(ملفوظ 108)عدم مناسبت پر بیعت کا نفع نہیں

(ملفوظ ۱۰۸) اوپر ہی کے سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جنگ بلقان کے رمانہ میں جب ایڈریا نوپل فتح ہوگیا ایک شخص جو نیم مولوی تھے اور خیر سے مجھ سے بیعت بھی تھے میں نے بیعت کے وقت مریض سمجھ کر جلدی قبول کر لیا تھا میرے پاس آئے اس سے پہلے ان کا خط بھی آیا تھا اس میں لکھا تھا کہ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالی بھی عیسائیت کا حامی ہے کہ غالب ہوتے چلے جارہے ہیں میں نے ڈانٹا کہ بیعت کے بعد تمہاری یہ حالت تو انہوں نے صاف کہا کہ مجھے تم سے کبھی مناسبت نہیں ہوئی اور بیعت تو اس امید پر کرلی تھی کہ اس کی برکت سے تندرست ہوجاؤں گا میں نے کہا کہ خیر ساری عمر میں ایک شخص سچا ملا میں اس سچ کی قدر کرتا ہوں اور چونکہ سچ کی جزا سچ ہے اس لئے میں بھی سچ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے پاس کبھی مت آنا چنانچہ وہ نہیں آئے یہ حالت ہو گئی ہے۔ بیعت کی اور طلب کی اسی لئے مصالح یا سفارش سے بیعت کرنے کو میں پسند نہیں کرتا۔

ایک بار میرے پاس دو شخص آئےایک مرادآباد کے اور ایک سنبہل کے۔ سنبہل والے نے کچھ گڑبڑکی تو میں نے ان سے کہا کہ جب تمہاری یہ حالت ہے تو تم آئے کیوں تو کہنے لگےانہوں نے یعنی مرادآباد والے نے ترغیب دی تھی دریافت کرنے پر انہوں نے بھی اپنے جرم کا اقرار کیا میں نے اسی وقت دونوں کو نکال دیا دیکھئے اگر ان کو محبت ہوتی تو پھر آتے۔ نکال دینے سے ہوتا کیا ہے طالب کو چین کہاں قرار کہاں یہ ایسے ہی لوگ اس مثل کے مصداق ہیں کہ ’’ عشق سعدی تا بزانو‘‘ واقعی بعضوں کا عشق گھٹنوں تک ہوتا ہے (اس کا قصہ مشہور ہے) پہلے بزرگوں نے بڑے بڑے امتحان لئے ہیں میں تو کوئی بھی امتحان نہیں لیتا ہوں میں تو شروع ہی سے تعلیم دیتا ہوں امتحان نہیں کرتا البتہ اس تعلیم ہی میں بعض اوقات امتحان بھی ہو جاتا ہے