( ملفوظ 558 )کفار کے لئے دائمی سزا کی وجہ

فرمایا بظاہر اس پر کہ کفار جہنم میں ہمیشہ رہیں گے یہ اعتراض ہوتا ہے کہ انہوں نے اتنا بڑا گناہ کون سا کیا کہ سزائے دائمی تجویز کی گئی کیونکہ زندگی محدود گناہ محدود ـ پھر سزائے غیر محدود کا کیوں حکم ہوا ـ جواب یہ ہے کہ کفر و شرک کی حقیقت ہے بغاوت ـ دنیا میں بھی قاعدہ ہے کہ سلاطین باغی کو جلا وطن عبور دریائے شور وغیرہ سزا دیتے ہیں ـ کیونکہ سلاطین اس کے کہ عمر بھر کے لئے دے سکیں زیادہ پر قدرت نہیں رکھتے اس وجہ سے زائد سے مجبور ہیں مگر اتنا ظاہر ہو گیا کہ بغاوت کی سزا غیر محدود ہونا چاہئے اور یہ امر بمقتضائے عقل ہے چناچہ جو سلاطین پابند ملت بھی نہیں وہ بھی ایسا کرتے ہیں یہ جواب تو الزامی ہے اس کی حقیقت میں غور کرنا چاہئے حق تعالی مالک حقیقی ہیں اور ان کے صفات غیر متناہی ہیں اور ہر صفت کا ایک حق ہے اب جو شخص ایسے مالک جامع کمالات غیر متناہی کے حقوق کو ضائع کے گا اس کی سزا بھی غیر متناہی ہونا چاہئے پس یہ سزا عین موافق عقل کے ہوئی ـ
الحمدللہ حصہ سوم الافاضات الیومیہ کا تمام ہوا ـ

( ملفوظ 557 )اسلام تلوار سے نہیں پھیلا

فرمایا یہ اعتراض کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا ـ محض غلط ہے اس وجہ سے کہ اسلام میں اول جزیہ حکم ہے جب جزیہ قبول کر لیا اب تلوار مسلمان نہیں اٹھا سکتا ـ اور اس سے بھی قطع نظر کی جائے تو قابل غور ہے کہ اسلام نے مخالفین کے ہاتھ میں ایک بہت بڑی ڈھال دے رکھی ہے وہ یہ کہ جب کوئی کلمہ پڑھ لے فورا چھوڑ دو تو اس طرح پر ہر کافر وقت پر مسلمان کی تلوار کو بند کر سکتا ہے مثلا کسی کافر نے کسی مسلمان پر خوب ظلم کیا ہو ـ ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے ہوں اس کے اہل و عیال کو قتل کر ڈالا ہو غرض ہر طرح کا ظلم کیا ہو ـ اور باوجود ان مظالم کے پھر کون ایسا ہے کہ موقع ملے اور قدرت ہو اور بدلہ نہ لے ـ مگر اسلام میں ایسا حکم ہے کہ اگر اس شخص کا یا اس کے کسی یا رو مددگار کا اس پر قابو پڑ جائے اور وہ اس کا کام تمام کرنا چاہئے اور زبان سے کلمہ شریف پڑھ لے اور قرائن سے معلوم بھی ہو کہ دل سے نہیں پڑھا تب بھی حکم ہے کہ تلوار مت اٹھاؤ یہ کتنی بڑی ڈھال مخالف کے ہاتھ میں ہے پس جس مذہب کا یہ قانون ہو اس میں کیسے ممکن ہے کہ اسکی ترقی تلوار سے ہو سکے اب فرمائیے کہ اسلام بزور شمشیر کیونکر پھیلا ـ

