( ملفوظ ۸۰) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض مرتبہ مجھے وسوسہ ہویا ہے کہ لوگ سمجھتے ہوں گے کہ بڑا ہی متکبر ہے آنے والوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتا ہے مگر بحمداللہ مجھ پر اس کا ذرہ برابر اثر نہیں جو چاہیں سمجھا کریں میں سمجھنے والوں کی نظر میں مقبول ہونے کی غرض سے کوئی کام نہیں کرتا۔ آنے والوں کی مصلحت دیکھتا ہوں اگر کوئی اس کو تکبر سمجھے میری جوتی سے۔ ان خیالات کی وجہ سے میں خدمت طالبین کے ضروری حقوق تلف کردوں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ میں اس کو خیانت سمجھتا ہوں میں نے علماء کے ایک مجمع میں لسبیل گفتگو(دوران گفتگو) کہا تھا کہ نہ میں متکبر ہوں نہ عرفی تواضع ایک سچ بولنے والا آدمی ہوں سچ بات کہتا ہوں کبھی اس میں تکبر کا رنگ ہوتا ہے اور کبھی تواضع کا مگر میری جو حالت یے بالکل کھلم کھلا ہے میں اس کو چھپانا نہیں چاہتا اور چھپاؤں تو جب کہ کسی کو دھوکہ دینا ہو استغفراللہ ۔ بس جن کو میری یہ حالت پسند ہو وہ مجھ سے تعلق رکھیں اور میرے پاس آئیں اور جن کو ناپسند ہو وہ نہ تعلق رکھیں اور نہ آئیں میں کسی کو بلانے تھوڑا ہی جاتا ہوں کسی کو دیکھانے اور نیک نام باننے کی وجہ سے اصول صحیحہ کو نہیں چھوڑ سکتا یہ تو اچھی خاصی مخلوق پرستی ہے ۔اس ہی قسم کے توہمات( وہم) اور شبہات نے مشائخ اور علماء کو اصلاح سے باز رکھا ہے اور عوام کے اخلاق کو خراب اور برباد کیا ہے کیا یہ جماعتیں محض زیارت اور ہاتھ چومنے ہی کے واسطے ہیں اور کیا ان کا فرض منصبی صرف( کام) یہی ہے ایسا طریق اختیار کرنا کہ جس میں اپنے اغراض اور مصالح کی بناء پر دوسروں کے اخلاق اور اعمال کو خراب اور برباد ہوتے دیکھ کر بھی روک ٹوک نہ کی جائے صریح خیانت ہے
