(ملفوظ 45)توفیق ذکر بڑی دولت ہے :

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ کیا تھوڑی بات ہےکہ ذکری کی توفیق ہوجائے یہ ہی بڑی دولت بری نعمت ہے ہمارے حضرت حاجی اس بارہ میں فرمایا کرتے تھے ۔
یابم اور ایا نیابم جسجوئے میکنم حاصل آید یا نیا ید آرزوئے میکنم

(ملفوظ 482)حضرت حکیم الامت کے اصول ماخذ شرعیہ ہیں

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں ہوں غریب آدمی کوئی محکمہ میرے ہاتھ میں نہیں مگراللہ تعالیٰ نے دل میں اصول ایسے پیدا فرمادیئے ہیں جن پر ایک سلطنت چل سکتی ہےاور اس کی رفتار میں ذرہ برابر تنگی یا رکاوٹ نہیں ہوسکتی اور ان اصول کا ماخذ احکام شرعیہ ہیں اس لئے جی چاہتا ہے کہ سب امور میں احکام اسلام کا نفاذ ہو اور شریعت کے موافق سب انتظامات ہوں ۔
الحمد للہ حصہ چہارم ،، الافاضیات الیومیہ ،، کا تمام ہوا ۔

(ملفوظ 481) معاشرتی کوتاہیاں :

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ یہ اہل اموال جو ہم لوگون کے ساتھ معاشرتی کوتاہیاں اور غلطیاں کرتے ہیں ان کی اس بے پروائی کی وجہ محض ملانوں کی کم وقعتی ہے کم عقلی نہیں ۔ میرے دل میں تو یہ بات تجربہ سے گئی تھی ۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ذراسی بات پر بگڑے مگر میری نظر اس بات کے منشاء پر ہوتی ہے گو غلطی زیادہ ثقیل نہ ہو مگرجب منشاءاس کا تذلیل وتحقیر ہوگا تو ظاہر ہے کہ ناگواری بھی شدید ہوگی ۔

(ملفوظ 480)مقبولین سے نسبت بہت بابرکت ہے

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مقبولین سے نسبت ہونے کی بھی بڑی برکت ہوتی ہے خواہ حسی ہو یا معنوی ایک مرتبہ حضرت حاجی صاحب رحمتہ للہ علیہ کے کسی مرید نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا فرمایا کہ ہماری طرف سے اپنے پیر کے سرپر ہاتھ رکھنا وہ ہماری اولاد میں سے ہیں صبح کو مرید نے حضرت حاجی رحمتہ اللہ علیہ سے یہ خواب بیان کیا آپ نے سر آگے کردیا ۔ کہ حکم کا امتثال کرو مرید جھجکا کہ میرا ہاتھ اس قابل کہاں فرمایا کہ جھہکتے کیوں ہو یہ تو حکم کا امتثال ہے اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ایک مرتبہ بعض کاغذات کی وجہ سے مجھ کو فاروقیت کے متعلق کچھ تردد ہوگیا تھا ۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص نے مجھ سے نسب کے متعلق پوچھا میں نے کہا سنا ہے کہ فاروقی ہیں اس شخص نے کہا کہ میں حضرت عمررضی اللہ عنہ سے پوچھ کرآؤں میں ڈرا کہ کہیں کرکری نہ ہو پھر خیال ہوا کہ اچھا ہے ایک طرف معاملہ ہوجاوے گا میں نے کہا کہ ہاں پوچھ آؤ وہ دوڑا گیا اور دوڑا آٰیا اور کہا کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھ آیا ہوں ۔ فرماتے ہہیں کہ ہاں ہماری اولاد میں سے ہے حافظ غلام مرتضی صاحب مجذوب سے والدہ صاحب کے متعلق عرض کیا گیا تھا کہ اس کے اولاد زندہ نہیں رہتی انہوں نے فرمایا کہ کیسے زندہ رہے عمر اور علی کی کھینچا تانی میں مرجاتے ہیں اب کی باراولاد ہوتو علی کے سپرد کردینا بڑا طویل قصہ ہے بناء اس کی یہ تھی کہ والد صاحب صاحب فاروقی ہہں اور والدہ علوی اور اب تک نام اور اب تک نام والد صاحب کے نام کے مناسب رکھے جاتے تھے مجزوب صاحب نے والدہ کے خاندان کے مناسب نام بتلایئے اس سپردگی میں اسی طرف اشارہ تھا ۔ اس میں بھی تائید ہے فاروقیت کی گو اس میں حجیت مگر حجتہ کی تقویت ہے ۔

