ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اہل علم کو عوام کے تابع نہ ہوجانا چایئے اس میں علاوہ ان کی ذات کے دین کا بھئ ضررہے مجہ کو ہمیشہ اس کا خیال رہتا ہے کہ اہل علم کی اور علم دین کی دنیاداروں کی نظر میں تحقیر نہ ہویہی وجہ ہے کہ میں سبکی طرف سے فرض کفایہ اداکرتا رہتا ہوں جس کی وجہ سے آئے دن لوگوں سے لڑائی رہتی ہے اہل علم اور اہل دین کی حقارت گوارا نہ ہونے پر ایک لطیف واقعہ یاد آیا جب میں کانپور میں مدرسہ جامع العوم میں تھا ایک طالب علم نے ایک طالب علم کی کتاب اور کچہ اسباب دق کرنے کواپنے حجرہ میں لے جاکر چھپالیا ـ مالک سامان نے اس کی اطلاع ٌپولیس میں کردی داروغہ تحقیقات کے لئے آگیا اور اس کے متعلق گفتگو ہوتی رہی داروغہ مجہ سے کہنے لگا کہ افسوس ہے کہ طالب علم بھی چوری کرتے ہیں ـ
میں نے کہا کہ طالب علم کبھی چوری نہیں کر سکتا کہنے لگے کہ مشاہدات کی تکزیب ہے دیکئے یہی ایک واقعہ ہوگیا میں نے کہا کہ اس سے ثابت نہیں ہوا کہ طالب علم نے چوری کی بلکہ کبھی چور طالب علمی کرنے لگتے ہیں چور یہ سمجھتے ہیں کہ اس روپ میں مدرسہ کے اندر چوری سہولت سے ہوسکتی ہے داروغہ جی نے ھنس کر کہا کہ صاحب مولیوں سے اللہ بچائے جدھر کو چائے بات پھیردیں تو اس واقعہ میں بھی طالب علم کی تحقیر نہیں ہونے دی اور ہمیشہ اسی کو جی چاہتا ہے اہل علم کی تحقیر نہ ہو کیو نکہ اگر عوام اہل علم سے بدگمان ہوجائیں تو اندیشہ ہے گمراہی کا ـ
Author: حبیب اللہ
(ملفوظ 11 )خلوص سے معمولی الفاظ پیارے معلوم ہوتے ہیں
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بڑے بڑے القاب اور چکنے چیڑے الفاظ میں کیا رکھا ہے خلوص اور محبت ہو تو معمولی الفاظ بھی پیارے ہوجاتے ہیں دیکھ لیجئے اللہ تعالیٰ کا نام صرف سب لیتے ہیں کوئی بھی مخدومنامکر منا نہیں کہتا مکہ معظمہ میں شریف حسین تھے کہ ایک معمولی بدوی آکر اس طرح ہکارتا یا حسین یا حسین اور وہ نہایت خندہ پیشانی سے خوش خوش گفتگو کرتے تھے اگر یہ سادگی محبت سے ہوتو کیا مضائقہ ہے بلکہ اچھا معلوم ہوتا ہے ـ ایک بڑی بی تھیں میری سر پر ہاتھ پھیرا کر دعا دیا کرتی تھیں کہ بچے تو جیتا رہ تیری عمر بڑی ہو چونکہ محبت تھی اور سادگی سے ایسا برتاؤ کرتی تھیں ان کی یہ ساری باتیں پیاری معلوم ہوتی تھیں ایک بار گھر میں سے کہا برادری میں ایک یہ ہی بڑی رہ گئی ہیں جو تم کو پیار کر سکتی ہیں ـ میر ٹھ میں حافظ عبدالکریم رئیس تھے ان کی عادت تھی اکثر بیٹا بیٹا کہاکرتے تھے ایک چمار آیا عمر کا آدمی تھا اس کو بھی بیٹا کہا اس چمار نے کہا کہ تمہارے باپ کی برابر تو میری عمر اور مجھ کو بیٹا کھتے ہو حافظ صاحب بہت متواضع تھے برا نہیں مانا غرض حافظ صاحب محبت سے ایسا کہتے تھے کوئی بھی برا نہ مانتا تھا اصل چیز محبت ہے تعظیم میں کیا رکھا ہے بلکہ زیادہ تعظیم ورٓتکریم تو ایک قسم لے حجاب ہیں یہ محبت کی سادگی تو ہم نے اپنے بزرگوں میں دیکھی بالکل اپنے کومٹائے ہوئے تھے پھر تکلف کہاں رہتا حضرت مولانا قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے والد شیخ اسد علی حقہ بہت پیتے تھے جب ضرورت ہوتی فرماتے کی بیٹا قاسم حقہ بھردے مولانا یہ حالت تھی کہ فورا حکم کی تعمیل فرماتے باوجود اس کے کہ مرید اور شاگرد سب موجود مگر کچھ پرواہ نہیں اگر کوئی کہتا بھی تو فرماتے کہ یہ تمھاراکام نہیں یہ میرا کام ہے ـ اللہ اکبر کیا ٹھکانا ہے اس انکسار اور فنا کا بالکل ہی اپنے مٹادیا تھا ـ مولوی معین الدین صاحب کہتے تھے کہ ایک ولا ئیتی درویش آئے بڑے غصہ میں بھر ہوئے نماز پڑھ کر مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوگئے جب لوگ نماز پڑھ کر نکلنے لگے مولانا کے والد بھی آئے انکا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ تم مولانا سے حقہ بھرواتا ہے آخر باپ تھے کہا کہ جی ہاں بھرواتا ہوں ان درویش نے کہا کہ کبھی باپ ہونکے بھروسہ رہو تم جس وقت مولانا حقہ بھرنے کو کھتے ہو حاملان عرش کانپ اٹھتے ہیں اگر تم نے عنقریب توبہ نہ کی تو کوئی وہاں نازل ہوگا پھر انھوںنے ایسی فرمائیش نہیں کی دوسراواقعہ حضرت مولانا ہی کا ہے جلال آباد کے ایک اخانصاحب حضرت کے مہمان ہوئے آدھی رات کو پلنگ پر پڑی ہوئے کروٹیں بدل رہے تھے مولانا بڑے ذہین تھے سمجھ گے کہ غالبا حقے کے عادی ہیں مولانا اسی وقت محلہ سے حقہ مانگ کرلائے اور بھر کر چار پائی کے برابرمیں لا کر رکھ کر فرمایا کہ میںپیتا نیہں لئے بھرنا نہیں آتا دیکھ لیجئے کسی چیز کی کمی پیشی ہوتو ٹھیک کردوں خان صاحب بیچارے پلنگ سے اتر کر الگ ہوگئے بڑی عزر معزرت کی فرمایا کہ تم مہمان ہو تمہارا حق ہے اس میں شرمندگی اور محجوب ہونیکی کونسی بات ہے ان خان صاحب کے ساتھ ایک بازاری عورت تھی بے نکاحی اور یہ پہلے سے علماء کے معتقد نہ تھے یہ کہا کرتے تھے کہ سب کو دیکھ لیا ہے صبح ہی کو حضرت مولانا مرید ہوگئے اور اس عورت کو بھی مرید کروایا اور نکاح پڑھوایا تو حضرت مولانا اس قدر منکسر المزاج تھے ۤـ کہ اپنے مہمانوں تک کا حقہ بھرتے تھے بھلا باپ کا حقہ بھرنا تو کیسے چھوڑ سکتے تھے اور سچ تو یہ کہ بڑا بننے میں کیا رکھا ہے بلکہ بعد تجربہ دین کے لئے تومضر ہے ہیَِ ، یہ بڑا بننا دنیا میں بھی مصائب کا نشانہ بناتا ہے مولانا فرماتے ہیں ـ
