ایک صاحب کی بد فہمی اور وعدہ کی مخالفت کا واقعہ فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ کسی کو کچھ نہ کہوں اور نہ کوئی ایسی بات جس سے بے لطفی پیدا ہو – مگر کیا کیا جائے دوسرے بالکل ہی بے فکر ہیں اسلیے کوئی نہ کوئی واقعہ نا قابل تسامح ہو جاتا ہے – ایک صاحب آج صبح ہی آ کر میرے پاس بیٹھ گئے میں اس وقت مشغول تھا – اپنا کام چھوڑ کر انکی طرف متوجہ ہوا – اب پوچھتا ہوں کہ جو کہنا ہو کہہ لیجئے – میں تنگی نہیں کرتا کہ ا س وقت فرصت نہیں پھر آنا اسلئیے کہ ممکن ہے کہ کوئی فوری اور ضروری ضرورت ہو کچھ بولے نہیں ـ آخر چند بار کے دریافت کرنے پر ایک پرچہ نکال کر میرے آ گے کر دیا – اور زبان سے اب بھی کچھ نہ کہا حالانکہ آ گے معلوم ہو گا کہ پرچہ ہی پیش کرنا مخالفت تھی – اور تماشہ یہ ہے کہ اس کے متعلق دو شخصوں سے مشورہ بھی لیا تھا انہوں نے واقعہ معلوم کر کے منع بھی کیا تھا – اب بتلایئے کیا تاویل کروں اور اگر ہر بات میں تاویل ہو سکتی ہے تو پھر اصلاح کیسے ہو – اب سوائے اسکے اور کیا کہوں کہ میں ایسے لوگوں کی خدمت سے معذور ہوں ان لوگوں میں نہ رحم نہ انصاف کچھ نہیں – ایک یہ شخص دھوکا دینا چاہتے تھے اور ابہام کے ذریعہ سے پرچہ کا جواب حاصل کرنا چاہتے تھے حالانکہ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کو پرچہ لکھنے ہی کی اجازت نہ تھی – یہ بھانڈا یوں پھوٹا کہ میں نے ان سے یہ سوال کیا کہ کیا تم نے مکاتبت کی اجازت حاصل کر لی ہے – یہ خیال اسلیے پیدا ہوا کہ ایسے بد فہم کو مکاتبت کی کیسے اجازت دیدی گئی ہو – جو بار بار پوچھنے پر بھی کچھ جواب نہ دے اس پر انہوں نے سب پرچے ایک جگہ جمع کر کے مجھ کو دیدیئے – اتفاق سے ان میں وہ پرچہ بھی تھا جس میں مکاتبت اور مخاطبت کی ممانعت تھی تب بات کھلی – اللہ تعالی نے معلوم کرا دیا – خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ پرچہ دکھلانے کا بڑا ہی اچھا دستور العمل ہے کہ جس کی وجہ سے چور بکڑا گیا فرمایا کہ جیسے انہوں نے مکاتبت کی ممانعت پر پرچہ دیا – اسی طرح بعضے مخاطبت کی مخالفت زبانی شروع کر دیتے ہیں اور یہ یوں سمجھتے ہیں کہ بدوں بولے نفع نہیں ہو سکتا ممانعت پر مخالفت کرنا کس قدر بد فہمی کی بات ہے ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ بعضا بول بول ہوتا ہے جب نکل جاتا ہے بسترہ بھی نا پاک ، کپڑے بھی نا پاک خود بھی نا پاک ، چار پائی بھی نا پاک – پھر اس پر یہ حالت ہے کہ لوگوں نے صرف ایک سبق سیکھ لیا ہے یعنی مجھ کو بد نام کرنے کا – اور ان لوگوں کی حرکتوں کو کوئی نہیں دیکھتا – ظالم کے افعال کی تو تاویلیں کی جاتی ہیں مگر مظلقوم کی پرواہ نہیں – ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضرت اس کی کیا وجہ ہے فرمایا کہ خود طبیعت میں ظلم اور بے انصافی کا مادہ ہے –
