ملفوظ 437: اپنے پیر سے مناسبت اور اس پر اعتقاد

ملفوظ 437: اپنے پیر سے مناسبت اور اس پر اعتقاد ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جس سے کچھ حاصل کرنا ہو یہ دیکھ لے کہ میرے کام کا بھی ہے یا نہیں وہ چاہے کامل نہ ہو میرے ایک ماموں صاحب نے اپنے ایک شیخ کی حکایت بیان کی جو کامل تو نہ تھے مگر صادق تھے یعنی دکاندار نہ تھے اور لوگوں میں ان کے متعلق طرح طرح کی بدگمانیاں تھیں بعض کا خیال ان بزرگ کے متعلق یہ تھا کہ ان کے پاس روپیہ بہت آتا ہے حجرہ میں مدفون ہوگا اسی بنا پر ان کے انتقال کے بعد ان کا حجرہ کھودا گیا کہ شاید روپیہ جمع ہو – بعض کا خیال تھا کہ ان کے پاس رات کو رنڈیاں آتی ہیں غرضیکہ اس قسم کے خیالات ان کے متعلق لوگوں کو تھے – ایک شخص نے ماموں صاحب سے جو کہ ان کے مرید تھے کہا کہ پیر کے متعلق کچھ خبر بھی ہے پوچھا کیا کہا کہ شب کو ان کے پاس رنڈیاں آتی ہیں انہوں نے کہا کہ خدا تم کو جزائے خیر دے بڑی عجیب بات سنائی مجھ کو پیر صاحب کے متعلق بہت عرصہ سے ایک شبہ تھا وہ آج آپ کی وجہ سے جاتا رہا وہ شبہ یہ تھا کہ پیر صاحب نے کسی وجہ سے نکاح نہ کیا تھا اس سے میں یہ سمجھتا تھا کہ شاید یہ بزرگ عنین ہوں اور حالت یہ ہے کہ یہ حضرات وارث ہوتے ہیں انبیاء کے اور انبیاء ہر پہلو سے کامل ہوتے ہیں ان کمالات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مرد ہو – سو نکاح نہ ہونے سے جو شبہ تھا
عنین ہونے کا جو کہ نقص ہے آج آپ نے اس شبہ کو رفع کر دیا – معلوم ہوا کہ پیر کامل ہیں ـ اب رہا یہ کہ رنڈیاں آتی ہیں یہ ایک گناہ ہے تو اس گناہ سے توبہ کر کے پاک صاف ہو جائیں گے – جہاں اس طرف اللھم اغفرلی کہا اس طرف صاف ہوئے وہ معترض بے چارہ تو اپنا سا منہ لے کر رہ گیا – وہ تو یہ سمجھے ہوئے تھا کہ پیر کی ایسی بات سن کو پیر سے الگ ہو جائیں گے – اس حکایت سے میرا یہ مقصود نہیں کہ جو پیر افعال شنیعہ کا مرتکب ہوتے ہوں ان سے دین کا تعلق رکھو اس کا لحاظ تو شرط اعظم ہے طریق کی اور اس حکایت میں جو جواب منقول ہے وہ محض تبکیت ( خاموش کرنا ) ہے معترض کے – ورنہ سیدھا جواب تو یہ تھا کہ اس تہمت کا کیا ثبوت پھر اصل مقصود یہ ہے کہ مصلح کے خفیف افعال پر بشرطیکہ وہ مباح کے درجہ تک ہوں یا احیانا کوئی بات تمہاری سمجھ میں نہ آئے اس سے بداعتقاد نہ ہو جائے بلکہ اپنے فہم اور عقل کا قصور سجھ کر خاموش ہو جائے خصوص جس شخص کی نظر چہار طرف ہو اور معترض کی نظر ایک ہی چیز پر ہے اسلیئے اس کے اقوال وافعال کو سمجھنا بڑے ہی دانش مند کا کام ہے ـ