(ملفوظ ۸۳) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل کے نیچری بھی قرآن شریف کی ایسی ہی تفسیر کرتے ہیں جیسے ایک شخص نے شیخ سعدی علیہ الرحمتہ کے شعر کی تفسیر کی تھی قصہ یہ ہے کہ ایک شخص کی کسی سے لڑائی ہوئی مار بھی رہا تھا مار کھا بھی رہا تھا اتفاق سے اس شخص کے ایک دوست صاحب بھی تشریف لے آئے اور آکر اپنے دوست کے دونوں ہاتھ پکڑلئے اب دوست صاحب کی خوب اچھی طرح مرمت ہوئی کسی نے پوچھا کہ یہ کیا حرکت تھی کہا کہ میں نے شیخ سعدی علیہ الرحمتہ کے فرمانے پر عمل کیا وہ فرماتے ہیں۔
دوست آں باشد کہ گیردست دوست در پریشاں حالی ودر ماندگی
یہی حالت ان لوگوں کی تفسیر دانی کی ہے یہاں پر ایک ڈپٹی کللٹر آئے تھے وہ بھی نیچری خیال کے تھے کہنے لگے کہ میں کچھ پوچھ سکتاہوں سمجھ گیا کہ کوئی اس ہی قسم کا سوال کریں گے جس خیال کے ہیں یہ بھی آج کل مرض عام ہے ان لوگوں میں کہ نصوص میں عقلی شبہات نکالتے ہیں نیں نے کہا کہ پوچھئے مجھ کو جو معلوم ہوگا عرض کردوں گا انہوں نے کہا کہ سود کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے یہ طرز سوال بھی نئی روشنی والوں کا ہے کہ بجائے حکم شرعی کے خیال کو پوچھا کرتے ہیں میں نے کہا کہ میرا خیال ہوتا آپ کو معلوم ہے کہ میں فلسفی شخص نہیں ہوں مزہبی شخص ہوں قرآن و حریث کا حکم ظاہر کر دینا میرا کام ہے قرآن و حدیث سے جواب دونگا میرے اس جواب پر ان کے سوالات کا بہت بڑا ذخیرہ ختم ہوگیا پھر میں نے کہا حق تعالی فرماتے ہیں۔
واحل اللہ البیع و حرم الربو۔
کہنے لگے فلاں نظامی دہلوی تو اس کی یہ تفسیر کرتے ہیں میں نے کہا آپ قانون کی دفعات کی بناء پر فیصلے دیا کرتے ہیں آپ وہ قانون اور دفعات مجھ کو دیجئے میں اس کی شرح کرونگا آپ اس شرح کی موافق فیصلے لکھا کریں پھر دیکھئے کہ گورنمنٹ سے آپ پر کیسی لتاڑ پڑتی ہے اور جواب طلب ہوتا ہے اس پر آپ گورنمنٹ سے یہ کہہ دیں کہ فلاں شخص نے قانون کی یہ شرح کی ہے اور وہ عربی فارسی اردو سب جانتا ہے میں نے اس شرح کے موافق یہ فیصلہ لکھا ہے پھر دیکھئے کیا جواب ملے گا یہی کہا جائے گا کہ زبان دانی اور چیز ہے قانون دانی اور چیز ہے اسی طرح اس دہلوی شخص کی قرآن شریف کی تفسیر بھی ہے جیسی میں قانون کی شرح لکھوں پھر اس پر فرمایا کہ ایسی تفسیر اور شرح کی ایک مثال بڑے کام کی یاد آگئی ایک سرحدی ایک اسٹیشن پر اترا اور ایک کشمش کا بورا جس میں قریب دو من کے وزن ہوگا بغل میں تھا بابو کو اپنا ٹکٹ دیا بابو نے دریافت کیا کہ خان صاحب اس بورے کا ٹکٹ یعنی بلٹی کہاں ہے خان صاحب نے کہا کہ اس کا ٹکٹ بھی یہی ہے بابو