( ملفوظ 556 ) سلطنت شخصی یا جمہوری ؟

فرمایا بعض لوگ آیت : وشاورھم فی الا مر سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ سلطنت شخصی ہو ما خلاف قرآن کے ہے شاورھم سے کثرت رائے مفہوم ہوتی ہے جو حاصل ہے سلطنت جمہوری کا مگر اس استدلال کی غلطی خود اس آیت کے اگلے جزو سے ظاہر ہے ـ واذا عزمت فتوکل علی اللہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گو مشورہ مطلوب ہے مگر بعد مشورہ مدار محض آپ کے عزم اور رائے پر ہے اس سے تو بالعکس سلطنت کا شخصی ہونا ثابت ہوا البتہ یہ ضروری ہے کہ شخصی واحد پر مشورہ کا وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن مدار کثرت رائے پر نہیں رکھا گیا بلکہ اس مستشیر ( مشورہ لینے والے ) اطلاق آیت سے اس کی بھی اجازت ہے کہ وہ بمقابلہ جماعت کے ایک کے مشورہ کو قبول کر کے اس کے موافق عزم کے لے ـ

( ملفوظ 555 )کھانے کے بعض مسنون آداب کی تحقیق

فرمایا حدیث شریف میں آیا ہے کہ : ما اکل رسول ا صلی اللہ علیہ وسلم علی خوان ولا سکرجۃ ولا خبز لہ رقاق یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چوکی اور تشتری پر کھانا نہیں کھایا اور کبھی آپ کے لئے چپاتی پکی ـ مشہور یہ ہے کہ جس کام کو آپ نے نہیں کیا وہ نہ کرنا چاہئے اور اس قاعدہ کی اس سے تائید کی کہ عیدین میں مثلا اقامت اور اذان آپ کے وقت میں نہیں ہوئی لہذا جماعتا نہ کرنا چاہئے لیکن قاعدہ کلیہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک تو ہے عدم الفعل ( کسی کام کو نہ کرنا ) اور ایک ہے ترک الفعل ( کسی کام کو چھوڑنا ) ان دونوں میں بڑا فرق ہے پس عدم الفعل تو عدم قصد سے بھی ہوتا ہے اور ترک میں اس کے اعدام ( مٹانے ) کا قصد ہوتا ہے پھر یہ قصد جس مرتبہ کا ہوگا اسی قدر عدم الفعل سے تو اس کا کرنا نا جائز نہیں ہوتا بشرطیکہ اور کوئی قباحت شرعی لازم نہ آئے اور ترک الفعل البتہ نا پسندیدگی پر دال ہے اس حدیث میں اس امر کا بیان ہے کہ اس وقت ایسے تکلفات نہ تھے پس مدلول اس کا عدم الفعل ہے نہ کہ ترک الفعل اب اگر کوئی تشتری میں کھائے یا چپاتی کھائے جائز ہے مگر از راہ افخار نہ ہو میز پر کھانے میں چونکہ افخار و تشبہ کا قبح ہے وہ اس مستقل دلیل سے ممنوع ہوگا

( ملفوظ 554 )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مغفرت کا مطلب

فرمایا کہ کسی نے دریافت کیا ہے کہ : لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک سے معلوم ہوتا ہے کہ نعوذباللہ آپ سے گناہ سرزد ہوئے ہیں فرمایا معاقب میں جواب میں یہ بات آئی کہ جب کوئی شخص نہایت خائف ہوتا ہے تو وہ ڈر کر کہا کرتا ہے کہ مجھ سے جو قصور ہو گیا ہو معاف کر دیجئے حالانکہ اس سے کوئی گناہ نہیں ہوا ہوتا اور دوسرا اس کی تسلی کے لئے کہدیتا ہے کہ اچھا ہم نے تمہارا سب معاف کیا اسی طرح چونکہ اس خیال سے آپ کو غم رہا کرتا تھا کہ مجھ سے کوئی لغزش نہ ہو حق تعالی نے تسلی فرمادی ـ

