ملفوظ 483: ایک صاحب کی خاموشی پر مؤاخذہ ایک نو وارد شخص سے اس کی غلطی پر حضرت والا نے مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ میں نے صرف یہی تو پوچھا تھا کہ جو میں نے اس پرچہ میں لکھا ہے وہ تم کو منظور ہے یا نہیں جس پر جواب ندارد ہے یہ کون سی ایسی باریک بات اور دقیق سوال تھا جس پر آپ خاموش ہیں اور اگر جواب دینا بھی آپ کو کسر شان معلوم ہوتا ہے یا مجھ کو قابل جواب دینے کے نہیں سمجھا جاتا تو یہاں تشریف لانے کی ضرورت ہی کیا تھی گھر بیٹھے رہے ہوتے کوئی بلانے تھوڑا ہی گیا تھا – اس پر وہ شخص کچھ بو لے مگر نہایت دھیمی آواز سے – اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ ارے بھائی ! ہاتھ منہ سے ہٹاؤ ایک تو آواز نہیں اور اس پر ہاتھ منہ پر رکھ لیا کم از کم ایسے طریق سے بولو کہ دوسرا سن کر جواب دے سکے اس شخص نے ہاتھ منہ سے ہٹا لیا مگر آواز میں کوئی تغیر نہ ہوا – اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ اب بتلایئے کہ بار بار کے کہنے پر بھی جب اثر نہیں تو کیا تاویل کروں اور ایسی حرت پر مجھ کو تغیر ہو یا نہ ہو – آخر کوئی پتھر کا بت تو ہوں نہیں کہ حس ہی نہ ہو – یہ فرما کر حضرت والا نے نہایت بلند آواز اور تیز لہجے میں فرمایا کہ جاؤ خبر دار ! جو ہمارے پاس آئے ایسے بد فہموں کا یہاں کام نہیں ایسے بولتے ہیں جیسے کوئی نواب صاحب ہیں یا والی ملک ہیں بد نصیب خود بھی پریشان ہوتے ہیں اور مجھ کو بھی پریشان کرتے ہیں پہلے تو میں ایسے بد فہموں کو ہمیشہ کے لیے جدا کر دیتا تھا زیادتی سن کا اثر ہے کہ ضروری رعایت کرتا ہوں اب جاؤ بذریعہ خط کے معاملہ طے کرنا اس وقت تم نے بہت ہی ستایا ہے دل دکھایا ہے اس وقت کام نہیں ہو سکتا وہ شخص اٹھ کر چلا گیا فرمایا کہ میں تو عتاب میں بھی مصالح پر نظر رکھتا ہوں – اس شخص نے سیدھی اور صاف بات کو کس قدر الجھایا ہے لا حول ولا قوۃ الا باللہ اور مجھے تو ایسے برتاؤ سے شرم آتی ہے مگر ان لوگوں کو قطعا احساس نہیں – میں جو کچھ کرتا ہوں سبب سے ! اور یہ کرتے ہیں بلا سبب میں نے اس شخص سے یہی تو پوچھا تھا کہ جو کچھ میں نے اس میں لکھا ہے وہ تم کو منظور ہے یا نہیں – اب انصاف سے فرمایئے یہ کونسی غامض بات ہے جس کا جواب نہ دیا گیا اس حالت میں زیادتی کس کی ہے – تجربہ سے یہ معلوم ہوا کہ اس کا اہتمام ہی نہیں کہ دوسرے کو اپنے سے اذیت نہ پہنچےمیں تو کہا کرتا ہوتا ہوں کہ پیروں کو تو یوں سمجھتے ہیں کہ یہ بت ہیں اپنے کو فنا کر چکے ان کو کسی بات کا احساس نہیں ہوتا چاہے کوئی ڈنڈوت کرے یا پانچ جوتے نکال کر لگا دے دونوں ان کے نزدیک یکساں ہیں اور یہ سب خرابیاں رسمی پیروں ہی کی پیدا کی ہوئی ہیں ان کو اصلاح کی طرف توجہ ہی نہیں ان کے یہاں تو بڑی معراج یہ ہے کہ آ کر مرید ہو جائیں اور چڑھاوے چڑھا جائیں سو اس میں انکا تو بھلا ہو گیا مگر ناس تو ان کم بختوں کا ہوا – ایک مرتبہ ڈھاکہ جانا ہوا وہاں پر میں نے پا کبروں کا علاج کیا دستگیروں کا علاج تو کرتا ہی ہوں – وہ یہ کہ بنگال میں یہ معمول ہے لوگوں کا کہ دوڑے اور پیر پکڑ لیے میں نے منع کیا کہ پاؤں پکڑنا مناسب نہیں مصافحہ کرنا سنت ہے یہی کافی ہے مگر نہ مانے میں نے یہ کیا کہ جو میرے پیر پکڑتا میں اس کے پیر پکڑتا – جب دو چار کے ساتھ یہ معاملہ ہوا تب لوگوں نے چھوڑا – میں نے کہا کہ اب آدمی بنے کہنے سے باز نہیں آ ئے – بعض لوگوں کے جب میں نے پیر پکڑے تو کہنے لگے اجی حضرت یہ کیا ؟ میں کہتا ہوں کہ ! جی حضرت یہ کیا کہنے لگے کہ آپ تو بزرگ ہیں – میں نے کہا کہ آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے کہ میں تم کو بزرگ نہیں سمجھتا – بڑے گھبرائے کہتے ہونگے کہ کوئی دیہاتی ہے –
