(( مقلب بہ الحرص علی الجاہ ) ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا لہ جی ہاں آجکل تو بعض علماء بھی لیڈوں کے ہم خیال بن کر سلطنت کے خواہشمند ہیں اور زیادہ حیرت تو اس پر ہے کہ اس اخواہش میں احکام کی مطلق پرواہ نہیں کرتے – زمانہ تحریکات میں جو کچھ کیاگیا وہ اظہر من الشمس ہے اور احکام کے سامنے سلطنت تو کیا چیز ہے جن جٓکے قلوب میں حق تعالیٰ کی اور اس کے احکام کی محبت پیداہوچکی ہے ان کی نظر میں تمام دنیا کا وجود مچھر کے برابر بھی نہیں ان کے نزدیک تو اسکی بالکل ایسی مثال ہے کہ جیسے چھوٹے چھوٹے بچے مٹی یا ریت کے گھر بنالیتے ہیں اور وہ اس میں سے کسی کا نام دیوان خانہ اور کسی کا بالا خانہ رکھتے ہیں تو عقلاٰٰء ان بچوں پر ہنستے ہوئے گزرتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم تم کو حقیقی دیوان خانہ اور بالاخانہ دکھائیں ان کو دیکھو –
اسی طرح خاصان حق اہل اللہ آپ کے ان محلوں اور کوٹھی بنگوں کو دیکھ کر ہمٓنستے ہیں اور آخرت کی تر غیب دیتے ہیں اور تمہاری اس فانی سلطنت کی حقیقت وہ جو ایک بزرگ نے ایک بادشاہ کو بتلائی تھی یعنی بادشاہ دریافت کیا کہ اگر کسی موقع پر آپ جارہے ہوں – اور پانی پاس نہ ہو اور شدت پیاس سے جانپر بن رہی ہو ایسے وقت کوئی شخص ایک کٹورا پانی لے کر آئے اور یہ کہے کہ نصف سلطنت کے بدلے یہ کٹورا پانی کا فروخت کرتا ہوں آپ خرید لیں گے بادشاہ نے کہا ضرور خرید لوں گا پھر ان بزرگ نے کہا کہ اتفاق سے تم پیشاب کا بند لگ جائے اور کوئی علاج مفید نہ ہو اور کوئی شخص یہ کہے کہ اگر بصف سلطنت دو یہ کھول دوں گا کیا کروگے بادشاہ نے کہا کہ نصف سلطنت دیدوں گا ان بزرگوں نے کہ یہ حقیقت ہے تمہارے سلطنت کی کہ آدھی سلطنت کی قیمت ایک کٹورا پانی کا اور آدھی سلطنت کی قیمت ایک کٹورا پیشاب کا بس یہ ہے وہ سلطنت جس کے لئے آجکل عقلاء ان کے ہم خیال بعض مولوی سرگردان اور پر یشان حال ہیں اور آخرت کو بھی گئے ہیں سلطنت حاصل کرنے کو یا ترقی کرنے کو منع کرتا خوب ترقی کرو خوب سلطنت اور حکومت کرو میں خود ترقی کو پسند کرتا ہوں مگر اس میں کچھ شرط بھی تو ہے وہ یہ کہ احکام شریعت کو محفوظ کرتے ہوئے حدود اسلام پر نظر رکھتے ہوئے حاصل کرو البتہ اس کے عکس کے خلاف ہوں کیونکہ ایسی حکومت مسلمانوں کے کام نہیں ہوسکتی جس میں پہلے احکام شرعیہ کو پامال کردیا جائے سو ایسی سلطنت باعث ترقی نہیں ہوسکتی بلکہ باعث نحوست ہوگی کو مقاصد سے اختلاف نہیں طریق کار سے اختلاف ہے میں یوں کہتا ہوں کہ سلطنت ہو یا حکومت مال ہو یا جاہ عزت ہو یا آبرو اگر تم خدا کے احکام کی حفاظت کرتے ہوئے ان پر کار بند رہتے ہوئے حاصل کر سکو تو تم ہزار بار مبارک اس لئے کہ اس صورت میں یہ چیزیں احکام اسلام کی اشاعت