ملفوظ 395: ایک صاحب کے نا مناسب طرز عمل پر مؤاخذہ قبل از نماز مغرب حضرت والا نے وضو فرمایا اور بعد اذان مغرب روزہ افطار فرما کر حوض کے کنارے پر کلی فرما رہے تھے ـ ایک صاحب ایسی ہئیت سے جا کر حضرت والا کے پاس کھڑے ہوئے جس سے حضرت والا کو یہ محسوس ہوا کہ یہ میرے ہٹ جانے کے انتظار میں ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی حضرت کو شبہ ہوا کہ یہ میرے وضؤ کے بچے ہوئے پانی کو بطور تبرک استعمال کریں گے اس سے حضرت والا کے قلب پر بار اور گرانی ہوئی اور لوٹے کے پانی کو گرا دیا ( اسلیے کہ ایک تو بعض اوقات اپنے سامنے ایسا اظہار عقیدت کرنا حضرت والا کو ناگوار ہوتا ہے ـ دوسرے اس موقع پر خصوصیت سے انتظار کی صورت بنا کر کھڑا ہونا حضرت والا کو موجب اذیت ہوا اس شخص نے محض حصول تبرک کی دھن میں ایذاء کا خیال نہ کیا اسلئے حضرت والا تبرکات وغیرہ میں ایسے شغف کو نا پسند فرمایا کرتے ہیں ـ چنانچہ یہی خیال سبب ہوا لوٹے کے پانی گرانے کا 12جامع ) حضرت والا فارغ ہو کر حوض پر سے تشریف لے آ ئے تو یہ صاحب اس جگہ پر پہچنے اور پہنچ کر لوٹے کو جھانکا حضرت والا انکی اس حرکت کو برابر ملاحظہ فرماتے رہے اور یہ شبہ جو احتمال کے درجہ میں تھا لوٹے کے جھانکنے پر یقین کے درجہ میں ہو گیا ـ اس پر حضرت والا نے مواخذہ فرمایا کہ مجھ کو تمہاری اس حرکت سے اذیت پہنچی تم کیوں وہاں پر کھڑے تھے اور بعد میرے چلے آنے کے لوٹے کو کیوں جھانکا اس پر یہ صاحب خاموش رہے اور بولے بھی تو نہایت آہستہ سے کوئی صاف جواب نہیں دیا جواب میں تاخیر حضرت والا کے زیادہ تکدر کا سبب ہوا دو تین مرتبہ کے مطالبہ کے بعد عرض کیا کہ پانی لینا مقصود نہ تھا بلکہ کلی کرنا مقصود تھا فرمایا کہ بلا پانی کے کلی ہوا کرتی ہے عرض کیا کہ کلی کے لیے پہلے سے منہ میں پانی تھا فرمایا تو پھر لوٹے کو کیوں جھانکا تھا عرض کیا کہ لوٹے کو تو نہیں جھانکا فرمایا کہ مجھ کو اندھا بناتے ہو میں نے خود جھانکتے ہوئے دیکھا جھوٹ بھی بولتے ہو اس پر اور حضرت والا کے لہجے میں تغیر ہو گیا پھر فرمایا کہ کلی کرنے کو وہی جگہ رہ گئی تھی اور جگہ نہ رہی تھی بڑا مدرسہ اور خانقاہ ہے جہاں پر میں کھڑا تھا وہی ایک جگہ تھی ـ عرض کیا کہ مجھ کو کلی کرنا تھی ـ فرمایا بندہ خدا اپنی ہی ہانکے چلے جاتے ہو دوسرے کی سن کر سمجھ کر تو جواب دینا چاہیئے آخر مجھ کو تو تمہاری اس حرکت سے اذیت پہنچی بار ہوا گرانی ہوئی آخر تم کو کیا حق تھا مجھ کو اذیت پہنچانے کا چھنٹ چھنٹ کر تمام احمق میرے ہی حصہ میں آ گئے ہیں دنیا کے بے وقوف میرے پاس آتے ہیں فہم کا نام نہیں ہوتا کھڑا ہے بت کی طرح جواب کیوں نہیں دیتا کیوں مجھ کو ستایا کیا اپنی غلطی کا اقرار کرنا جرم ہے کیا تو نے لوٹوں کو جھانکا نہیں ـ عرض کیا کہ جھانکا تھا فرمایا کیا اس انتظار میں نہیں کھڑا تھا کہ یہ ہٹے تو میں اس جگہ پر کلی وغیرہ کروں عرض کیا جی ! فرمایا کہ اب اقرار کرتا ہے اپنی غلطی کا جب مجھے اچھی طرح پریشان کر چکا بد تمیز بد تہذیب پھر فرمایا کہ خاموش کھڑا ہے خوب تاویلیں سوچ لے اور اپنے ارمان نکال لے ـ اس پر بھی یہ صاحب خاموش رہے فرمایا بندہ خدا معافی تو چاہ لی ہوتی ؟ عرض کیا میں حضور سے معافی چاہتا ہوں فرمایا کہ کہنے ہی سے تو چاہی خود تو معافی چاہنے کی توفیق نہ ہوئی فرمایا کہ بلا کہے معافی کیوں نہیں چاہی اس میں کیا مصلحت تھی عرض کیا کہ ڈر کی وجہ سے فرمایا معافی چاہنے میں تو ڈر تھا اور نہ چاہنے میں ڈرنہ ہو جو بات بھی ہو ہر بات بد تمیزی کی کوئی بات بھی تو عقل کی نہیں بلا وجہ مجھ کو اذیت پہنچائی کیا ہوا تم لوگوں کو کیا ہاتھ میں تسبیح لینا اور تہمد باندھنا ہی آتا ہے آخر انسان میں اور جانور میں کوئی فرق بھی ہونا چاہیئے یا نہیں چپ کیوں ہے نالائق جواب دے نماز کو دیر ہوئی جاتی ہے منہ کھول کر صاف بات کہو اس پر یہ صاحب کچھ بولے جس کو حضرت والا سمجھ نہ سکے فرمایا کہ یہ شخص نا معلوم کیا انگریزی سی بولتا ہے عرض کیا کہ قصور ہوا فرمایا اب کہتا ہے قصور ہوا قصور! جب اچھی طرح ستا لیا کہ جب سے زبان سل گئی تھی فرمایا کہ میں اپنی ضرورت سے کھڑا تھا یہ شخص برابر کھڑا رہا ـ مجھ پر اس قدر بار ہوا اور اذیت پہنچی کہ میں پریشان ہو گیا اسی وجہ سے میں نے لوٹے کا پانی پھینک دیا کہ شاید اس لالچ میں کھڑا ہے اب تو ٹلے گا مگر ٹلا نہیں اس پر یہ کیا کہ لوٹے کو جھانکا اب تاویلیں کرتا ہے اور اگر مان ہی لیا جائے کہ سب تاویلیں صحیح ہیں تو ایہام کا اس کے پاس کیا جواب ہے ایسے ایسے آ تے ہیں ستانے کو عین نماز کے وقت میرے قلب کو پریشان کیا یہ فرماتے ہوئے حضرت والا نماز مغرب پڑھانے کے لیے مصلے پر تشریف لے گئے ـ 22 رمضان المبارک 1350ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم یکشبنہ
