ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ جیسے آجکل مدعی (دعویدار) بیدار مغزی کے ہیں اور ملانوں کو حقیر سمجھتے ہیں پہلے بھی ایسے گذر چکے ہیں۔ ایک بادشاہ کی حکایت ہے کہ اسکا وزیر سے اس مسئلہ میں اختلاف رہا کرتا تھا کہ ملانے عاقل ہوتے ہیں یا بے عقل۔ بادشاہ انکا معتقد تھا۔ ایک دن بادشاہ حوض پر بیٹھے ہوئے تھے کہ دیکھا کہ ایک طرف سے ایک خستہ حال شکستہ بال طالبعلم بغل میں کتابیں دبائے آرہے ہیں۔ بادشاہ نے امتحان کیلئے ان طالبعلم کو بلایا اور وزیر سے سوال کیا کہ میاں وزیر یہ بتلاؤ کہ اس حوض میں کتنے کٹورے پانی آسکتا ہے۔ عرض کیا حضور کٹورہ کو مانپ مانپ کر پانی حوض میں بھرا جائے تب شمار میں آسکتا ہے کہ کتنے کٹورے حوض میں آسکتا ہے۔ بادشاہ نے طالبعلم سے کہا کہ مولوی صاحب آپ یہ بتلاسکتے ہیں کہ اس حوض میں کتنے کٹورے پانی آسکتا ہے۔ ان طالبعلم نے فی الفور جواب دیا کہ یہ سوال ہی مہمل ہے، اول تعین چاہئے کہ کٹورا کتنا بڑا ہے، اگر وہ حوض کے برابر ہے تو ایک کٹورا پانی آئے گا اور نصف ہے تو دو کٹورے اسی طرح سے نسبت سے حساب لگالیجئے۔ تب بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ دیکھا بیدار مغزی، ایک آپکا جواب بالکل ناکافی، طالبعلم نے ایک مختصر جواب میں سب جھگڑا ختم کردیا، بتلاؤ زیادہ عاقل کون ہے؟
ان مدعیوں کو یہ دھوکہ اسلئے ہوجاتا ہے کہ یہ تجربہ اور عقل کو ایک سمجھتے ہیں۔ تجربہ اور چیز ہے عقل اور چیز ہے۔ تو ان ملانوں کو چونکہ تجربہ کے کاموں سے سابقہ نہیں پڑتا اسلئے انکو تجربہ نہیں ہوتا اور ویسے کامل العقل ہوتے ہیں۔ ایک بڑی دلیل انکے عاقل ہونے کی یہ ہے کہ یہ بات عقل ہی کی تو ہے کہ انجام اور آخرت کی فکر ہے اور وہ عقل جسکو آجکل کے بیدار مغز عقل کہتے ہیں اس سے بیشک ان صاحبوں کو بُعد ہے مگر وہ واقع میں بُعد ہی کی قابل بھی ہے، مولانا اسی کو فرماتے ہیں۔
آزمودم عقل دور اندیش را – بعد ازیں دیوانہ سازم خویش را
(میں عقل دور از اندیش کو آزمانے کے بعد دیوانہ بنا ہوں)
ایسی عقل سے تو یہ دیوانگی ہی مبارک ہے اسلئے کہ جو اپنے محبوب کے راستہ میں سدِ راہ ہوا اس سے زیادہ مبغوض اور منحوس اور کیا چیز ہوگی۔ کسی عاشق سے پوچھو اسی کو نقل فرماتے ہیں۔
باز دیوانہ شدم من اے حبیب – باز سودائی شدم من اے طبیب
(میں عقل کا تجربہ کرنے کے بعد اے محبوب پھر تیرا دیوانہ بن گیا ہوں اور اے طبیب میں پھر اسی محبوب کا سودائی بن گیا ہوں۔)
اور فرماتے ہیں۔
اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شد – مرعسس را دید در خانہ نہ شد
(میرے خیال میں جو محبوب کا دیوانہ نہیں بنا (حقیقت میں) وہی پاگل ہے اور اسکی مثال ایسی ہے کہ کوتوال کو آتے دیکھا اور پھر بھی اس سے بچنے کی کوشش نہیں کی)۔
تو ان مدعیوں کا مبلغِ پرواز محض تجربہ اور فیشن ہے یہ تجربہ کو اور کوٹ پتلون پہن لینے کو عقل سمجھتے ہیں تو یہ کوئی عقل کی بات نہیں البتہ اسکو اکل کہہ سکتے ہیں ایسے لوگ عاقل کہلائے جانے کے قابل نہیں البتہ آکل ہیں کہ ہر وقت پیٹ بھرنے کی فکر ہی کا غلبہ رہتا ہے، پھر اس پر دوسروں پر بے عقلی کا الزام۔