کا ذریعہ ہوں گی اور اگر اس کے ساتھ اغراض فاسدہ وابستہ ہیں جیسا آجکل کے واقعات سے بالکل ظاہر ہے تو ایسی سلطنت اور حکومت پر لعنت ہزار بار لعنت ایسی چیز مبغوض ہے منحوس ہے مردود ہے جو خدا کی یاد سے غافل کردے یا احکام سے دور کردے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی سلطنت کو پیش کرتے ہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس ساتھ ہی وہ حضرات احکام اسلام پر کس طرح عاشق تھے اور کس سختی سے ان کے پابند تھے عین قتال کے وقت جوش کی حالت میں بھے احکام میں بھی احکام کا ہوش رکھتے تھے مثلا یہ مسئلہ ہے کہ اگر عین قتال کے وقت اس حالت میں کلمہ پڑھ لے تو فورا ہاتھ روک لو کیا اب کوئی ایسا کرسکتا ہے ـ رات دن کے معمولات اور معاملات میں تو حدود اور احکام کی پابندی کی ہی نہیں جاتی ایسے سخت وقت میں تو بھلا کون عایت کرسکتا ہے غرض ہر چیز کے کچھ حدود ہیں قواعد ہیں پہلے طبیعتوں کو ان کا خود گر بناؤ میدان میں آو میں تقسیم عرض ہوں
کہ پھر نصرت خداوندی تمہارے ساتھ ہوگی اور پھر تم
سلف کی طرح تمام پر حکومت کروگے اور بدون
احکام کی پابندی کے اختیار کئے ہوئے حکومت یا سلطنت کا حاصل کرنا ایسا ہے جیسے بلا وضو کے نماز کے پڑھنا یا بدون منتر جانے سانپ پکڑنا جس کا انجام ہلاکت ہے اور اگر بالفرض چندے یہاں حکومت کر بھی لی تو آخرت کی زندگی تو برباد ہوجایئیگی اصل چیز تو وہی ہے جس کہ لئے انبییاء علیہم السلام ہوئی اور وہ ایمان اوع اعمال صاحلہ ہیں ایمان کی حفاظت کرو اور اعمال صالحہ اختیار کرو پھر اس پر خوشخبری بشارت ہے جس کو حق تعالیٰ فرماتے ہیں –
ان الا رض یرثھا عبای الصالحون
( اس زمین کے مالک میری نیک بندے ہوں گے )
یہ بیان تو ان کے لئے تھا جو جاہ کے لئے حکومت اور سلطنت کے خواہاں اور جویاں ہیں باقی اہل اللہ اور خاصان حق جن کو تم تحقیر سے دیکھتے ہو کہ وہ خستہ حالت میں ہیں میلے کچیلے ہیں بے سروسامانی ان کی رفیق ہے وہ ان چیزوں کی پر واہ نہیں کرتے گو بضرورت سلطنت بھی حاصل کرلیں اور اس میں بھی کوشش کریں کہ اپنے کو اس سے علیحدہ رکھ کر دوسرے کے سپرد کردیں اور بادل ناخواستہ ان کے ذمہ پڑجاوے تو پھر اس کے پورے حقوق ادا کریں – میں بقسم عرض کرتا ہوں یہی حضرات کچھ ساتھ لیجانیوالے ہیں تم نے جن سامان کو قبلہ وکعبہ بنا رکھا ہے وہ تم ہی کو مبارک ہوں وہ تو ان سامانوں کو حجاب اور وبال جان خیال کرتے – حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جب باہان ارمنی کے دربان میں اپنے اسیروں کو چھڑانے کے لئے تشریف لیگئے تو آپ نے دربار کا فرش دیباراور حریر کا اٹھا کر پھینک دیا اس کے سوال پر جواب میں فرمایا کہ تیرے فرش سے ہمارے اللہ کا فرش افضل ہے حضرت بشر حانی رحمتہ اللہ علیہ کا قصہ مشہوت