ایک نو وارد صاحب کی غلطی پر مواخزہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ آخر آئے تھے کس واسطے جب بولتے ہی نہیں بندہ خدا کیا گھر سے قسم کھا کر چلے تھے کہ جاکر سوائے ستانے کے اور کوئی کام نہ کروں گا جہالت پر تنبیہ کرتا ہوں ، بدتمیزی بدتہزیبی پر روکتا ہوں تو کیا یہ جرم ہے جس کے عوض میں مجھ کو ستایا جاتا ہے آپ کی اس حرکت کی ( وہ حرکت کوئی سوال پر تلبیس تھا جس کو پوچھنے پر بھی صاج نہ کیا تھا ) ایسی مثال ہے جیسے کوئی کسی مولوی سے پرچھے کہ میں حج کر آوں وہ کہدیں کہ کر آؤ مگر انہوں نے یہ معلوم نہیں کیا کہ روپیہ کہاں سے آئے گا ( مثلا ) تو یہ شخص جا کر ڈکیتی ڈالے اس لئے کہ حج بدون روپیہ کے نہیں ہو سکتا اور روپیہ بدون ڈکیتی کے نہیں سکتا بس ڈکیتی جائز ہو جائے گی دھوکہ کھود کریدان کی غرض کے خلاف ہے وہ تو اس پر خوش ہیں چوم لئے پیر چوم لئے مجھ ہی کم بخت کی عادت ہے کہ کھود کرید کرتا ہوں جس کا داعی محض مصلحت ہے مخاطب کی کیا کہوں کس طرح دل چیر کر دکھلا دوں دونوں طرح رنج ہوتا ہے نہ کہوں تب بھی کیونکہ مخاطب کی مصلحت فوت ہوتی ہے اور کہوں تب بھی مخاطب کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور مجھ کو بھی لیکن اگر کہا جاوے گا تو کہنے کی طرح ہی کہا جاوے گا یہ تو ممکن نہیں کہ ہوتھ جوڑ کر پیر پکڑ عرض کروں سو یوں تو نہیں کہا جاتا پھر اس سے بھی دل دکھتا ہے کہ ایک شخص اتنی دور سے آیا اور ویسے ہی چلا گیا اس کی بھی غلطی بھی نہ بتلائی گئی غرض ہر طرح پر رنج ہی ہوتا ہے اور یہ وجہ ہے میرے بدنام ہونے کی کہ اگر متنبہ کرتا ہوں بے لطفی کی یہ نوبت پہچتی ہے اور نہیں کرتا تو جس سے آئے تھے وہ حاصل ہوتی ـ