(ملفوظ 479)تعلیمیات ومجاہدات کا نچوڑ

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ تمام تعلیمات ومجاہدات کا حاصل اور مقصود یہ ہے کہ بندہ کا تعلق اللہ تعالٰٰ سے صحیح معنی میں پیدا ہوجائے اسی کے پیچھے طالبین نے سلطنتیں چھوڑ دیں اور ایسی چھوڑ دیں کہ دل میں خطرہ بھی نہیں ایا ۔ حضرت ابراہیم ان اوہم بلخی رحمتہ اللہ علیہ کا قصہ ہے کہ جب انہوں نے بلخ کی سلطنت چھوڑی ہے تو جنگل میں ایک جگہ نماز کا وقت ہوگیا تو ایک کنوئیں سے پانی کھینچنا پاہا تو ڈول میں بجائے پانی کے چاندی بھری ہوئی آئی ۔ اس کو الٹ کر پھر ڈال تو ایک اشرفی آئی پھرتیسری بار جواہرات آئے۔ عرض کیا کرو ایے اللہ ! میں امتحان کے قابل تو نہیں مگر ان چیزوں کو تو چھوڑ کر آیا ہوں پھرا پانی آیا ۔ اللہ اکبر ! کیا چیز پیدا ہوجاتی ہے قلب میں جس نے امارت بلخ کو تلخ کردیا ۔ ان کا ابتدائی واقعہ ترک سلطنت کا یہ ہوا کہ یہ پڑے ہوئے آرام فرمارہے تھے کہ چھت پر آہٹ معلوم ہوئی دریافت کیا کون کہا کر میں ایک شخص ہوں جس شخص ہوں جس کا اونٹ گم ہو گیا ہے اس کو تلاش پر اونٹ کیوں نہیں مل سکتا اس سے ایک کھٹک پیدا ہوگئی اور سلطنت چھوڑدی ۔
یہ ا براہیم ابن اور ادہم بلخی حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں بہت بڑے عالم ہیں محدث فقیہ ہیں نرے درویش ہی نہیں اور تبع تابعی بھی ہیں ۔ ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے تابعی ہونے میں اختلاف ہے مگر راجح تابعیت ہے ۔

(ملفوظ 478)فرشتہ صفت کی صحیح تعریف :

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج گلا تو بزرگ وہ سمجھا جاتا ہے جو فرشتہ صفت ہو مطلب یہ ہے کہ باگوار بات اس کو ناگوارنہ ہو غصہ کی بات پر اس کو غصہ نہ آئے اس کو کہتے ہیں کہ فرشتے صفت ہیں لیجئے فرشتے کی صفت بھی سن لیجئے ۔ حدیث شریف سن لو ترمذی کی حدیث ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ منظر قابل دیکھنے کا تھا کہ فرعون جب ڈوبنے کے وقت اللہ تعالٰی پر ایمان لا رہاتھا اور میں اس کے منہ میں کچڑٹھونس رہاتھا کہ اس کے منہ سے یہ نکلے اس حدیث کو بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ فرشتے کو بھی غصہ کے مستحق پر غصہ آیا ۔