( ملفوظ 553 )اولاد کی موت پر رونا

فرمایا ایک شبہ ظاہری یہ ہوتا ہے کہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے صاحبزادے کے انتقال پر روئے ـ اور بعض اولیاء اللہ کی حکایت ہے کہ وقت مصیبت کے انہوں نے الحمد اللہ کہا اور ظاہرا الحمد اللہ کہنے والے کا مرتبہ رونے والے سے زائد معلوم ہوتا ہے حالانکہ انبیاء کے مرتبے کو کوئی نہیں پا سکتا جواب اس شبہ کا یہ کہ حق فرزند یہ ہے کہ ایسے وقت اس پر روئے حق خالق یہ ہے کہ امر الہی پر صبر کرے ـ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو جمع فرمایا حق فرزند بھی حق خالق بھی اور دونوں کو ادا فرمایا اور وہ بعض اولیاء اللہ مرتبے میں کم ہیں کہ ایک حق ان سے ادا ہوا اور دوسرا نہ ہوا اسی طرح حدیث میں ہے کہ قیامت میں بعض انبیاء بعض اولیاء اللہ پر رشک کریں گے ظاہرا اس پر بھی شبہ ہوتا ہے کہ افضل کو مفضول پر غبط کیوں ہوگا بات یہ ہے کہ غبط کئی قسم کا ہوتا ہے کبھی تو کمال کے فقدان سے سو یہ تو نہ ہوگا اور کبھی یہ سبب ایک کئی قسم کی عافیت کے مثلا کوئی بڑے عہدے پر ہو اور ذمہ داریوں کی کثرت سے یہ کہے کہ پانچ روپیہ والے مجھ سے اچھے کہ آرم سے تو ہیں اس قدر بار حساب کا تو ان پر نہیں حضرات انبیاء علیہم السلام کا رشک کرنا اسی طرح پر ہے کیونکہ انبیاء علیہم السلام کا بڑا مرتبہ ہے امت کی فکر میں مشغول ہوں گے اور بعض اولیاء اللہ ایسی مشغولی سے آزاد ہوں گے پس اس غبط کا یہ محل ہے ـ

( ملفوظ 552 )بندہ کا ارادہ کچھ نہیں

فرمایا ارادہ بندہ کا کچھ بھی نہیں حضرت علی فرماتے ہیں عرفت ربی بفسخ العزائم یعنی میں نے اپنے رب کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹنے سے بسا اوقات انسان اپنے ارادوں میں ناکامیاب رہتا ہے ہزاروں ارادے مصمم کئے مگر کچھ نہ ہوا اسی واسطے ابن عطاء اسکندری فرماتے ہیں کہ ارید ان الا رید یعنی میں نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ ارادہ نہ کروں گا اس پر بعض لوگ شبہ کرتے ہیں کہ یہ عدم ارادہ بھی ازادہ ہی ہے انہوں نے خود کیا اچھا جواب دیا ہے کہ جس ارادہ کی نفی کی جارہی ہے وہ تو اس لئے قابل ترک ہے کہ وہ خلاف تفویض و رضا ہے اور عدم ارادہ کا خود عین تفویض و موافق رضا ہے اس لئے یہ منفی و قابل ترک نہیں ـ

( ملفوظ 551 ) حیات نبوی صلی اللہ علیہ پر ایک نکتہ

فرمایا ایک شخص نے حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مجھ سے گفتگو کی میں نے کہا جو لوگ مقتول فی سبیل اللہ ہیں ان کے حق میں ارشاد ہے بل احیاء عند ربھم اور جو لوگ فی سبیل اللہ سے بڑھ کر مقتول فی اللہ ہیں وہ کیونکر زندہ نہ ہوں اور اس نکتہ پر مدار مسئلہ کا نہیں اس میں حدیث صریح موجود ہے اور یہ تائید کے درجہ میں ہے ـ

