(ملفوظ۱۰۹) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جی ہاں عنایت فرماؤں کی تو مجھ پر ہمیشہ ہی عنائتیں رہی ہیں یہ خواب ہی کا کیا کچھ کم چرچا ہوا تھا مگر خیر ہوا کرے ہوتا کیا ہے جس شخص کو حقیقت ہی نہ معلوم ہو اس کی کیا شکایت اس خواب والے پر جو مصیبت گزری اس کی تو خیر نہیں بیٹھ گئے لعن و طعن کرنے خوب کہا ہے۔
اےترا خارےبیانشکستہ کے دانی کہ چیت
حال شیرا نے کہ شمشیر بلا بر سر خورند
(تیرے پیر کاتنا بھی نہیں چبھا۔ تم کو ان شیروں کی حالت کی کیا خبر جو تلوار کے زخم کھاتے ہیں)
البتہ معترض سے یہ شکایت ضرور ہے کہ مدت تک تو کوئی کھٹک نہ ہوئی جب ایک معاند نے سوچ سوچ کر ایک اعتراض نکالا جب سب کو ہوش آیا اس واقعہ میں اگر کھٹک تھی تو اول ہی بار ہونی چاہئے تھی یہ کیا کہ ایک مدت کے بعد ایک شخض کو توجہ ہوئی وہ بھی عناد سے تو کورانہ تقلید سے متوجہ ہو گئے میرے نزدیک تو اس خواب والے کی حالت شیطانی نہ تھی یہ میری رائے ہے وہ واقع میں نہ ہو میں واقع کی نفی نہیں کرتا مگر میرے نزدیک نہ تھی بلکہ محمود حالت تھی البتہ قصد و اختیار سے ایسے کلمات کہنا کو تاویل ہی سے ہو بے شک ٹھیک نہیں اس سے عوام کو وحشت ہوتی ہے اور عوام کو تو کیا کہا جائے خواص ہی کو اس طریق سے کون سی مناسبت ہے وہ بھی گڑبڑا جاتے ہیں اس لئے بہت احتیاط واجب ہے مگر جب ایک شخص پر کسی کی حالت کا غلبہ ہی ہو تو اب کیا کیا جائے جب وہ پوچھے گا تو جواب تو دیاہی جائے گا مگر بدون مناسبت طریق اور مہارت فن کے ان جوابوں کا سمجھ میں آنا ضرور دشوار ہوتا ہے اس لئے معترض بھی معذور ہیں جب کہ وہ فن سے آشنا ہی نہیں۔
