریب تر
زمانے میں ہوا تھا – دل میں ایک جوش پیدا ہوگیا کہ کسی طرح وہاں کے حالات معلوم ہوں
اور دیباچے میں ان کا بھی اضافہ ہوجائے –
دور چلے دور چلے ساقیا اور چلے اور چلے ساقیا
تمنا تو یہ تھی کہ تمام عمر اور عمر کی ہر ساعت اپنے آقا ہی کا تذکرہ لکھتا رہوں – مخلتف عنوان
سے اس کا ذکر کیا جایا کرے زبان سے اپنے آقا ہی کا بیان ہو – اور تحریر میں اپنے آقاہی
کے مناقب و فضائل ہوں – اپنے آقا ہی کا تصور رہے – اور اپنے آقا ہی کی دھن – وہ کون
آقا جس جس کےحسن کی خوبیوں کا تحریر میں لانا آسان کام نہیں اور حسن بھی کیسا حسن خداداد ۔

دلفریبان نباتی ہمہ زیور بستند دلبر ماست کہ با حسن خدادا آمد
میں نے بسم اللہ کہہ کر سفر لاہور کے حالات دریافت کرنا شروع کئے – اتفاق وقت اور
میری خوش قسمتی سے مخدومی جناب مولانا خیر محمد صاحب جالندھری محترمی جناب مولوی محمد
حسن صاحب امر تسری مکرمی جناب حیکم عبد الخالق صاحب امر تسری مشفقی جناب مولوی ظہور
الحسن صاحب عطونی جناب مولوی اسعد اللہ صاحب مدرسین مدرسہ مظاہر العلوم سہانپور
( کہ ان حضرات نے اس سفر کے حالات کا مشاہدہ فرمایا تھا ) اسی رمجان المبارک میں
تشریف لے ائے اور میرے ممدو مواعن ہوئے – میں نے اپنی پوری جدوجہد سے ان سے
سوالات پر سوالا کر کے حالات دریافت کئے ان سے یادواشت لکھوئی اور اس طرح
سفر نامے کے لئے کافی مواد فراہم کرلیا – حضرت اقدس کے ناسازی مزاج کے حالات آغاذ
اور بہت کچھ سفر لاہور کے متعلق واقعات کے لکھنے میں مخدومی جناب مولوی شبیر علی صاحب
نے میری امداد فرمائی – سفر لکھنو کے حالات کے سلسلے میں بہت سی یاد دوشتیں جناب مولوی
اجمل احمد صاحب تھانوی سے حاصل ہوئیں اور با وجود اس کے کہ میں نے اس سفر نامہ کو بہت
مختصر کرنا چاہا میرے ذوق میرے جزبات اور میرے طبعی جوش کی وجہ سے وہ ایک اچھا خاصہ
رسالہ ہوگیا – میں تو چاہتا تھا ہر ادائے حسن کو ظاہر کردوں مگر اس کی بھلا کس کو قدرت تھی –
گر مصور صورت آن دلستان خواہد کشیدہ لیک حیرانم کہ نازش راچساں خواہد کشید
اور سچ تو یہ ہے کہ کس کس چیز کو ظاہر کرتا
خوبی ہمیں کرشمہ و ناز خرام نیست بیسار شیوہ ہاست بتاں راکہ نام نیست
روحی فداہ
آفا قہا گردیدہ ام مہر بتاں ور زیدہ ام بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری
یہ ذکر اور تذکرہ تو ایسا تھا کہ تمام عمر لکھتا اور تمام نہ ہوتا – خیر خدا تبارک و تعالیٰ کا ہزار
ہزار شکر ہے کہ اس نے اس قدر ذخیرہ فراہم کردیا جو میرے لئے موجب صد افتخار ہے ورنہ کہاں
مجھ سا بے بضاعت اور کہاں حضرت حیکم الامت مدظلہم العالیٰ کے سفر کے حالات کا جمع کرنا
کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل نسیم صبح ! تیری مہربانی

