ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ کوئی شخص کسی دیندار کو کہتا ہے کہ اس میں عقل نہیں بہت ہی ناگوار ہوتا ہے کیونکہ یہ خیال غلط ہے دین کی وجہ سے عقل نہیں جاتی بلکہ اس زمانہ میں دین کی طرف اکثر متوجہ وہی ہوتے ہیں جن میں عقل کم ہوتی ہے وہ دنیا کا کوئی کام نہیں کرسکتے کہتے ہیں آؤ دین ہی کی طرف چلو اور عقل رکھتے ہیں وہ اس کو دنیا میں صرف کرتے ہیں یہ وجہ ہوگئی اس غلط فہمی کی، ورنہ حضرات انبیاء علیہم السام ہی کو دیکھ لیجئے کہ ان حضرات میں کس درجہ عقل تھی کہ ان کے سامنے ارسطو اور افلا طون سب کی عقلیں گرد تھیں کیا دین اور عقل جمع نہیں ہوسکتیں – اور انبیا ء علیہم السام تو بڑی چیز ہیں ان کے خادموں اور غلاموں کی عقلوں کے سامنے بڑے بڑے فلاسفر اور رفارمر سر کے بل آ پڑے ہیں اور اس زمانے میں بھی اہل دین ایسے ایسے موجود ہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا عاقل ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا – اور یہ حقیقی عاقل ایسے ہیں کہ جتنی عقل ان میں بڑھتی جاتی ہے وہ دین کا طرف زیادہ متوجہ ہوتے جاتے ہیں اور حقیقت میں دین کا خاصہ یہی ہے کہ اس کے احتیار کرنے سے عقل اور بڑھتی ہے وجہ یہ ہے کہ دین کے اختبار کرنے سے نور پیدا ہوتا ہے اور اس نور سے عقل کو ضیاء ہوتی ہے اور جس طرح دین سے عقل بڑھتی ہے اسی طرح عقل سے دین بڑھتا ہے کیونکہ عقل کا فعل یہ ہے کہ ضرر اور نفع کو پہچانے پھر ضرر اور نفع کی دوقسمیں ہیں ایک آخرت کا اور ایک دنیا کا ، اور ایک کا فانی اور دوسرے کا باقی ہونا ظاہر ہے تو عقلِ صیحح کا فعل یہ ہوگا کہ آخرت کے ضرر اور نفع کو دنیا کے نفع کے اور ضرر غالب رکھے تو عقل سے دین کا بڑھنا ثابت ہوگیا پھر اس تلازم کے بعد دینداروں کو کم عقل کون کہ سکتا ہے مگر عقلِ حقیقی میں گفتگو ہے باقی جو آج کل متعارف ہے اس عقل کی نسبت مولانا رومی فرماتے ہیں –
آذ مودم عقل اندیش را بعد ازیں دیوانہ سازم خویش را
( میں نے عقل اور دور اندیش کو آزمایا لیا اس کے بعد دیوانہ ( حق ) بنا ہوں )
ایک غلطی اور ہوجاتی ہے کہ عقل اور تجربہ کو ایک سمجھتے ہیں اس لئے دینداروں کو کم عقل سمجھتے ہیں حالا نکہ عقلی باتیں اور ہیں تجربہ کی باتیں اور ہیں سو جن چیزوں کا تعلق تجربہ سے ہے اس میں یہ حضرات اکثر ناواقف ہوتے ہیں مثلا گیہوں کس زمانے میں بویا جاتا ہے اور زمین اس کی کس وقت تیار کی جاتی ہے اس کا عقل سے کیا تعلق – ایک بنئے نے ریل میں مجھ سے پوچھا کہ آج کل آپ کے یہاں گیہوں کا کیا بھاؤ ہے میں نے کہا کہ نجھ کو ملعوم نہیں ا س کو بڑا تعجب ہوا وجہ یہ کہ ان کے یہاں تو اس کے سوا اور فکر اور کوئی کام ہی نہیں ان کے یہاں عقل کی ایک بات بھی نہیں شب و روز کل کی فکر ہے اسی کو فرماتے ہیں –
خوردن برائے زیستن وذکر کردن است تو معتقد کہ ذیستن از بہر خودن است
( کھانا اس لئے ہے کہ زندگی باقی اور اللہ کا ذکر کرتے رہیں مگر تمہارا اور اعتقاد یہ کہ زندگی اسی لئے کہ کھاؤ )
تو واقعات میں تو خود معترضین ہی عقل کی کمی کا شکار ہیں۔ دیکھئے چمار تجربہ رکھتا ہے چمڑے کے متعلق اور شناخت کرتا ہے اگر وائے سرائے کو چمڑا دکھا یا جا ئے اور اس کے متلعق کچھ پوچھئے وہ انکار کرے کہ مجھ کو اس کی حقیقت معلوم نہیں تو اس میں عقل کی کیا بات ہے بس ایک چیز کا تجربہ نہیں – ہیاں ایک شخص ہے وہ مدرسہ میں بہشتی زیور پڑھتا تھا حیض کا بیان جو آیا اس سے بعض لوگوں نے مزاحا کہا کہ تجھ کو بھی حیض ہوتا ہے کہا کہ کوئی نہیں کہ یہ تو بھت برا مرض ہے جلدی خبر لے اور حکیم صاحب سے جاکر کہو کہ مجھ کو یہ شکایت ہے وہ بھاگا ہوا گیا اور جاکر حکیم محمد ہاشم صاحب سے شکاہت کی کہ حکیم صاحب مجھ کو حیض نہیں ہوتا – حکیم صاحب بھی ہنس پڑے – اب جن لوگوں نے یہ مذاق بنایا تھا وہ اس کو اس کی حماقت کے دلائل میں ذکر کرتے ہیں مگر یہ کوئی حماقت کی بات نہیں وہ حیض کا لعنت اور اس کے معنی اور محل وقوع نہیں جانتا تھا یہ چیزیں اسکو معلوم نہ تھیں تو کسی واقعہ کا معلوم نہ ہونا حماقت نہیں –