نے کہا کہ پندرہ سیر سے زائد اسباب بدون بلٹی لے جانا قانون کے خلاف ہے تو خان صاحب کہتے ہیں گویا کہ قانون کی تفسیر بیان کر رہے ہیں کہ پندرہ سیر کا قانون ہندوستانی کے لئے ہے وہ اتنا ہی بوجھ اٹھا سکتا ہے ہمارا یہی پندرہ سیر ہے دیکھو کیسی آسانی سے ہم اس کو بغل میں لئے کھڑا ہے یہ آپ نے قانون کی شرح اور تفسیر کی تو حاصل یہ ہوا کہ اس قانون میں پندرہ سیر کا وزن مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ مسافر جتنا آسانی سے لیجاسکے تو کیا اس کو قانون کی تفسیر کہا جا سکتا ہے اور کیا یہ تفسیر قانون دان کے نزدیک مقبول ہے اسی طرح غیر اہل فن کی قرآنی تفسیر ایسی ہی ہے جیسے اس ولائتی خان نے قانون کی تفسیر کی تھی اور اگر کوئی قانون دان اس کو حقیقت سمجھائے تو بہت مشکل ہے جب کاتب کو فن سے مناسبت ہی نہیں تو اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ تو احمق ہے تو کیا جانے قانون کیا چیز ہے ا سکے بفد وہ ڈپٹی کلکٹر کہنے لگے سود نہ لینے کی وجہ سے مسلمان تباہ وبرباد ہورہے ہیں اور ترقی نہیں کرسکتے میں نے کہا کہ اگر ترقی کی ایسی ہی ضرورت ہے تو حرام سمجھ کر بھی تو لے سکتے ہیں اس سے بھی ویسی ہی ترقی ہوگی ترقی تو لینے پر موقوف ہے نہ کہ اعتقاد حلت پر کیونکہ ترقی کو کیا خبر کہ اس کا عقیدہ کیا ہے اسلئے اگر حرام سمجھ کر لیں تب بھی ترقی ہوسکتی ہے اس صورت میں یہ ہوگا کہ جرم میں کسی قدر تخفیف ہوجائے گی فرق یہ ہوگا کہ اگر حرام سمجھ کر لے گا تو چور ڈاکو سمجھاجائے گا سزا میں جیل خانہ یعنی محدرد مدت کے لئے دوذخ میں جائے گا اور اگر حلال سمجھ کر لیا یہ بغاوت ہوگی اس پر بھانسی کا حکم ہوگا یعنی غیر محدود مدت کے لئے دوڈخ میں جائے گا یا دائم الحبس (ہمیشہ کیلئے قید) کیا جائے گا ایک صاحب ان کے ہمراہ تھے ان سے ڈپٹی صاحب کہنے لگے کہ دیکھئے یہ اعلی درجہ کا فلسفہ کہ سود لینے کی ایک گنجائش نکال دی پھر فرمایا کہ سبحان اللہ خوب سمجھے۔ یہ گنجائش تو ایسی ہے جیسے ساحران موسی کہیں کہ موسی علیہ السلام نے ہم کو سحر کی اجازت فرمادی ہے کیونکہ موسی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ
القوا ما انتم ملقون
کہ ڈالو جو تم کو ڈالنا ہے تو موسی علیہ السلام کا یہ فرمانا جواز سحر کے لئے تھوڑا ہی تھا بلکہ اس کا اظہار تھا کہ تم جو کچھ دکھلاتے ہو دکھلاؤ پھر میں بھی تم کو دکھاؤں گا اسی طرح میرے جواب میں سود کے حرام ہونے کا حکم اور اس کے نتیجہ عقوبت کا اظہار تھا لینے کے لئے تھوڑا ہی تھا حرام ہونا دلیل ہے اس کام سے منع کرنے کی ایسی ٹیڑھی سمجھ کا کس کے پاس علاج ہے