(ملفوظ 477)آداب ہدیہ

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک صاحب یہاں پر آئے پرتکلف آدمی تھے ظہر سے عصر تک بیٹھے رہے کچھ نہیں بولے بعد نماز عصر کے پوچھتے پھرنے لگے کہ میں کچھ بطور ہدیہ کے لایا تھا کس کے ہاتھ گھر بھیجوں جاننے والوں نے ان سے کہا کہ ایسا مت کرنا بیچاروں کو دینے ہی میں پریشانی ہورہی تھی پھر فرمایا ہدیہ دینا پڑا مشکل ہے لینا تو بہت آسان ہے لیا جیب میں رکھ لیا جیسے ایک پیر جی کا مقولہ ہے کہ کھانا کون مشکل ہے منہ میں رکھا نگل لیا منہ میں رکھا نگل لیا ، اسی طرح لیا جیب میں رکھ لیا مگر دینا بڑا مشکل ہے اس لئے کہ اس میں یہ رعایات کرنی پڑتی ہیں کہ جس کو ہدیہ دیتے ہیں اس کو شرمندگی نہ ہو حجاب نہ ہو اور کسی عارض کے سبب بے موقع بے محل نہ ہو سب آداب ہیں ہدیہ کے ایسے ہی عورت کے آداب ہیں آج مولانا شیخ محمد صاحب کا حکایت سنی ہے ۔ سہارن پور میں ایک مرتبہ کسی شخص نے دعوت قبول کرلی بزرگ تھے شفقت سے قبول کرلی بعد کھانا کھانے کے وعظ کی درخواست کی بہت باگوار ہوا مگر مولانا غصہ میں غل شور نہ کرتے تھے بہت ہی متانت اور وقار سے رہتے تھے مگر آٹھ آنہ نکاح کرپیش کردیئے عرض کیا کہ حضرت یہ کیا فرمایا کہ یہ کھانے کی قیمت ہے جس کے زور پرعظ کی درخواست نہایت ہی بے محل تھی ۔

(ملفوظ 476)آہستہ بولنے پر تنبیہہ :

ایک صاحب کے بہت آہستہ بولنے پر جس سے سنائی بھی نہیں دیا متنبہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ لوگ کہتے ہونگے کہ کس قصائی سے پالا پڑا میں کہتا ہوں کہ کن بیلوں سے پالا پڑا قصائی اور بیلوں کا جوڑ بھی ہے ۔

(ملفوظ 475)معاملات میں مساوات نہیں :

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں ایک زمانہ تک اس خیال میں رہا کہ معاملات میں سب میں مساوات ہونا چاہئے مگر حدیثوں میں غور کرنے سے معلوم ہوا کہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی مساوات نہ فرماتے تھے ۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ خود مجلس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرات شیخین کے ساتھ جو معاملہ لطف و عنایات کا فرماتے تھے دوسروں کے ساتھ نہ فرماتے تھے ۔
کما فی جمع الفوائد عن الترمذی عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یخرج علی اصحابہ من المھاجرین الانصاری لایرفع طرفہ اولا الا الیٰ ابی بکر و عمر کانا ینظر ان الیہ وینظر الیھما ویتبسمان الیہ ویتبسم الیہما حاصۃ والیٰ سائراصحابہ عامۃ
( حضرت انس سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی طرف تشریف لاتے تھے جن میں مہاجر بھی ہوتے تھے اور انصار بھی ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اول حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ہی کی طرف نظر فرماتے تھے اور وہ دونوں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نظر رکھتے تھے اور حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھتے رہے تھے اور وہ دونوں تبسم کرتے رہتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تبسم فرماتے رہتے تھے یہ سب حالت خاص طور پر ان دونوں کے ساتھ ہوتی تھی اور باقی صحابہ کے ساتھ عام طور پر ہوتی تھی )
جب حضور نے اس کا اہتمام نہیں فرمایا تو ہم کیا چیز ہیں ۔

(ملفوظ 474) واسطہ بننے پر کوئی راضی نہ ہونا

خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ جن صاحب کو ان غلطی پر یہ فرمایا تھا کہ کسی واسطے سے گفتگو کرو کوئی شخص واسطہ بننے پر راضی نہیں ہوتا فرمایا اگر کوئی راضی نہیں تو مجھ کو اس ہی کی اطلاع کردیں میں کوئی اور طریق اختیار کروں گا ایک ہی طریقے پر مدار تھوڑا ہی ہے۔ بعض کی رائے یہ ہے کہ واسطہ بننے کے لئے کسی کو بالالتزاب منتخب کرلیا جاوے مگر اس کو پسند نہیں کرتا اس میں خرابی یہ ہے کہ جو اس طرح سے واسطہ بنیں گے ان کو مقرب اور مخصوص ہونے کا خیال پیدا ہوجائے گا اور دوسروں پر یہ اثر ہوگا کہ اس کی پرستش ہونے لگے گی ۔ بعضے پیروں اور مشائخ کے یہاں یہ بلا موجود ہے ۔ الحمد اللہ یہاں پر یہ بات بھی نہیں ۔