ایک سلسلہ گفتفگو میں فرمایا کہ کہنے کی تو ایسی کوئی بات نہ تھی مگر ذکر آگیا اس لئے کہتا ہوں آج ایک لفافہ آیا ہے اس میں جو جواب کے لئے لفافہ رکھا ہے اس پر نیئ قاعدہ کی رو سے پورے ٹکٹ نہیں ہیں اور جس وقت محصول بڑھا میں نے ایک روپیہ کے ٹکٹ منگا کر رکھ لیئے تھے اور برابر لوگوں کے جوابی کارڈ اور لفافوں پر چسپاں کرتا رہا اور یہ نیت کرلی تھی جس روز پوری ڈاک میں ٹکٹ پوری آنے لگیں گے پھر اس روز سے نہ لگاؤں گا سو جس روز ڈاک میں پوری ٹکٹ آئے ہیں اس روز ایک ٹکٹ بچا ہواتھا تو پہلے چونکہ ذہن میں ضرورت تھی ایک روپیہ خرچ کرنا بھی آسان تھا اور اب بعد رفع ضرورت یہاں دو پیسے بھی خرچ کرنا مشکل ہیں چنانچہ آج جو بچا ہوا ٹکٹ رکھا ہے اس کے کگانے کو جی نہیں چاہتا اس لیے کہ سب جگہ محصول کا بڑھنا معلوم ہوچکا تو اسکا خیال تو ہونا چاہیئے مگر پھر بھی خیال نہ ہونا نہایت غفلت کی بات ہے بات یہ ہے کہ مزاج میں بیفکری بہت ہے اور جس کو کبھئ اتفاق سے ایسا موقع پیش آجائے وہ تو اس قسم کی رعایت کر سکتا ہے اور جس کو روزانہ اسی قسم کا سابقہ پڑتا ہو وہ رعایت نہیں کرسکتاـ
2ذیقعدہ 1350 ہجری مجلس خاص بوقت صبح یوم جمعہ
Author: حبیب اللہ
(ملفوظ 113)تمام فن طریق کا خلاصہ
(ملفوظ۱۱۳) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ خلاصہ اس تمام فن کا دو الفاظ میں ہے ایک یہ کہ افعال ضروری اور مقصود ہیں دوسرا یہ کے انفعلات غیر ضروری اور غیر مقصود ہیں یہ نہایت ہی کام کی بات ہے اور تمام فن اس میں حل ہوگیا مگر فلاں مولوی صاحب ندوی جنہوں نے طریق کی تحقیق کے لئے مجھ سے کچھ خط و کتابت کی تھی اس کو سُن کر خود طریق ہی سے گھبراگئے اور لکھا کہ تمام مکاتیب سے معلوم ہوا کہ یہ فن برا مشکل ہے حالانکہ یہ خلاصہ ہی بیَّن دلیل ہے اس کے سہل ہونے کی مگر پھر سہل کو مشکل سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ چاہتے یہ ہیں کہ کچھ کرنا نہ پڑے ان مکاتیب سے معلوم ہوا کہ اس میں کچھ کرنا پڑے گا بس گھبرا گئے۔
اس کی ایسی مثال ہے جیسے بچہ دودھ بھی نہ پئے جو نہایت سہل ہے اور یوں کہے کہ مجھ کو کچھ کرنا نہ پڑے بلکہ دوسرا ہی کسی طرح دودھ پلا دے حالانکہ جس کو ملا ہے کرنے ہی سے ملا ہے اور جہاں بدون کچھ کئے صورۃََ کچھ ہوگیا ہے وہاں بھی پہلے کچھ کر لیا ہے تب ہی کچھ ملا ہے گو بعض جگہ کرنے والے کو بھی حقیقت معلوم نہ ہوئی ہو جیسے ایک شخص نے عنت(نامردی) کی شرمندگی میں سنکھیا کھا لیا موادر مہلک تھی مگر مزاج اس قدر بارد تھا کہ اسکا متحمل ہوگیا اور عورت پر قادر ہوگیا مگر ایسا شاذونادر ہے.
