ایک سلسلہ گفتگو میں م فرمایا کہ آئے دن نیا فتفنہ پیدا ہوتا ہے اس وقت ایک بڑا فتنہ یہ پیدا ہوا کہ خاوندوں کی زیادتی اور ظلم کے سبب عورتوں میں ارتداد شروع ہوگیامعلوم ہواکہ قریب ہی زمانہ میں کئی ہزار عورتیں مرتد ہوچکیں بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ عورتوں کو جو مرد ستاتے ہیں اور ظلم کرتے ہیں یا مرد مجنون ہوگیا ہے یا عنین ہے یا مفقود الخبر ہے اس کے متعلق اسلام میں کیا احکام ہیں اور اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام ایسی حالت میں مرد سے عورت کی نجات کیلۓ کوئ صورت نہیں کوئ امام ابو حنیفہ پر اعتراض کرتا ہے کہ ان کے مذہب میں ان مشکلات کا کوئ حل نہیں ہے ان ہی وجود سے ایک رسالہ مرتب کرا رہا ہوں اب یہ سوال ہوتا ہے کہ جب تک وہ رسالہ تیار ہو اور اس کی اشاعت ہو اس وقت تک مظلومہ کس طرح زندگی بسر کرے میں جواب دیتا ہوں اگر شروع میں نجات کی ایسی تدبیر نکل بھی آے مگر شوہر عدالت میں چارہ جوئ کرے کیونکہ وہ تدبیر قانون میں منظور شدہ نہیں تو عورت کو قانون کی زد سے بچنے کی کیا صورت کیا تدبیر ہو گی اس کا کسی نے آج تک جواب نہیں دیا دوسروں ہی پر اعترض کرنا آتا ہے اب جواب دیں یہ اس کا مصداق ہو گیا کہ میں الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا اب تک تو یہ شبہ تھا کہ علماء کے یہاں اس کا علاج نہیں علماء بتا نہیں سکتے اب بحمداللہ اس کا بھی جواب نکل آیا لیکن باوجود ایسے اعتراضات کے لغو ہونے کے ہمیں پھر بھی اس کی ضرورت ہے کہ ہم نجات کی سبیل بتلائیں اس بتلانے کے بعد دو جماعت کا قصور رہ جاوے گا ایک حکام کا کہ ایسا کوئ قانون نہیں بنایا کہ وہ مذہب کے بھی مطابق ہو اور ایک عوام کا کہ وہ کوشش کرکے اس شرعی تدبیر کو قانون میں کیوں نہیں داخل کرا لیتے جبسے میں نے یہ سنا ہے کہ کئ ہزار عورتیں کوئ سبیل نہ ہونے کی وجہ سے مرتد ہو گئیں اس سے بے حد دل پر اثر ہوا اور اس رسالہ کی تکمیل کی ضرورت محسوس ہوئ اور چونکہ اس رسالہ میں بعض تدابیر دوسرے ائمہ سے لی گئ ہیں اس لیۓ بعض علماء نے کہا ہے اس سے حنفیت جاتی رہے گی میں نے کہا (کیا خوب )چاہے اسلامیت جاتی رہے مگر حنفیت نہ جاۓ بعض نے کہا کہ مردوں کی قوامیت ( حکومت ) جاتی رہے گی میں نے کہا چاہے عورتوں کی اسلامیت جاتی رہے نیز میں نے کہا کہ کیا اس وسطے حکومت دی تھی کہ ظلم کیا کریں ـ اگر ایسی حکومت جاتی رہے تو اس کا جانا ہی اچھا ـ ( الحمد اللہ کہ وہ رسالہ تیار ہو کر چھپ گیا اس کا نام ہے الحسیلتہ الناجزہ للجلیلتہ العاجزہ )
