(ملفوظ 69)صاحب حاجت کو ضروری قیود کا پابند ہونا چاہئے

(ملفوظ ۶۹) ایک صاحب کی غلطی پر مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ صاحب حاجت کو چاہیے کہ خود سب ضروری قیود کا پابند ہو اور جس سے کام لینا ہے اس کو آزاد رکھے یہ ہے تربیت اصول کے موافق انسان کو ہر کام میں اہتمال اور فکر ہونا چاہئے اس پر بھی اگر کوئی گزاشت ہو جائے تو یہ سمجھ لیتا ہوں کہ بشر ہے ہاں بے فکری اور بے پروائی سے ناگواری ہوتی ہے اور میں بلاوجہ تھوڑا ہی کسی کو کچھ کہتا ہوں بے وجہ کہنا تو اس کا کام ہے یا تو متکبر ہو دوسروں کی تحقیر کے لیے باتیں نکالا کرے یا دماغ میں خلل ہو وہ الٹی پلٹی ہانکا کرے الحمدللہ یہاں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں میں سب صاحبوں سے عرض کرتا ہوں کہ یہاں مجلس میں بیٹھ کر کسی قسم کی بےاصول حرکت نہ کیجائے حتی کہ میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ جس وقت میں کسی پر مواخذہ کرو کوئی شخص میری نصرت وتائید کرے گو اس میں معتوب کو سمجھانا ہی مقصود ہو اس میں چند مفاسد ہیں ایک تو اس میں میری اہانت ہے اس کے تو یہ معنی ہیں کہ تو اور تیری اصلاح کافی نہیں جب تک ہم بیچ میں جوڑ نہ لگائیں دوسرے اس میں آنے والوں کی رہائیرعایت کی کے ان کی تفہیم کی تکمیل کر دی میری مصلحتوں کی ذرہ برابر پرواہ نہ کی گئی کیونکہ دوسرے کا دخل دینا دینے والے کو میرا مقرب سمجھیں گے اور اس میں جو مفاسد ہیں وہ بے شمار ہیں اور بزرگوں کے درباروں میں شب وروز مشاہد ہیں۔