ملفوظ 400: ایک رئیس کے لڑکے ختنہ کی تقریب میں حضرت کی عدم شرکت فرمایا کہ قصبہ رامپور میں ایک رئیس مولوی صاحب کے لڑکے کی ختنہ تھی اپنے سب حضرات بھی اس میں مدعو تھے مجھ کو بھی بلایا گیا تھا میں بھی چلا گیا اصلاح الرسوم اس سے پہلے لکھ چکا تھا میں نے پہلے سے طے کر لیا تھا کہ میں قاضی انعال الحق صاحب کے مکان پر ٹھہروں گا اور وجہ میں نے یہ بیان کی تھی کہ مجمع میں بعضے بڑے ہو نگے میں ان کے ادب میں رہوں گا اور بعضے چھوٹے ہونگے وہ میرے ادب میں رہیں گے نہ مجھ کو راحت ملے گی نہ ان کو اور اس تقریب میں حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ اور حضرت مولانا خلیل احمد صاحبؒ بھی تشریف لائے تھے قاضی انعام الحق صاحب کے مکان پر ٹھہرا عشاء کے وقت میں نے دیکھا کہ نائی عام بلاوا دیتا پھرتا ہے ـ میں دریافت کیا کہ یہ بلاوا کیسا ہے اس نے کہا کہ تمام برادری کی دعوت ہے میں کھٹک گیا کہ گڑبڑ معاملہ ہے اور ظاہر تفاخر ہے ساتھ ہی اس کے یہ خیال ہوا کہ تو اصلاح الرسوم لکھ چکا ہے اگر شرکت کی تو کتاب کا خاک اثر نہ رہیگا میں نے قاضی انعام الحق صاحب سے مشورہ کیا کہ یہ معاملہ کی صورت ہے اس میں کیا کرنا چاہئے انہوں نے جواب دیا کہ برادری کا معاملہ ہے میں اس میں کوئی مشورہ نہیں دے سکتا مجھ پر الزام آ پڑے گا ـ میں نے خود سوچ کر تجویذ کیا کہ میں آپ کے باغ میں جاتا ہوں وہاں کسی کا خیال بھی نہ جائے گا اور میں شریک ہونے سے بچ جاؤنگا نہ ہونگا نہ شریک ہونگا گو اس میں مجھ کو بعض کلفتیں ہونگی مگر کچھ بھی ہو شرکت مناسب نہیں میں اس زمانہ میں تصانیف کا کام کر رہا تھا سفر میں سامان تصنیف کا بھی ساتھ رکھتا تھا اس وقت بھی ضروری سامان ساتھ تھا اس کو لیکر اخیر شب میں مشروط باغ میں پہنچ گیا یہ باغ قصبہ سے قدرے فاصلے پر ہے بڑی فضا کی جگہ ہے نہر بھی اس کے قریب ہے ایک کنواں بھی اس میں ہے ـ غرضیکہ بڑی تفریح کی جگہ ہے وہاں بیٹھا ہوا لکھتا رہا ( یہ باغ (عہدہ ) قضاء کی وجہ سے شاہی عطیہ تھا اصل میں اس کا نام تھا مشروط بالقضاء اب صرف مشروط رہ گیا ) اب صبح کو میری تلاش ہوئی قاضی انعام الحق صاحب سے دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے انہوں نے جواب دیا مجھ کو معلوم ہے مگر بتلانے کی اجازت نہیں ان پر بے حد زور دیا کہ بتلاؤ انہوں نے کہا کہ اس سے میرا تعلق دین کا ہے بتلا نہیں سکتا چاہے کچھ بھی ہو لیکن یہ اطمینان رکھئے کہ میری شرکت مشورہ وغیرہ کی کچھ نہیں ـ لوگ کہنے لگے کہ گھر میں ہے انہوں نے کہا کہ میں پردہ کرائے دیتا ہوں آپ خود دیکھ لیں مگر وہ مکان میں نہیں ہے خواہ مخواہ خود بھی