بعض کو شبہ ہوجاتا ہے کہ اکثر اہل علم کو جلد نفع ہوتا ہے گویا بے کئے ہی مقصود حاصل ہوتا ہے اس سے آپ یہ سمجھتے ہوں گے کہ بدون مجاہدہ کے کام ہوگیا ،گر ایسا ہرگز نہیں وہ جو دس برس یا بیس برس تک کتاب کو سامنے رکھ کر آنکھیں سینکتے رہے ہیں اور تمام تمام شب اور تمام تمام دن رشتے رہے ہیں یہ کیا تھوڑا مجاہدہ ہے اسی مجاہدہ سے ان میں استعداد پیدا ہو گئی سو کام مجاہدہ ہی سے ہوا اول مجاہدہ ہوا پھر مقصود کی اہلیت و استعداد پیدا ہو گئی اور کسی کامل کی توجہ سے وہ مستقل اور راسخ ہو گئی باقی اگر نِری توجہ سے کوئی کیفیت پیدا ہو گئی تو وہ مستقل نہ ہو گی ایک عارضی کیفیت ہوگی جیسے جب تک لحاف میں رہے گرمی ہے باہر نکلے پھر وہی ٹھنڈے کے ٹھنڈے کیونکہ وہ گرمی عارضی بات تھی اور ایک گرمی انڈے کا حلوہ کھانے سے ہوتی تھی، سو یہ گرمی مستقل ہوگی.
سو نری توجہ کوئی چیز نہیں بلکہ اصل چیز تربیت ہے سو ان میں عمل کی تعلیم لازم ہے اور بدون تربیت اور مشاہدہ کے انسان قطب اور غوث تو ہوسکتا ہے مگر مقصود حاصل نہیں کرسکتا اور مجاہدہ بھی کو ئی معین مدت کا نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ آدمی ساری عمر اسی ادھیڑ بن میں لگا رہے اور یہ لگا رہنا ہی بڑی نعمت ہے اسی کو فرماتے ہیں
اندریں رہ می تراش ومی خراش
تادم آخر دمے فارغ مباش
اور عشاق کی تو مجاہدہ دائمی میں یہی شان ہوتی ہے کہ ان کی ساری عمر رونے پیٹنے میں کٹتی ہے آنکھ دل سے جس کا سرچشمہ وہی عشق و محبت ہے اسی کو کسی نے خوب کہا ہے۔
یارب چہ چشمہ الیت محبت کہ من ازاں
یک قطرہ آب خوردم و دریا گر یستم
(اللہ یہ محبت کیسا چشمہ ہے کہ میں نے ایک قطرہ اس کا پیا تھا اور آنکھوں سے رورو کر دریا بہادیئےہیں)
اور واقعی محبت ایسی عجیب چیز ہے کہ اس کا ایک قطرہ اخیر میں دریا سے بھی بڑھ جاتا ہے اس عاشق کو اگر قطبیت ملتی ہے تو کہتا ہے کہ حضرت معاف فرمایئے اس لئے کہ عاشق کو ان چیزوںسے کیا تعلق اس کی تو یہ شان ہے۔
ھنیاََ لارباب النعیم نعیمھم
وللعاشق المسکین مایتجرع
(راحت والوں کو ان کی راحت مبارک ہو۔ اور عاشق مسکین کے لئے وہ گھونٹ(غم کے) مبارک ہوں جو پی رہا ہے)
بعض اہل ظاہر نے
وَلَا تَلقُوا بِاَیدِیکُم اِلَی التَّھلُکَۃِ
سے استدلال کیا ہے ان مجاہدات اور ریاضات کی ممانعت پر کہ اس میں ہلاکت ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ مجاہدہ ہلاکت ہے اس لئے اس سے منع کرتے ہیں مگر حضرت حاجی صاحبؒ فرماتے تھے کہ اسی سے ترغیب مجاہدہ پر استدلال کرتے ہیں کیونکہ عشاق کے نزدیک ترک مجاہدہ ہلاکت ہے اس لئے وہ ترک سے منع کرتے ہیں عجیب لطیف جواب ہے غرض کام کرنا ضروری ٹھہرا مگر اخلاص کے ساتھ.