ہے جب آپ نے یہ آیت قران پاک کی “” سنی والارض فرشنھا “” ( اور ہم نے زمین کو فرش بنایا ہے ) اسی وقت اپنے پاؤں سے جوتے نکال کر پھینک دیئے کہ خدا کے فرش پر جوتے پہن کر چلنا خلاف ادب ہے ؛ (یہ غلبہ ہے حال کاجو خوبی ہے مگر حجت نہیں ) اب سنیئے کہ تمام چرند پرند کو حکم ہوگیا جس جس طرف بشر حانی کا گزر ہو کوئی بیٹ نہ کرنے پاویں – غرض ہماری عزت اس ظاہری سامان سے تھوڑا ہی ہے ـ اگر عزت ہے تو بےسروسامان ہی میں ہے جو عیدت سے مسبب ہوا اسی کو فرناتے ہیں –
زیر بار نددر ختاں کہ ثمر ہادار ند اے خوشاسرو کہ بند از بند غم آزاد آمد
دلفر یباںنہاتی ہمہ زیور بستند دلبر ماست کہ باحسن خداداد آمد
( پھل دار درخت زیر باد رہتے ہیں مبارک ہو سرو کہ وہ تمام غموں سے آزاد حسینان جہاں کو بناؤ سنگھار کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے محبوب کو حس خداد حاصل )
حضرت غوث پاک رحمتہ علیہ کی خدمت میں بادشاہ سنجر نے ایک مرتبہ لکھ کر بھیجا کہ معلوم ہوا ہے کہ حضرت کیخدمت میں اکثر مجمع خدام کا رہتا ہے اگر اجازت ہو تو ایک حصہ ملک کا خدام کے لئے حضرت کی خدمت میں پیش کردوں حضرت نے جواب میں لکھ بھیجا –
چوں چتر سنجرے رخ سیاہ باد دردل اگر بود ہوس ملک سنجرم
زانگہ کہ یافتم خبر از ملک نیم شب من ملک روز بیک جو نمی خرم
( اگر میرے دل میں ملک سنجر کی ہوس ہوتو جس طرح سنجر کا چتر سیاہ ہے میرا نصیب بھی سیاہ ہو – اور جس وقت سے ملک نیم شب ( یعنی عبادت نیم شبی ) کی مجھے خبر ہوئی ہے میں تو ملک روز کو ایک جو کے بدلے میں بھی نہ خریدوں )
ایک بزرگ کو کسی بادشاہ نے لکھا تھا کہ ہم مرغ کھاتے ہیں اور تم خشک روتی ہم دیبا اور حریر پہنتے ہیں اور تم گرڑھی اوڑھتے ہو تم مصیبت میں اور تکلیف میں ہو تم ہمارے پاس آجاؤ تو ہم تہماری خدمت کریں گے اور یہاں پر تم کو کوئی تکلیف نہ ہوگی ان بزرگ نے جواب میں لکھا کہ
خوردن تو مرغ مسمی دمے طعمہ مانانک جویں ما
پوشش تو اطلس دو یبا حریر بخسیہ زدہ خرقہ پشمین ما
( تیری غزا بھنا ہوا —– مرغ اور شراب ہے ہماری خزاجوکی روٹی تیرا لباس اطلس اور دیبا اور ریشم ہے – اور ہمارا لباس ہماری پیوند زدہ گدڑی ہ )
اور آخر میں فرماتے ہیں
نیک ہمیں است کہ می مگزرد راحت تو محنت دو شیں ما
باش کہ تاطبل قیامت زنند آن تو نیک آیدہ ویاایں ما
عنقریب یہ سب چیزیں گزر جاویں گی تیری راحت بھی اور ہماری تکلیف بھی ذرا انتظار کرو کہ قیامت کا طبل بجاویں پھر دیکھنا ہے کہ تیری حالات درست ہوں یا ہمارے )
مطلب یہ ہے کہ اس روز معلوم ہوگا کہ یہ حالت اچھی تھی یا وہ اور صل بات تو یہ ہے کہ ان بادشاہوں کی یہی رائے ان بزرگوں کو تکیف میں سمجھتے تھے غلط تھی – ان حضرات کے قلوب میں ایک ایسی چیز ہوتی ہے کہ وہ سبب سے مستغنی کردیتی –