تکلیف اٹھاؤ گے اور مجھے بھی تکلیف دو گے مختلف سڑکوں پر بھی ڈھونڈا گیا مگر میں کہاں ملتا جھلا کر رہ گئے ـ میں ریل کے وقت باغ ہی سے باہر اسٹیشن پر پہنچ گیا اسٹیشن پر مولوی معین الدین صاحب نانوتوی ملے وہ بھی اس ہی تقریب کی شرکت کے لیے آ ئے تھے کہنے لگے کہ میں تو تم سے لڑنے آیا تھا ـ یہ انہوں نے اس وجہ سے کہا کہ انہوں نے بھی ایک مرتبہ ایک تقریب میں مدعو کیا تھا ـ میں نے انکار کر دیا تھا کہنے لگے کہ یہ سوچ کر چلا تھا یہ کہوں گا کہ غریب آدمیوں کے یہاں شرکت سے انکار کرتے ہو اور امیروں کے یہاں شرکت کرتے ہو مگر جب تم کو نہ پایا اب لڑائی کی گنجائش نہ رہی اور کہنے لگے کہ اب میں بھی شریک نہ ہونگا جب تم ہی شریک نہ ہوئے ـ غرضیکہ گاڑی آ گئی میں تو اس میں بیٹھ کر یہاں پر آ گیا وہاں پر بڑی گڑبڑ ہوئی اسلئیے کہ ایک جماعت وہاں بدعتوں کی بھی ہے (یہ سنا ہے کہ جہاں جہاں حضرت سید صاحب کے قدم پہنچ گئے وہاں پر بدعت کا زور نہیں رہا اور جہاں پر نہیں پہنچے وہاں پر بدعت کا زور نہیں ہےواللہ اعلم) یہاں پر تھانہ بھون میں بھی حضرت سید صاحب تشریف لائے ہیں بحمداللہ یہاں پر کوئی جماعت بدعتیوں کی نہیں ہے ویسے ہی لوگ کچھ معمولی طریق پر اس خیال کے ہیں باقی کوئی خاص جماعت نہیں قصبہ رامپور میں بدعت کا قدرے زور ہے سو بد عتیوں نےایک مضمون تیار کیا اس مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ مصنف اصلاح الرسوم نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہے اور رسوم میں شرکت کی ہے اور مشورہ یہ ہوا کہ اس کی دستی نقلیں کر کے کوچہ برزن میں جابجا چسپاں کر دو ـ بوڑھوں نے منع کیا بوڑھوں میں عقل ہوتی ہے تجربہ ہوتا ہے کہ جلدی مت کرو رات درمیان میں ہے صبح کو دیکھ لو کہ شرکت کرتے ہیں یا نہیں کبھی قبل از وقت کوئی کام کر گزرو پھر ذلت اٹھانی پڑے صبح کو دیکھا جائے گا صبح کو ان کو یہ معلوم ہوا کہ اس نے شرکت نہیں کی کہنے لگے کہ بات رکھ لی ( یعنی میں نے ) یہاں کے بھی بعض حضرات تقریب میں شریک تھے انہوں نے بھی میرے متعلق بڑے بڑے لیکچر دیئے یہاں ایک لطیفہ ہوا ـ میں قرآن شریف سورہ نمل پڑھ رہا تھا ـ اس میں ہد ہد کا قصہ آیا ـ میں نے ایک دوست کو بلا کر کہا کہ دیکھو قرآں شریف میں میرے اس واقعہ کی نظیر اور تائید موجود ہے ان آیات میں وتفقد الطیر فقال مالی لا اری الھد ھد ام کان من الغائبین لا عذبنہ عذابا شدیدا اولا ذبحنہ اولیا تینی بسلطن مبین فمکث غیر بعید فقال احطت بمالم تحط بہ وجئتک من سبا بنبا یقین انی وجدت امراۃ تملکھم واوتیت من کل شیء ولھا عرش عظیم وجدتھا وقومھا یسجدون للشمس من دون