ملفوظ 396: اپنے مؤاخذہ اور انکی حرکت پر اظہار رنج

ملفوظ 396: اپنے مؤاخذہ اور انکی حرکت پر اظہار رنج فرمایا کہ کل مغرب کے وقت ان صاحب نے ایک چھوٹی سی بات پر کس قدر ستایا اور پریشان کیا مجھے اپنے پر بھی تعجب ہے کہ میں نے کیوں ذرا سی بات پر ان سے اس قدر مؤاخذہ کیا اور ان پر بھی ہے کہ ذرا سے مقصود کے لیے اس درجہ مجھ کو اذیت پہنچائی جب مجھے معلوم ہوا کہ بلا ضرورت میرے انتظار میں کھڑے ہیں تو کیا اس پر مجھ کو کلفت اذیت نہ ہوتی اور خیر یہ بے چارے تو نئے آدمی ہیں ان سے ایسا ہو جانا کوئی زیادہ تعجب نہیں پرانے بھی ستاتے ہیں اور بعد میں یہ معلوم کر کے کہ طالب علم نہیں ہیں اور بھی رنج ہوا اس لئے اگر طالب علموں کو کچھ کہہ لوں تو ان پر تو میں اپنا ایک قسم کا حق سمجھتا ہوں اور غیر طالب علم پر ناخوش ہونے سے دل کڑھتا ہے ـ ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ان کو اس کا رنج ہو رہا ہے کہ میری وجہ سے حضرت کو تکلیف ہوئی اور اذیت پہنچی حضرت مجھ سے خفا ہو گئے فرمایا کہ واقعہ ختم ہونے کے ساتھ ہی بحمداللہ میرا قلب صاف ہو جاتا ہے میں خفا نہیں ہوں نیز میں خفا تو جب ہوتا کہ اس سے میری کوئی مصلحت فوت ہوتی مگر اس میں کچھ میری مصلحت تھوڑا ہی ہوتی ہے ـ طالب ہی کی مصلحت سے ایسا کرتا ہوں تاکہ آئندہ کو کان ہوں پھر ایسی نالائقی کی حرکت نہ کریں جس سے دوسرے کو اذیت ہو ـ اور میں سچ عرض کرتا ہوں کہ عین غصہ کی حالت میں بھی قلب میں اس کی محبت ہوتی ہے اسی وجہ سے اکثر در گذر کر جاتا ہوں اس کی بناء محبت ہی ہوتی ہے ـ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب نے بڑی اچھی بات کہی وہ یہ کہ جب حضرت کی طرف سے کسی کو ذرا تکلیف نہیں پہنچتی تو پھر لوگ کیوں تکلیف پہنچاتے ہیں فرمایا بالکل ٹھیک کہا میں اگر دوسرے کی راحت کی رعایت نہ کرتا تو مجھ کو دوسروں کی عدم رعایت کی بھی بالکل شکایت نہ ہوتی لیکن جب میں ہر طریق اور ہر صورت سے اس کا اہتمام کرتا ہوں کہ میری ذات سے کسی پر ذرہ برابر گرانی اور بار نہ ہو ایسی حالت میں میرا یہ بھی مطالبہ ہوتا ہے اور بحق ہوتا ہے کہ مجھ کو بھی کوئی مت ستائے ـ پھر فرمایا کہ یہ اس قسم کی حرکتیں اور گڑبڑیں خودرائی سے ہوتی ہیں خودرائی بہت ہی بری اور مذموم چیز ہے گو رائی ہی کے برابر ہو ـ صوفیہ کے یہاں اس کے مٹانے اور فنا کرنے کا بڑا اہتمام ہے یہ سب خرابیوں کی جڑ ہے اسی سے تمام امراض روحانی کا نشوونما ہوتا ہے ـ پھر فرمایا کہ یہ باب تو بالکل مسدود بلکہ مفقود ہی ہو گیا کہ اپنے سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے میں اپنے ہی لیے نہیں کہتا کہ مجھ کو تکلیف نہ پہنچاؤ مجھ کو اذیت نہ پہنچاؤ سب کے لیے کہتا ہوں کسی کو بھی کسی قسم کی تکلیف کسی سے نہ پہنچے اس کا بڑا اہتمام رکھنا چاہئیے نہ معلوم اس کو دین کی فہرست سے کیوں نکال دیا گیا اس کا اہتمام ہی نہیں اس کو کسی نے لیا ہی نہیں کہ کسی کو تکلیف نہ ہو نہ قول سے نہ فعل سے نہ رفتا سے نہ گفتار سے نہ نشست سے نہ برخاست سے بطور مزاح کے حضرت والا نے فرمایا کہ یہ کلی (مضمضہ) کی ایسی جزئی ہوئی کہ کچھ کھا نہیں جاتا ـ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت وہ صاحب معتکف ہیں شاید اس وجہ سے آ گے نہ بڑھے ہوں فرمایا کہ یہ سب کچھ سہی اگر ایسا تھا تو ان کو اس طریق سے کھڑا ہونا چاہئیے تھا جس سے مجھے شبہ نہ ہوتا کہ یہ میرے انتظار میں کھڑے ہیں میرا گمان یہ ہوا اور یہ میرا گمان قرین قیاس تھا کہ یہ تبرک کے انتظار میں کھڑے ہیں مجھے ایسی باتوں سے گرانی ہوتی ہے میں پیر پرستی کرانا نہیں چاہتا خدا پرستی کرانا چاہتا ہوں پیر پرستی اگر کرنی ہے تو ایسے پیر دنیا میں بکثرت ہیں وہاں جائیں ان کے یہاں نہ تعلیم ہے نہ روک ٹوک ہے نہ محاسبہ ہے نہ مؤاخذہ ہے صرف چونا چاٹی ہے ـ میں نے نہ اپنے بزرگوں کو ایسی باتیں پسند فرماتے ہوئے دیکھا نہ مجھ کو پسند ہے آج صبح یہ معلوم کر کے کہ طالب علم نہیں ہیں اور بھی رنج ہوا بے چارے کسی دفتر میں ملازم ہیں بطور مزاح کے فرماییا کہ اسی وسطے آواز صاف نہ تھی منہ میں پانی تھا دف تر ہو گیا تھا ـ دیکھئے ایک ذرا سی بات خود بھی اتنے پریشان ہوئے کہ اتنی دیر تک منہ میں پانی لئے کھڑے رہے اور مجھ کو بھی پریشان کیا ـ