ملفوظات کی طرح اس سفر نامے کو بھی میں نے آپنے آقا کے حجور میں پیش کردیا وہاں
سے اس کا مسودہ خلعت صحت کے ساتھ واپس عطا ہوا – اس کے بعد احتیاطا میں نے وہی
مسودہ اپنے محترم سراپا لطف و کرم جنان خان بہادر خواجہ عزیز الحسن صاحب غوری بی اے
انسپکڑ مدارس آلٰہ آباد مؤلف اشرف السوالخ کی خدمت میں بھیج دیا – وہاں سے بھی نظر ثانی
سے مزین ہو کر میرے پاس آگیا – اب میں حضرت اقدس کی منظوری کے بعد اس کو
ارمغان جادواں کے تاریخی نام سے موسوم کرتا ہوں – اور حضرت اقدس کی غایت شفقت
و تجویز گرامی سے ان ہرسہ اجزا یعنی ارمغان جادواں جمیل الکلام اور اسعد لا برار کے مجموعہ کا
نام الاسفار عن برکات بعض الاسفار ملقب بہ الفصل للوصل قرار پایا ہے جو لوح پر زینت
و برکت کے لئے درج کردیا گیا ہے – علاوہ اس کے جب یہ خیال تھا کہ صرف لکھنؤ کے سفر
کے حالات جمع کئے جائیں اس وقت اس مجموعہ کا نام بہار لکھنو رکھا گیا تھا لیکن جب لاہور
اور دونوں جگہ کے سفر کے حالات جمع ہوگئے تو حضرت والا نے اپنی زبان فیض ترجمان سے
یہ مصرع ارشاد فرمایا ع لاہور و بہار لکھنو اس مصرع کو سن کر راقم لحروف نے پہلا
مصرع ؛؛ بے بہازیبا نفیس و دلفزا ملا دیا جس سے پورا شعر تاریخی ہوگیا – اب اس کو یوں
پڑھئے اور عیسوی تاریخ کا شمار کیجئے
بے بہا زیبا نفس نفیس و دلفزا باغ لاہور و بہار لکنھو
368 1938 ء 1570
یہ شعر بھی لوح پر درج کردیا گیا – خدا کرے یہ مجموعہ جلد
شائع ہو کر خلق خدا کے لئے فائفہ مند اور کار آمد ثابت ہو –
اب مجھے سب سے پہلے خالق جل وعلیٰ کے فضل و توفیق کا ہر بن مو سے شکر ادا کرنا ہے – ومن
شکر فانما یشکر لنفسہ ومن کفر فان اللہ غنی حمید اس بے بضاعت ابان سے
شکر – بس کا احصی ثناء علیک انت اثنیت علی نفس – اس کے بعد اپنے
آقا و مولانا حضرت حکیم الامت مدظلہم العالیٰ کے بے پایاں الطاف و بے نہایت کرم بے کراں
شفقت اور توجہ خاص کا شکر ادا کرنا چاہئے جن کی بدولت آج یہ مجموعہ مرتب ہو کر طباعت کے لئے

بھیجا جارہا ہے – لیکن اس کے لئے الظاف کہاں سے لاؤں بے جانہ ہوگا اگر یہ عرض کروں –
شکر نعمت ہائے تو چنداں کہ نعمت ہائے تو
اسی کے ساتھ مذکور الصدر اخوان میکدہ کی مخلصانہ نوازشوں پر ہدیہ تشکر پیش کرنے کا اعزاز
حاصل کرتا ہوں –
گر قبول اتتدز عز و شرف
آخر میں مجھے اتنا اور عرض کرنا ہے کہ ارمغان جادواں اور اس التماس آشفتہ حال میں کئی
جگہ میرے قلم نے وہ انداز اختیار کیا ہے جس کا تعلق صرف میرے جزبات میری عقیدت اور
میرے ذوق سے ہے نہ شاعری کی گئی ہے اور نہ مبالغے کا اس میں دخل ہے – جو کچھ لکھا ہے
میں نے اپنی عقیدت کے تحت میں – جو آواز بلند کی ہے وہ اپنے دلی جزبات کے اثر سے اور
صرف اہل ذوق کے سننے اور لطف اٹھانے کے لئے میرے مخاطب یہی حضرات ہیں – غیر
سے واسطہ نہیں – اب اس کے بعد کوئی کچھ کہے میری ذمہ داری نہیں – کسی عارف کا قول ہے
بامدعی مگوئید اسرار عشق و مستی بگزارتا بمبیرد در رنج خود پرستی
اور میں تو ان حضرات سے یہ عرض کروں گا
گفتہ بودم فساد در مستی تو شنبدی چراز عالم ہوش
والسلام
اؤارہ دشت گمنامی
احقر کونین سید مقبول حسین وصل بلگرامی غفرلہ اللہ السامی
خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون

تصدیق و توفیق

تصدیق و توفیق از احقر اشرف علی عفی عنہ
بعد حمد وصلوٰۃ میں نے مجموعہ مسمی بہ الاسفار عن برلات بعض الاسفار ملقب
بالفصل یعنی السفر للوصل ( لما امر اللہ بہ ان یوصل الشامل للافادات الدینیہ ) کو
جس میں میرے سفر لاہور لکھنو کے واقعات و حالات اور دوسرے سفر کے
ملفوظات و مقالات ھمع کے گئے ہیں مع اس کی تمہید کے حسب استداعء جناب
مولف سملہ حرما حرفا دیکھا ملفوظات کو تو حسب معمول نظر عمیق کے ساتھ دیکھ
کر اس میں با قاعدہ مکمل اصلاح کی گئی اور بقیہ میں محض معنوں کو مطمع نظر رکھ کر
حسب حاجت خاص موافق پر تغیر و تبدل کیا گیا اب یہ مجموعہ میرے نزدیک
باعتبار مضامین کے صحیح اور مکمل ہے البتہ حالات کے حصہ میں با وجود صحت
واقعات فرط محبت میں بعض مقامت پر محض عنوان میں قدرے مبالغہ کیا ہے
جو صدق کی حد سے نہیں نکلتا اور ایسے داخل حدود مبالغہ کو بزرگوں نے ہمیشہ
جائز رکھا ہے اور خود ان کے کلام میں بھی پایا جاتا ہے اور گو ایسے عنوانات کا بدلنا
ممکن تھا اور عدم تبدیل موہم حب مدح کا ہوسکتا ہے لیکن میں نے ابقاء کو
جناب مؤلف کے جذبان کی رعایت اور اپنے حق میں مستقبل کے اعتبار سے
فال صلح سمجھ کر تصرف نہیں کیا اب دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس مجموعہ سے
طالبان دین کو کو نفع و عملی عطا فرماویں اور جناب مؤلف اور اس ناکارہ کو اپنی
رحمت و ضائے مشرف فرمادیں – والسلام فقط –
مقام تھانہ بھون 26 محرم 1358 ھ