اللہ وزین لھم الشیطن اعمالھم فصدھم عن السبیل فھم لا یھتدون ـ (اور ایک بار یہ قصہ ہوا کہ سلیمانؑ نے پرندوں کی حاضری لی تو ہد ہد کو نہ دیکھا فرمانے لگے کہ یہ کیا بات ہے کہ میں ہد ہد کو نہیں دیکھتا کیا کہیں غائب ہو گیا ـ میں اس کو غیر حاضری پر سخت سزادوں گا یا اس کو ذبح کر ڈالونگا یا وہ کوئی صاف حجت اور عذر غیر حاضری کا میرے سامنے پیش کرے – سو تھوڑی دیر میں وہ آ گیا اور سلیمانؑ سے کہنے لگا کہ میں ایسی بات معلوم کر کے آیا ہوں جو آپ کو معلون نہیں ہوئی اور اجمالی بیان اس کا یہ ہے کہ میں آپ کے پاس قبیلہ سبا کی ایک تحقیق خبر لایا ہوں ـ میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ ان لوگوں پر بادشاہی کر رہی ہے اور اس کو سلطنت کے لوازم میں سے ہر قسم کا سامان میسر ہے اور اس کے پاس ایک بڑا اور قیمتی تخت ہے میں نے اسکو اور اس عورت کی قوم کو دیکھا کہ وہ خدا کی عبادت کو چھوڑ کر آفتاب کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے ان اعمال کفریہ کو ان کی نظر میں مرغوب کر رکھا ہے اور ان کو راہ حق سے روک رکھا ہے سو وہ راہ حق پر نہیں چلتے 12) ہد ہد سلیمان علیہ السلام کے لشکر سے غائب ہوا میں بھی اس مجمع تقریب سے غائب ہو گیا تھا اس کی سزا الاعذبنہ اولاذبحنہ تجویذ کی گئی تھی مجھ کو بھی برا بھلا کہا گیا ملامت کی گئی کہ یہ بھی ذبح نفس ہے ہد ہد نے ایک ایسی چیز کی خبر دی جس کا علم حضرت سلیمانؑ کو نہ تھا اس سے معلوم ہوا کہ کسی واقعہ حسیہ کا علم اگر ناقص کو ہو کامل کو نہ ہو ممکن ہے اسی طرح مفاسد عوام کی مجھ کو خبر ہو اور اکابر کو نہ ہو تو مستبعد نہیں اور جیسے وہاں بلقیس عورت کی سلطنت تھی ایسے ہی یہاں پر بھی عورتوں کی حکومت تھی ـ جس کی وجہ سے یہ رسوم ہوئیں اور حسیات میں کسی کے علم کا زائد ہونا یہ کوئی کمال نہیں واقعات جزئیہ میں ممکن ہے کہ چھوٹوں کا علم بڑوں سے بڑھا ہوا ہو ـ جیسے ایک جانور ہد ہد کا علم ایک نبی سے جزئی خاص میں بڑھا ہوا تھا ـ سو جیسے اس علم سے سلیمان علیہ السلام پر ہد ہد کو فضیلت نہیں ہو سکتی ایسی ہی مجھ کو بھی اپنے اکابر پر فضیلت نہیں ہو سکتی ـ البتہ ہمارے حضرات علوم مقصودہ میں بڑھے ہوئے ہیں اور یہ علوم مقصودہ میں سے نہ تھا ـ ایک مولوی صاحب محض اصلاح الرسوم کے متعلق گفتگو کرنے کے لیے تشریف لائے بڑے جوش میں تھے کہنے لگے مجھ کو اصلاح الرسوم کے بعض مقامات پر شبہات ہیں ان میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں ـ میں نے کہا کہ بڑی خوشی سے مگر معاف کیجئے گا میری بے ادبی اور بے تہذیبی آپ کو تین باتوں پر قسم کھانا ہو گی ـ ایک