(ملفوظ۱۰۵) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میرے ایک دوست کہتے تھے کہ میں جہل پور رہا ہوں وہاں سے استفتاء مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کی خدمت میں بھیجا کرتا تھا منجملہ اور استفتوں کے ایک استفتاء اس کا بھیجا کہ مولود شریف میں قیام کرنے کی اصل کیا ہے حضرت مولاناؒ نے جواب میں اس کی حقیقت یہ بیان فرمائی کہ قیام ایک حرکت وجدیہ ہے اس کو صوفیہ خوب جانتے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ کا ذکر کرتے کرتے کوئی بزرگ وجد وشوق میں کھڑےہوگئے اور وجد کا ادب یہ ہے جس کو امام غزالیؒ نے بھی لکھا ہے کہ ایک کے قیام سے سب کھڑے ہوجائیں پھر بعض اہل دل کو یہ حرکت اچھی معلوم ہوئی وہ تواجد(وجد کی صورت بنانے) کے طور پر کھڑے ہونے لگے اس کے بعد عوام میں اس کا عام سلسلہ ہوگیا جو جہل کے سبب لزرم کے درجہ تک پہنچ گیااس جواب سے حضرت مولانا شاہ اسحاق صاحبؒ کے ایک قول کے معنی سمجھ میں آگئے جس کو کاپی میں ایک معمر شخص نے میرے سامنے نقل کیا تھا کہ کسی نے حضرت شاہؒ سے اس قیام کی نسبت پوچھا تو حضرت نے فرمایا کہ شیخ مجلس کو دیکھنا چاہئے اس کا یہی مطلب تھا کہ شیخ مجلس جو اس ذکر پر کھڑا ہوا ہے دیکھنا چایئے کہ اگر وہ صاحب حال ہے تو اس کا یہ قیام وجد ہے جس میں قوم کو موافقت کرنا ادب ہے اور اگر صاحب حال نہیں تو محض تصنع و رسم پرستی ہے اور لزرم مفاسد کے خوف کے مقام پر تواجد کی اجازت نہیں اس سے حضرت شاہ صاحبؒ کی علمی شان کس درجہ معلوم ہوتی ہے پھر افسوس کہ اس پر نواب صدیق حسن خان صاحبؒ حضرت شاہ صاحبؒ کی نسبت اپنی ایک کتاب میں جس کو میں نے دیکھا ہے فرماتے ہیں کہ
کان قلیل العلم کثیر العبادۃ
(یعنی شاہ صاحبؒ کا علم تو کم تھا۔وہ عبادت زیادہ کرتے تھے)
بعض حضرات روایات کو علم سمجھتے ہیں۔