پھر اگر کوئی مالمت کرے یا ریاء وغیرہ کا شبہ کرے پرواہ بھی نہ کرنا چاہئے اس پر ایک لطیفہ یاد آیا ایک نقشبندی کی ایک چشتی سے گفتگو ہوئی نقشبندی نے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ تم ذکر جہر کرتے ہو چشتی نے کہا ہم نے سنا ہے تم ذکر خفی کرتے ہو مطلب نقشبندی کا اعتراض کرنا تھا کہ جہر میں ریاء اور اظہار ہے حتی کہ اس کی خبر ہم تک پہنچ گئی اور چشتی کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ تمہارے خفی کی خبر بھی ہم تک پہنچ گئی سو یہ بھی ریاء ہےتو ہم اور تم دونوں اس میں برابر ہوگئے.
حضرت مولانا گنگوہیؒ نے ایک شخص کو ذکر جہر کی تعلیم فرمائی اس نے عرض کیا کہ حضرت اس سے ریاء ہوجائے گی ذکر خفی کر لیا کروں فرمایا کہ جی ہاں اس میں ریاء نہیں ہے کہ گردن جھکا کر بیٹھ گئے چاہے سو ہی رہے ہوں مگر دیکھنے والا سمجھے کہ نہ معلوم عرش و کرسی کی سیر کر رہے ہیں یا لوح و قلم کی تو صاحب اظہار کا نام ریاء نہیں ہے جب اظہار کا قصد ہو اس کا نام ریاء ہے اور اگر ریاء ایسی ہی سستی ہے تو اسلام اخفاء کیوں نہیں کرتے جو اصل جڑ ہے.
ایک نقشبندی درویش سے میری گفتگو ہوئی اور میری طالب علمی کا زمانہ تھا لڑکپن تھا انہوں نے کہا کہ ذکر جہر میں ریاءہے میں نے کہا کہ کیا اذان میں بھی ریاء ہے چپ رہ گئے حالانکہ یہ جواب محض ایک طالب علمانہ جواب تھا کیونکہ اس کا مقصود تو بدون جہر کے حاصل ہی نہیں ہوسکتا یعنی اعلان وقت نماز مگر لڑکپن کا زمانہ ایسا ہی ہوتا ہے.
ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اذان سے تو مقصود صرف وقت کا اعلان ہی ہے یا ذکر بھی ہے فرمایا کہ دونوں ہیں ذکر بھی اعلان بھی اور خیر یہ قیل و قال تو نکتے ہیں مگر جہر میں اصل مصلحت یہ ہے کہ خطرات نہ آویں اس لئے ہلکے ہلکے آواز سے ہوتا کہ مقصود بھی حاصل ہوجائے اور دوسروں کو بھی تکلیف نہ ہو قصدالسبیل میں اس کی ضروری بحث بہت اچھی ہے اس کو دیکھ لیا جائے۔
(ملفوظ 112)سلف صالحین کی کوئی امتیازی شان نہ تھی
(ملفوظ۱۱۲) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اہل علم کا تو جی یوں چاہتا ہے کہ اس طرح رہیں کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو کہ یہ کون ہیں اپنے بزرگوں کو اسی طرز پر دیکھا ہے عوام میں ملے جلے رہتے تھے کوئی امتیازی شان نہ تھی آج کل ایک امتیازی شان زیادہ چپ رہنا بھی ہے اس لئے اہل علم کے لئے یہ طرز بھی ناپسند ہے کہ ہر وقت خود داری کی حفاظت میں رہیں۔
(ملفوظ 111)نفس برا مکار ہے
(ملفوظ۱۱۱) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک رئیس تھے یہاں کے رہنے والے غدر سے پہلے انتقال ہو چکا ہے بائیس گاؤں کے زمیندار تھے مگر معاشرت نہایت سادہ تھی چنانچہ جاڑوں میں روئی کا انگرکھا روئی کا پاجامہ روئی کا ٹوپ اور سخی بہت تھے پھر فرمایا کہ کبھی سادگی کبر کی وجہ سے بھی ہوتی ہے تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ بہت ہی متواضع ہیں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ کبھی کبر بصورت تواضع بھی ہوتا ہے نفس بڑا مکار ہے بڑے ماموں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ نفس سب کا مولوی ہے اپنی غرض کے لئے ایسی باتیں نکالتا ہے کہ بڑے سے بڑے عالم کو بھی نہیں سوجھ سکتیں بالخصوص ان لکھوں پڑھوں کا نفس تو اور بھی زیادہ پڑھا جن ہوتا ہے۔