( ملفوظ 550 )حضرت غوث پاک کا جنتی ہونا

فرمایا میرے پاس ایک مولوی صاحب اور ایک عامی آئے باہمی نزاع یہ تھی کہ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ حضرت غوث پاک قطعی جنتی نہیں اور جاہل یہ کہتا تھا کہ اگر وہ جنتی نہیں تو پھر تو کون ہوگا ـ جاہل سے میں نے کہا کہ ہاں بھائی وہ جنتی نہ ہوں گے تو اور کون ہوگا مولوی صاحب مجھ سے لڑنے لگے کہ کیا دلیل ہے یقینا جنتی ہونے کی ـ میں نے کہا ذرا ٹھریئے پھر میں نے جاہل سے پوچھا کہ حضرت ابوبکر صدیق یقینا جنتی ہیں یا نہیں ـ اس نے کہا بلا شک وہ جنتی ہیں میں نے کہا کہ حضرت ابوبکر صدیق کا جنتی ہونا کیسے ثابت ہوا کہنے لگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے پھر میں نے کہا کہ حضرت غوث اعظم کا جنتی ہونا کیسے ثابت ہوا کہنے لگا کہ اولیائے امت کی شہادت مقبولیت سے میں نے کہا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں اولیاء اللہ کے ارشاد میں کچھ فرق ہے یا نہیں اس نے کہا کہ بہت ہے میں نے کہا اتنا ہی اثر دونوں ارشادوں کے اثر میں ہے یا نہیں کہنے لگا کہ ضرور ہے میں نے کہا کہ اتنا ہی فرق حضرت ابوبکر صدیق کے جنتی ہونے میں اور حضرت غوث پاک کے جنتی ہونے میں ہے یا نہیں کہنے لگا کہ ہاں ہے میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ حضرت جو آپ کا عقیدہ ہے وہی اس کا بھی ہے صرف فرق عنوان کا ہے یہ اس کو یقینی کہتا ہے آپ غلبہ ظن ـ باقی اصل معنوں میں دونوں متفق ہیں جب حضرت ابوبکر صدیق کے جنتی ہونے کا مرتبہ یقینی سے حضرت غوث پاک کے جنتی ہونے کا مرتبہ متنزل مانتا ہے اسی کا نام عدم قطعیت ہے مولوی صاحب بہت خوش ہوئے مقصود اس حکایت سے یہ ہے بلا ضرورت عوام الناس کو متوحش بنانا اور بلا دلیل ان پر بدگمانی کرنا اچھا نہیں ـ

( ملفوظ 549 )واقعہ طاس اور حضرت عمر

ایک مہمان نے اس واقعہ کے متعلق استفسار کیا کہ بروقت وصال حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوات قلم مانگا اور عمر نے کہا کہ کیا ضرور بجواب اس کے ارشاد فرمایا کہ یہ اعتراض صرف حضرت عمر پر نہیں بلکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی حق کا اعتراض لازم آتا ہے آپ پر تبلیغ احکام فرض تھی اگر کوئی حکم واجب تھا تو آپ نے کیوں نہ ظاہر فرمایا اگر اس وقت دوات قلم نہیں آئی تھی تو دوسرے وقت منگوا کر تحریر فرما دیتے ـ کیونکہ آپ کئی روز اس واقعہ کے بعد زندہ رہے ہیں چناچہ یہ واقعہ پنجشنبہ کا ہے اور وفات دہ شنبہ کو ہوئی اس سے معلوم ہوا کہ حضور کو کوئی نیا حکم ارشاد فرمانا نہ تھا بلکہ کسی امر قدیم کی جدید و تاکید تھی چونکہ حضرت عمر سمجھ گئے اس لئے آپ نے گوارا نہ کیا فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف فرمائیں ـ اس کی ایسی مثال ہے کہ طبیب کسی کو زبانی نسخہ بتلا دے پھر براہ شفقت کہے کہ قلم دوات لاؤ لکھ دوں اور مریض یہ دیکھکر کہ اس وقت ان کو تکلیف ہو گی کہے کہ کیا حاجت ہے اس وقت تکلیف مت دو اور جواب الزامی یہ ہے کہ قصہ حدیبیہ میں حضرت علی نے صلح نامہ لکھا ہے ـ ھذا اما قاضی علیہ محمد رسول اللہ کفار نے مزاحمت کی کہ ابن عبداللہ لکھو کیونکہ اس میں تو جھگڑا ہے اگر ہم رسالت تسلم کر لیں تو نزاع ہی کس بات کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے فرمایا کہ اس کو مٹا دو انہوں نے انکار فرمایا پس ایسی مخالفت تو اس میں بھی ہوئی جس طرح حضرت عمر نے مخالفت کی تھی کہ جواب الزامی مجھے پسند نہیں مگر بطور لطیفہ کے اس وقت بیان کر دیا ـ