(ملفوظ۱۰۶) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اس طریق میں شیخ کامل کے اتباع کی ضرورت ہے وہ اس راہ کا واقف ہوتا ہے وہ نفس اور شیظان کے مکائد سے آگاہ کرتا ہے شیخ کامل کے سر پر ہوتے ہوئے شیطان کچھ نہیں بگاڑ سکتا گو شیطان کے کید کے متعلق مشہور تو بہت جچھ ہے مگر حق تعالی فرماتے ہیں
ان کید الشیطان کان ضعیفا
(تحقیق شیطان کا مکر ضعیف ہوتا ہے)
اور حدیث میں ہے
فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد
یعنی ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابد سے گراں ہے اس کو کسی نے خوب نظم کیا ہے۔
فان فقیھاََ واحداََ متورعاََ اشد علی الشیطان من الف عابد
یہ اشدیت اس لئے ہے کہ شیطان شرارت سے ایک بات دل میں ڈالتا ہےاور بڑی مشکل سے اس پر جماتا ہے مگر سالک کے بیان کرنے پر شیخ نے اس کی شرارت اور مکر کو سمجھ کر ظاہر کردیا شیطان نے سر پیٹ لیا کہ اس کے برسوں کے منصوبوں پر پانی پھر گیا مگر جو اب لوگ اس دقیقہ کو نہیں جانتے وہ اسی خلجان اور الجہن میں رہتے ہیں کہ نہ معلوم شیطان کیا نقصان پہنچادے بات یہ ہے کہ شیطان دشمنی کرے بھی اور ہے ہی دشمن مگر پھر بھی علم صحیح اور توکل کے ہوتے ہوئے کچھ نہیں کر سکتا اس کی مثال ان حضرات کے مقابلہ میں خربوزہ کی سی ہے اور وہ حضرات چھری ہیں اگر خربوزہ کوشش کرکےچھری پر گرے تو خربوزہ ہی کا نقصان ہوگا اسی طرح اگر یہ اہل اللہ کا دشمن ہے تو یہی خسارہ میں رہتا ہے اس لئے اس راہ میں قدم رکھنا بدون شیخ کامل کے جو اس کے فریبوں کا خوب جاننے والا ہے خطرہ سے خالی نہیں اسی کو مولانا رومیؒ فرماتے ہیں۔
یار باید راہ را تنہامرد
بےقلاؤ زاندریں صحرا مرد
بدون شیخ کامل کے اس راہ میں قدم رکھنا ایسا ہے جیسا کہ بدون طبیب حاذق کے کوئی شخص اپنا علاج خود کرنا چاہے گو کتاب ہی دیکھ کر کرے کیونکہ کتاب کو بھی طبیب ہی سمجھتا ہے۔