(ملفوظ 110)رات کو دن (لطیفہ)
(ملفوظ۱۱۰ ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعضے بات کسی موقع پر خوب ہی چسپاں ہوجاتی ہے ایک لڑکا تھا کانپور کے مدرسہ میں پڑھتا تھا نہایت سیاہ فام اور دانت اس کے نہایت سفید چمکتے ہوئے اور وہ ہنستا بہت تھا اور بلند آواز سے ہنستا تھا تو میں اس کو چھیڑا کرتا اور جب وہ ھنستامیں کہا کرتا کہ”فِیهِ ظُلُمٰتُُ و رَعدُُ و بَرقُُ “ظلمت تو اس کا رنگ اور رعد ھنسنے کی آواز اور برق دانت اور یہ تفسیر نہ تھی تشبیہ تھی اسی طرح یہاں ایک حافظ تھے نا بینا نہایت ہی سیاھ فام مگر کپڑے نہایت سفید پہنا کرتے تھے ایک بار میں اپنے ماموں صاحب کے ساتھ جارہا تھا وہ حافظ صاحب سامنے آ گئے تو ماموں صاحب نے کہا کہ میاں دیکھو رات کو دن لگے ہیں
(ملفوظ 109)خواص کو بھی راہ طریق سے مناسبت نہیں
(ملفوظ۱۰۹) ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ جی ہاں عنایت فرماؤں کی تو مجھ پر ہمیشہ ہی عنائتیں رہی ہیں یہ خواب ہی کا کیا کچھ کم چرچا ہوا تھا مگر خیر ہوا کرے ہوتا کیا ہے جس شخص کو حقیقت ہی نہ معلوم ہو اس کی کیا شکایت اس خواب والے پر جو مصیبت گزری اس کی تو خیر نہیں بیٹھ گئے لعن و طعن کرنے خوب کہا ہے۔
اےترا خارےبیانشکستہ کے دانی کہ چیت
حال شیرا نے کہ شمشیر بلا بر سر خورند
(تیرے پیر کاتنا بھی نہیں چبھا۔ تم کو ان شیروں کی حالت کی کیا خبر جو تلوار کے زخم کھاتے ہیں)
البتہ معترض سے یہ شکایت ضرور ہے کہ مدت تک تو کوئی کھٹک نہ ہوئی جب ایک معاند نے سوچ سوچ کر ایک اعتراض نکالا جب سب کو ہوش آیا اس واقعہ میں اگر کھٹک تھی تو اول ہی بار ہونی چاہئے تھی یہ کیا کہ ایک مدت کے بعد ایک شخض کو توجہ ہوئی وہ بھی عناد سے تو کورانہ تقلید سے متوجہ ہو گئے میرے نزدیک تو اس خواب والے کی حالت شیطانی نہ تھی یہ میری رائے ہے وہ واقع میں نہ ہو میں واقع کی نفی نہیں کرتا مگر میرے نزدیک نہ تھی بلکہ محمود حالت تھی البتہ قصد و اختیار سے ایسے کلمات کہنا کو تاویل ہی سے ہو بے شک ٹھیک نہیں اس سے عوام کو وحشت ہوتی ہے اور عوام کو تو کیا کہا جائے خواص ہی کو اس طریق سے کون سی مناسبت ہے وہ بھی گڑبڑا جاتے ہیں اس لئے بہت احتیاط واجب ہے مگر جب ایک شخص پر کسی کی حالت کا غلبہ ہی ہو تو اب کیا کیا جائے جب وہ پوچھے گا تو جواب تو دیاہی جائے گا مگر بدون مناسبت طریق اور مہارت فن کے ان جوابوں کا سمجھ میں آنا ضرور دشوار ہوتا ہے اس لئے معترض بھی معذور ہیں جب کہ وہ فن سے آشنا ہی نہیں۔
(ملفوظ 108)عدم مناسبت پر بیعت کا نفع نہیں