تو یہ کہ واقعی میرے دل میں شبہ ہے محض تصنیف نہیں کیا گیا دوسرے یہ کہ اس شبہ کا جواب میرے ذہن میں نہیں تیسرے یہ کہ صرف تحقیق مقصود ہے اپنے کسی بڑے کی نصرت مقصود نہیں ان تینوں باتوں پر قسم کھا لیجئے گا پھر جو شبہ ہو فرمایئے ـ حضرت اس سے سب شبہات ختم ہو گئے سمجھے کہ یہ قسم بڑی ٹھیڑی کھیر ہے اپنی ہی جماعت کے ایک بزرگ نے بذریعہ خط مشورہ دیا کہ آپ اصلاح الرسوم پر نظر ثانی فرمائیں میں نے جواب لکھا کہ میں نظر ثانی نظر ثالث نظر رابع سب کر چکا ہر نظر کا وہی نتیجہ نکلا جو نظر اول کا تھا اب آپ اصلاح فرمائیں میں اسکو شائع کر دوں گا لیکن اگر اس سے لوگوں کو ان رسوم میں ابتلاء ہو گیا تو آپ ذمہ دار ہوں گے پھر ان بزرگ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ـ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب ؒ سے کسی نے عرض کیا کہ حضرت آپ نے تو اس تقریب میں شرکت فرمائی اور فلاح شخص نے ( یعنی میں نے ) شرکت نہیں کی یہ کیا بات ہے جواب میں فرمایا کہ بھائی ہم نے فتوے پر عمل کیا اس نے تقوے پر عمل کیا یہ تو تواضع کا جواب تھا مگر اسی طرح کا ایک صاحب نے حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ سے سوال کیا حضرت نے محققانہ جواب دیا کہ عوام الناس کے مفاسد کی جیسی اس کو خبر ہے ہم کو خبر نہیں ـ حضرت نے حقیقت ہی کو ظاہر فرما دیا ـ ایک صاحب نے آ کر مجھ سے بھی کہا کہ فلاح صاحب نے تمہاری نسبت ایسے ویسے الفاظ بھی کہے اگر آپ چاہیں تو میں نام بھی بتلا سکتا ہوں ـ میں نے کہا کہ نہیں بھائی ! مجھ کو کیوں لوگوں سے بد گمان کرتے ہو اور ایسے موقع پر اکثر یہ شعر پڑھ دیا کرتا ہوں ؎ تو بھلا ہے تو برا ہو نہیں سکتا اے ذوق ہے برا وہی کہ جو تجھ کو برا جانتا ہے اور اگر تو ہی برا تو وہ سچ کہتا ہے پھر برا کہنے سے کیوں اس کے برا مانتا ہے اور ایسے موقع پر یہ شعر بھی پڑھا کرتا ہوں ؎ دوست کرتےہیں ملامت غیر کرتے ہیں گلہ کیا قیامت ہے مجھ کو سب برا کہنے کو ہیں
اور فرمایا کہ میری تو یہ حالت ہے ؎ خود گلہ کرتا ہوں اپنا تو نہ سن غیروں کی بات ہیں یہی کہنے کو وہ بھی اور کیا کہنے کو ہیں یعنی جب میں خود اپنی دری حالت کو لوگوں پر کھولتا رہتا ہوں اور کسی بات کو مخفی نہیں رکھتا تو دوسروں کو کہنے سننے کی تکلیف اٹھانے کی کون سی ضرورت ہے یہ تو عیب گوئی کے متعلق میرا مذاق ہے باقی عیب شوئی اور جواب دہی کے متعلق یہ مذاق ہے کہ میں تو اپنے دوستوں سے بھی اپنی نصرت کا خواہاں نہیں یہ سب غیر ضروری چیزیں ہیں ان سے بچ کر آدمی ضروری کام میں لگے ـ 23 رمضان المبارک 1350ھ مجلس خاص بوقت صبح یون دو شنبہ
