(ملفوظ ۸۴) ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت کی طرف سے جو مبلغین بیرونجات میں تبلیغ کا کام کررہے ہیں ان کے وعظ اور نصائح کا لوگوں پر بہت ذیادہ اثر ہوتا ہے اور لوگوں کو بہت بڑا نفع دین کا پہنچ رہا ہے لوگ بھی ان کے ساتھ محبت اور مدارات سے پیش آتے ہیں اور کسی کو ذرا وحشت نہیں ہوتی مگر لوگوں پر ایک امر بڑا شاق ہوتا ہے کہ وہ کسی کی دعوت قبول نہیں کرتے فرمایا یہ جو اتنی خاطر مدارات اور وحشت نہیں ہوتی یہ سب اسی کی برکت ہے کہ وہ کسی سے کچھ لیتے یا کھاتے نہیں اگر لیتے یا کھتے تو یہ خاطر مدارات پھر نہ ہوتی اب تو شاق ہی گزرتا ہے مگر کھنے کے بعد شاخ اس میں نکلتی ۔
ایک مرتبہ فلاں مبلغ صاحب کچھ روپے مدرسہ کے واسطے لائے ان سے دریافت کیا گیا کہ یہ روپیہ کہاں سے اور کیوں لائے انہوں نے کہا کہ لوگوں نے اصرار کر کے مدرسہ کے واسطے دیا ہے مجبوراََ لے لینا پڑا میں نے ان سے کہا کہ اس روپیہ کو واپس کردو اور ان سے کہدو کہ وہ خود آکر مدرسہ میں دیں مبلغ صاحب نے کہا کہ وہ لوگ یہ کہتے ہیں ہم کاروباری لوگ ہیں ہم کو فرست نہیں ہوتی میں نے کہا کہ ان سے کہو کے منی آرڈر کردیا کریں انہوں نے کہا کہ فیس منی ارڈر کا بار ہوگا میں نے کہا کہا جو رقم مدرسہ کو دینا چاہیں اسی میں سے فیس منی ارڈر وضع کر لیا کریں اگر کوئی شخص کام کرنا چاہے اس کے سینکڑوں راستے نکل آتے ہیں میں نے مبلغین سے کہدیا ہے آپ لوگ مدرسہ کے لئے چندہ جمع کرنے کو نہیں رکھے گئے ہیں تمہارا کام صرف لوگوں کو ہدایت کرنا ہے اور مسائل دینیہ بتانا ہے مدرسہ جدا چیز ہے اور تبلیغ کا کام جدا ہے فرمایا کہ یہ وعظ کا اثراور مبلغ کی وقعت اسی کی برکت سے ہے کہ کسی سے لینے کھانے کا معاملہ نہیں رکھا گیا آج کل مبلغین کو اس کی بڑی ضرورت ہے کہ ان امور کی احتیاط رکھیں ورنہ وعظ میں جو تین چار گھنٹے دماغ صرف ہوتا ہے اور محنت ہوتی ہے سب بے کار جائے گا مقصود حاصل نہ ہوگا۔