(ملفوظ ۱۰۸) اوپر ہی کے سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جنگ بلقان کے رمانہ میں جب ایڈریا نوپل فتح ہوگیا ایک شخص جو نیم مولوی تھے اور خیر سے مجھ سے بیعت بھی تھے میں نے بیعت کے وقت مریض سمجھ کر جلدی قبول کر لیا تھا میرے پاس آئے اس سے پہلے ان کا خط بھی آیا تھا اس میں لکھا تھا کہ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالی بھی عیسائیت کا حامی ہے کہ غالب ہوتے چلے جارہے ہیں میں نے ڈانٹا کہ بیعت کے بعد تمہاری یہ حالت تو انہوں نے صاف کہا کہ مجھے تم سے کبھی مناسبت نہیں ہوئی اور بیعت تو اس امید پر کرلی تھی کہ اس کی برکت سے تندرست ہوجاؤں گا میں نے کہا کہ خیر ساری عمر میں ایک شخص سچا ملا میں اس سچ کی قدر کرتا ہوں اور چونکہ سچ کی جزا سچ ہے اس لئے میں بھی سچ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے پاس کبھی مت آنا چنانچہ وہ نہیں آئے یہ حالت ہو گئی ہے۔ بیعت کی اور طلب کی اسی لئے مصالح یا سفارش سے بیعت کرنے کو میں پسند نہیں کرتا۔
ایک بار میرے پاس دو شخص آئےایک مرادآباد کے اور ایک سنبہل کے۔ سنبہل والے نے کچھ گڑبڑکی تو میں نے ان سے کہا کہ جب تمہاری یہ حالت ہے تو تم آئے کیوں تو کہنے لگےانہوں نے یعنی مرادآباد والے نے ترغیب دی تھی دریافت کرنے پر انہوں نے بھی اپنے جرم کا اقرار کیا میں نے اسی وقت دونوں کو نکال دیا دیکھئے اگر ان کو محبت ہوتی تو پھر آتے۔ نکال دینے سے ہوتا کیا ہے طالب کو چین کہاں قرار کہاں یہ ایسے ہی لوگ اس مثل کے مصداق ہیں کہ ’’ عشق سعدی تا بزانو‘‘ واقعی بعضوں کا عشق گھٹنوں تک ہوتا ہے (اس کا قصہ مشہور ہے) پہلے بزرگوں نے بڑے بڑے امتحان لئے ہیں میں تو کوئی بھی امتحان نہیں لیتا ہوں میں تو شروع ہی سے تعلیم دیتا ہوں امتحان نہیں کرتا البتہ اس تعلیم ہی میں بعض اوقات امتحان بھی ہو جاتا ہے
(ملفوظ 107)تعجیل بیعت کے مفاسد
(ملفوظ۱۰۷) ایک سلسلہ گفتگومیں فرمایا یوں تجعیل بیعت میں بہت سے مفاسد ہیں ہی مگر بڑی بات یہ ہے کہ نفع موقوف ہے مناسبت پر اگر یہ نہیں کچھ بھی نہیں اور مناسبت کی تحقیق جلدی نہیں ہوسکتی البتہ تجربہ کی بناء پر دو شخصوں کو بیعت کرنے کے لئے کچھ انتظار نہیں کرتا ایک بیمار اور ایک عورت یہ دونوں قابل رحم اور قابل رعایت ہیں۔
(ملفوظ 106)شیخ کامل کی اشد ضرورت
(ملفوظ۱۰۶) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اس طریق میں شیخ کامل کے اتباع کی ضرورت ہے وہ اس راہ کا واقف ہوتا ہے وہ نفس اور شیظان کے مکائد سے آگاہ کرتا ہے شیخ کامل کے سر پر ہوتے ہوئے شیطان کچھ نہیں بگاڑ سکتا گو شیطان کے کید کے متعلق مشہور تو بہت جچھ ہے مگر حق تعالی فرماتے ہیں
ان کید الشیطان کان ضعیفا
(تحقیق شیطان کا مکر ضعیف ہوتا ہے)
اور حدیث میں ہے
فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد
یعنی ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابد سے گراں ہے اس کو کسی نے خوب نظم کیا ہے۔
فان فقیھاََ واحداََ متورعاََ اشد علی الشیطان من الف عابد
