ایک صاحب کی غلطی پر مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایک دوسری ایذا ہے کہ اسطرح بولتے ہیں کہ جیسے کوئی والی ملک نواب ہوتے ہیں کہ آواز بھی نہیں نکلتی۔ جب میں سنوں گا ہی نہیں تو جواب کیا خاک دوں گا، تم لوگوں کی عقلیں کہاں گئیں آخر؟ میں کمبخت کہاں تک برداشت کروں اور کہاں تک ضبط کروں کوئی حد بھی ہے؟ آپ نے دیکھا میں نے کیسا سیدھا سوال کیا تھا اس کا جواب ندارد اور خود اپنی طرف سے مجذوبوں والی بڑ ہانکتے ہیں اور وہ بھی ایسے طریقے سے کہ پورے طور سے کوئی سن ہی نہ سکے یہ حرکت بھی ایک مرض کے ماتحت ہے وہ مرض کمبخت کبر کا ہے کہ زور سے بولوں گا تو بات کھلے گی ممکن ہے کہ بات ہو بے ڈھنگی تو اتنے لوگوں میں سبکی ہوگی اس لئے آہستہ بولتے ہیں کہ دوسرا کوئی نہ سن لے اور یہ گول مول ہی بات رہ کر معاملہ ایک طرف ہو یہ ہے وہ بناء جو آہستہ بولنے کی دل میں تعلیم دے رہی ہے اور ہاں چادر سے منہ چھپا رکھا ہے جیسے چورہوتے ہیں ایک تو آپکی آواز ہی بہت بلند ہے اور اوپر سے اسکو چادر سے لپیٹ دیا جس سے وہ اور بھی سمجھ میں نہیں آتی ۔ یہ چادر لپیٹ کر منہ ڈھانپ کر بولنا یہ بھی آجکل علامت بزرگی کی ہے کیا کریں ویسے تو آدمیت سے کورے ہیں اس کے چھپانے کے لئے ظاہری ٹیپ ٹاپ بناؤ سنگھار میں بھی رہتے ہیں اور بولنے میں بھی اسکے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرض ہر پہلو سے اپنے عیوب کو چھپاتے پھرتے ہیں مگر یہاں آکر قواعد کی برکت سے بحمداللہ سب راز فاش ہوجاتا ہے۔ (مزاحاً فرمایا اور دل قاش (تراشیدہ ) ہوجاتا ہے۔) اگر یہ برتاؤ نہ ہو تو اصلاح کیسے ہو۔ اور معلوم نہیں ساری دنیا ہی میں بد فہم لوگوں کی زیادہ آبادی ہے یا میرے ہی حصہ میں چھنٹ چھنٹ کر آتے ہیں کہ کوئی مدرسہ ہے بدفہمی کا کہ اس میں تعلیم پاکر اور سند لیکر آتے ہیں اب اگر کچھ کہتا ہوں تو بدنام ہوتا ہوں اور نہیں کہتا تو اصلاح نہیں ہوتی۔اور کہنے میں میری کوئی مصلحت تھوڑا ہی ہے ان ہی کی بہبود ان ہی کی مصلحت سے ایسا کرتا ہوں کہ یہ آدمی نہیں حیوانیت سے نکلیں اب اس موقع پر معترض حضرات آئیں اور واقعہ مرتب دیکھ کر فیصلہ کریں کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون اور یوں یہ گھر بیٹھے فیصلہ کردینا کونسا مشکل ہے مجھ کو بد خلق کہتے ہیں ان موذیوں کے اخلاقِ حمیدہ کو بھی تو دیکھ لیا کریں۔
