عین مؤاخذہ کرتے وقت حضرت کی اپنی حالت فرمایا کہ میں بقسم عرض کرتا ہوں کہ عین مواخذہ اور تادیب کے وقت بھی یہ اعتقاد قلب میں مستحضر ہوتا ہے کہ شاید عنداللہ یہ مجھ سے زیادہ مقبول ہو اور یہ دونوں چیزیں یعنی تادیب استحضار مذکور ایک وقت میں جمع بھی ہو سکتی ہیں ـ اس کی ایک مثال عرض کیا کرتا ہوں وہ یہ کہ مثلا شہزاد سے کوئی جرم ہوا بادشاہ نے بھنگی کو حکم دیا کہ شہزادے کو بید لگاؤ وہ لگائے گا ضرور – کیونکہ بادشاہ کا حکم ہے اگر نہ لگائے گا تو خود کے لگنے کا خوف ہے مگر عین بید لگانے کے وقت بھی شہزادے سے اپنے کو افضل ہر گز نہ سمجھے گا بلکہ اس وقت بھی اس کو یہی مستحضر ہوگا کہ شہزادہ شہزادہ ہی ہے اور میں بھنگی چہ نسبت خاک رابعالم پاک – جس سے کسی کو سزا دلوائی جائے یا سیاست کرائی جائے – وہ اس سزا یاب کو اگر حقیر سمجھے یا اپنے کو افضل اس کا – اس کو کوئی حق نہیں – ہاں یہ ضرور ہے کہ بے وقوف کی بات پر بے وقوف ضرور سمجھے گا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص کام تو کرے بے وقوفی کا اور سمجھا جائے عقلمند – مگر اسی وقت یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ممکن ہے کہ اس کی بے وقوفی کسی عارض سے خدا کے نزدیک پسندیدہ ہو اور تری عقلمندی کسی عارض سے پسندیدہ نہ ہو – میں تادیب سے یہ چاہتا ہوں کہ اس میں خدا کی محبت اور خشیت اور تواضع پیدا ہو جائے –