یہ اشدیت اس لئے ہے کہ شیطان شرارت سے ایک بات دل میں ڈالتا ہےاور بڑی مشکل سے اس پر جماتا ہے مگر سالک کے بیان کرنے پر شیخ نے اس کی شرارت اور مکر کو سمجھ کر ظاہر کردیا شیطان نے سر پیٹ لیا کہ اس کے برسوں کے منصوبوں پر پانی پھر گیا مگر جو اب لوگ اس دقیقہ کو نہیں جانتے وہ اسی خلجان اور الجہن میں رہتے ہیں کہ نہ معلوم شیطان کیا نقصان پہنچادے بات یہ ہے کہ شیطان دشمنی کرے بھی اور ہے ہی دشمن مگر پھر بھی علم صحیح اور توکل کے ہوتے ہوئے کچھ نہیں کر سکتا اس کی مثال ان حضرات کے مقابلہ میں خربوزہ کی سی ہے اور وہ حضرات چھری ہیں اگر خربوزہ کوشش کرکےچھری پر گرے تو خربوزہ ہی کا نقصان ہوگا اسی طرح اگر یہ اہل اللہ کا دشمن ہے تو یہی خسارہ میں رہتا ہے اس لئے اس راہ میں قدم رکھنا بدون شیخ کامل کے جو اس کے فریبوں کا خوب جاننے والا ہے خطرہ سے خالی نہیں اسی کو مولانا رومیؒ فرماتے ہیں۔
یار باید راہ را تنہامرد
بےقلاؤ زاندریں صحرا مرد
بدون شیخ کامل کے اس راہ میں قدم رکھنا ایسا ہے جیسا کہ بدون طبیب حاذق کے کوئی شخص اپنا علاج خود کرنا چاہے گو کتاب ہی دیکھ کر کرے کیونکہ کتاب کو بھی طبیب ہی سمجھتا ہے۔
(ملفوظ 105)مولد شریف میں قیام کی اصل وجہ
(ملفوظ۱۰۵) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میرے ایک دوست کہتے تھے کہ میں جہل پور رہا ہوں وہاں سے استفتاء مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کی خدمت میں بھیجا کرتا تھا منجملہ اور استفتوں کے ایک استفتاء اس کا بھیجا کہ مولود شریف میں قیام کرنے کی اصل کیا ہے حضرت مولاناؒ نے جواب میں اس کی حقیقت یہ بیان فرمائی کہ قیام ایک حرکت وجدیہ ہے اس کو صوفیہ خوب جانتے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ کا ذکر کرتے کرتے کوئی بزرگ وجد وشوق میں کھڑےہوگئے اور وجد کا ادب یہ ہے جس کو امام غزالیؒ نے بھی لکھا ہے کہ ایک کے قیام سے سب کھڑے ہوجائیں پھر بعض اہل دل کو یہ حرکت اچھی معلوم ہوئی وہ تواجد(وجد کی صورت بنانے) کے طور پر کھڑے ہونے لگے اس کے بعد عوام میں اس کا عام سلسلہ ہوگیا جو جہل کے سبب لزرم کے درجہ تک پہنچ گیااس جواب سے حضرت مولانا شاہ اسحاق صاحبؒ کے ایک قول کے معنی سمجھ میں آگئے جس کو کاپی میں ایک معمر شخص نے میرے سامنے نقل کیا تھا کہ کسی نے حضرت شاہؒ سے اس قیام کی نسبت پوچھا تو حضرت نے فرمایا کہ شیخ مجلس کو دیکھنا چاہئے اس کا یہی مطلب تھا کہ شیخ مجلس جو اس ذکر پر کھڑا ہوا ہے دیکھنا چایئے کہ اگر وہ صاحب حال ہے تو اس کا یہ قیام وجد ہے جس میں قوم کو موافقت کرنا ادب ہے اور اگر صاحب حال نہیں تو محض تصنع و رسم پرستی ہے اور لزرم مفاسد کے خوف کے مقام پر تواجد کی اجازت نہیں اس سے حضرت شاہ صاحبؒ کی علمی شان کس درجہ معلوم ہوتی ہے پھر افسوس کہ اس پر نواب صدیق حسن خان صاحبؒ حضرت شاہ صاحبؒ کی نسبت اپنی ایک کتاب میں جس کو میں نے دیکھا ہے فرماتے ہیں کہ
کان قلیل العلم کثیر العبادۃ
(یعنی شاہ صاحبؒ کا علم تو کم تھا۔وہ عبادت زیادہ کرتے تھے)
بعض حضرات روایات کو علم سمجھتے ہیں۔

You must be logged in to post a comment.