اس پر ان صاحب نے عرض کیا کہ میری وجہ سے حضرت کو تکلیف پہنچی ہے معافی چاہتا ہوں فرمایا بس مہربانی کرکے چپ ہی رہو اب بھلی زبان کھلی دیکھو کیسے صاف بولے نوابی اور سرداری سب ختم ہوگئی، بدون داروگیر دماغ درست نہیں ہوتا یہ دار و گیر ان لوگوں کی غذا ہے میں ان کی نبضیں خوب پہچانتا ہوں یہ تجربہ کی باتیں ہیں جب یہ حالت ہے تو میں کسی کے کہنے سننے سے اپنے طرز کو کیسے بدل دوں۔ آپ ہی انصاف کریں کہ یہی صاحب تھوڑی دیر پہلے کیا تھے اور چند منٹ میں کیا ہو گئے یہ فرما کر ان صاحب سے دریافت کیا کہ پہلے ہی اسطرح کیوں نہیں بولے تھے عرض کیا قصور ہوا معاف کردیجئے اب ایسا نہ کروں گا۔فرمایا یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہوا معاف تو ہے اور آئندہ ایسا کروگے بھی نہیں مگر اسکا جواب دو کہ ایسا کیا کیوں ؟ اسکا منشاء کیا تھا؟ عرض کیا کہ واقعی دل میں یہی بات تھی جو حضرت نے فرمائی کہ اور لوگ نہ سنیں کہیں مجھ کو بدعقل اور بدتمیز سمجھیں۔ فرمایا لیجئے سن لیجئے پھر دریافت فرمایا کہ کہیں اس میں تو جھوٹ نہیں بول رہے کہ میری خاطر سے خلاف ِ واقعہ کہہ دیا۔ عرض کیا کہ میں قسم کھاتا ہوں یہ ہی بات تھی۔ فرمایا کہ خیر تمہاری اس سچائی کی وجہ سے کہ تم نے اپنے مرض کا اقرار کرلیا تم کو خیر خواہانہ مشورہ دیتا ہوں کہ تم کو میں مصلح کا نام بتلائے دیتا ہوں ان سے اپنی اصلاح کراؤ اور میرے پاس ویسے آنے کی اجازت ہے مگر یہاں پر آکر خاموش بیٹھے رہنا ہوگا مکاتبت مخاطبت کی قطعاً اجازت نہیں ہوگی اور آنے سے پہلے اجازت حاصل کرلینا ضروری ہوگا کہ کبھی گڑبڑ کرو ۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ تم ایک پرچہ پر اپنا نام اور پورا پتہ اور اس واقعہ کا اجمالی ذکر اور یہ درخواست کہ مصلح کا پتہ بتلادیا جائے یہ سب اس پرچہ پر لکھ کر بکس میں ڈال دینا جو سہ دری میں لگا ہے پھر اس پرچہ کا جب میں جواب دوں گا جس پر مصلح کا پتہ بھی لکھ دوں گا وہ جواب کا پرچہ اور ایک اور پرچہ جس میں یہ لکھنا کہ مجھ میں کبر کا مرض ہے اور میں اس کے (یعنی میرے) پاس گیا تھا اوراس نے تمہارا پتہ بتلادیا اور مجھ سے یہ غلطی ہوئی تھی یہ سب صاف صاف لکھ کر تجویز شدہ مصلح کے پاس بھیج دینا پھر وہاں سے جو تعلیم ہو اس پر عمل کرنا اور ان سے بیس بار خط و کتابت کرنے کے بعد وہ سب خطوط مجھ کو دکھلانا اس کے بعد میں اسکو دیکھ کر پھر جو تمہارے لئے مناسب ہوگا تجویز کروں گا اس سے قبل مجھ سے اصلاح کے معاملہ میں خط و کتابت نہ کرنا ہاں اگر کبھی خیریت معلوم کرنے کو جی چاہے اسکی اجازت ہے مگر یہ شرط ہے کہ اس میں اور کوئی مضمون نہ ہو ۔ پھر فرمایا کہ ان کے اقرار کرنے نے میرے دل سے ساری کلفت دھودی اور فوراً طرز بدل گیا، اس پر لوگ مجھ کو سخت گیر اور بد اخلاق کہتے ہیں، کیا یہ بد اخلاقی ہے جس کو آپ صاحبوں نے دیکھا؟
