ایک سلسۂ گفتگو میں فرمایا کہ جب کوئی کام بے قاعدہ اور بے اصول کیا جائے گا اسکا انجام بجائے کسی منفعت اور نفع کے ضرر ہی ہوگا۔ آجکل اسی کی ایک فرع یہ بھی ہے کہ عوام بھی قرآن کا ترجمہ خود دیکھتے ہیں کسی استاد سے نہیں پڑھتے۔ پھر اس میں فن نہ جاننے کیوجہ ہے اگر شبہات پیدا ہوتے ہیں تو انکو کسی جاننے والے سے پوچھتے بھی نہیں اس سے وہ شبہات ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور اچھے خاصے ملحد ہوجاتے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ انگریزی جاننے کے واسطے کیوں استاد تلاش کرتے ہو اور کیوں برسوں وقت ضائع کرتے ہو؟ زبان میں مناسبت پیدا کرنے کیلئے تو صرف چھ ماہ کافی ہیں اور زیادہ سے زیادہ ایک سال رکھ لو، یہ دس دس برس کیوں کالجوں اور اسکولوں میں دماغ مارتے ہو؟ تو پھر قرآن شریف کے واسطے استاد اور وقت کی ضرورت کیوں نہیں؟ اُس میں اور اِس میں فرق کی کیا وجہ ہے؟
مشاہدہ شاہد ہے کہ قرآن شریف کا ترجمہ گو اردو ہی میں ہو خود دیکھنا اور کسی استاد سے سبقاً سبقاً نہ پڑھنا بجائے ہدایت کے سبب گمراہی کا ہوجاتا ہے دیکھئے اردو میں تو اقلیدس بھی ہے اسکی شکلوں وغیرہ کو بدون اسکے ماہر استاد کے کیوں نہیں سمجھ لیا جاتا؟ یقینی بات ہے کہ بدون استاد اور ماہرِ فن کے تو ہمیشہ غلطیاں ہی کرے گا جیسے ایک شخص نے اس شعر کا لفظی ترجمہ دیکھ کر اجتہاد بگھاڑا تھا۔
دوست آن باشد کہ گیرد دستِ دوست – در پریشان حالی و در ماندگی
(دوست وہی ہے جو دوست کی پرشان حالی اور عاجز ہونے کے وقت دستگیری اور امداد کرے)
اس شخص کو ایک جگہ ایک دوست کسی دوسرے شخص سے لڑتا ہوا ملا جو بقر قدرت انتقام بھی لے رہا تھا یہ جو پہنچے انہوں نے جاکر دوست کے ۔۔۔۔۔۔ دونوں ہاتھ پکڑ لئے، بس اس احمق کی بدولت اس غریب کی خوب کافی مرمت ہوئی اور خوب زد و کوب کیا گیا۔ بعد میں اس دوست بے دریافت کیا کہ جناب یہ کیا حرکت تھی تو فرمایا کہ شیخ سعدی جیسا تجربہ کار بزرگ اور دانشمند فرماگیا ہے کہ۔
دوست آن باشد کہ گیرد دستِ دوست – در پریشان حالی و درماندگی
غنیمت ہے دست کا ترجمہ ہاتھ ہی سمجھا کہیں دیکھ لیا ہوگا ورنہ دوست کا پاخانہ ہی اٹھا کر لایا کرتا۔ بس یہی حالت آجکل کے مدعیوں کی ہے جو قرآنِ مجید کا ترجمہ دیکھ کر خود اجتہاد کرتے ہیں وہ اجتہاد اس شعر کے سمجھنے والے سے کم نہیں۔ ایسوں ہی کی بدولت یہ دین کی گت بنی ہے انکی بالکل ایسی مثال ہے جیسے ایک بڑھیا کے گھر میں شاہی باز جا گرا، لمبی چونچ خم کھائے ہوئے اور بڑے بڑے پنجے دیکھ کر کہنے لگی ہائے یہ کس طرح کھاتا ہوگا کیسے چلتا ہوگا، چونچ اور پنجے کاٹ ڈالے بیچارہ اپاہج ہوکر رہ گیا۔ تو جسطرح اس بڑھیا بدفہم بدعقل نے اس باز کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کی تھی ایسی ہی ان لوگوں کی خیر خواہی اور ہمدردی اسلام کے ساتھ ہے اگر ایسے ہی مجتہد اور عقلاء ہوں گے تو بس دین کا اللہ ہی حافظ ہے انکے متعلق کسی نے خوب کہا ہے۔
گرگ میرو سگ وزیر و موش را دیوان کنند – ایں چنیں ارکان دولت ملک را ویران کنند