خشمہا ؤچشمہا در شکہا، بر سرت ریز وچوآپ ازمتکہا
(اگر بڑا بنوگے تو لوگوں کے غصے اور نگاہیں اور رشک وحسد تجھ پر ایسا پڑیں گے جیسے مشک سے پانی گرتا ہے ـ 12 )
غرض ضرورت محبت اور خلوص کی بڑئی کی ضرورت نہیں ایک مرتبہ ایک گاؤں کا شخص مجھ سے بیعت تھا اکثر میرے پاس آیا کرتا تھا ایک دن کہنے لگا کہ ہمارے گاؤں میں ایک فقیر آیا کرتا ہے اگر کہو تو اس کا طالب ہوجاؤں(یہ ایک صطلاح ہے گاؤں والوں کی مرید کے بعد ایک درجہ نکالا ہے طالب کا ) میں نے اسکو غصہ کے لہجئے میں ڈانٹا اس لئے کہ وہ فقیر شریعت کا پابند نہ تھا – ایک عرصہ کے بعد میں نے اس شخص سے مزاحا پوچھا کہ اب بھی کسی کا طالب بنے گا محبت بھرے لہجے میں سادگی سے کہتا ہے کہ بس اب تو تیراہی پلہ ( دامن ) پکڑ لیا مجھے اس وقت اسکا یہ کہنا بہت ہی پیارا معلوم ہوا اوریہ الفاظ کئی مرتبہ اس کی زبان سے کہلوائے ہر مرتبہ ایک نیا لطف آیا ـ محبت میں کیسے ہی الفاظ ہوں پیاری معلوم ہوتے ہیں اور اس پر ملامت بھی نہیں ہوسکتی اس کو مولانا رومی رحتہ اللہ علیہ فرماتے ـ
گفتگو عاشقاں در کار رب جو شش عشقست نے ترک ادب
بے ادب تر نیست زوکس درجہاں باادب تر نیست زوکس درنہاں
حق تعالیٰ کے بارہ میں عاشقان حق کی باتیں بے ادبی کیوجہ سے نہیں ہوتیں بلکہ جوش محبت کی وجہ سے ہوتی ہیں ظاہر میں تو اس سے زیا دہ کوئی بے ادبے معلوم نہیں ہوتا اور باطن میں اس سے زیادہ باادب کوئی نہیں ہوتا ـ 12)
(ملفوظ 10 )تفسیر سے لکھنے سے بنفع آجلہ اور عاجلہ
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک انگریز جنٹ نے جو نہایت اشتیاق سے مجھ سے ملا تھا مجھ سے سوال کیا کہ آپ نے قران شریف کی تفسیر لکھی ہے میں نے کہا کہ لکھی ہے کہنے لگا کہ آپ کو کتنا روپیہ ملا ہے نیں کہا کہ ایک پیسہ بھی نیہں کہنے لگا پھر تم کو کیا فائدہ ہوا میں کہا کہ ہمارے مزہب نے تعلیم دی ہے کہ اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی بھی ہے وہاں اس کا فائدہ ہوگا ـ آجلہ (آئندہ کا ) فائدہ تو یہ ہے اور عاجلہ (موجودہ ) فائدہ یہ ہے کہ شایقین اس کو پڑھتے ہیں مجھ کو دیکھ کر مسرت ہوتی ہے آگے کچہ بولا یہ لوگ ذہین نہیں ہوتے اس لئے جلد گفتگو کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے ـ
(ملفوظ 9 )برق کی دو قسمیں
ایک سلسلہ گفتگو میں فرما یا کہ ایک مرتبہ نواب وقار الملک مجھ کو علی گڈھ کالج وہاں بیان ہوا میں بیان کے وقت سے پہلے ہی کالج میں پہنچ گیا تھا وہاں کے ارکان نے بعض مقامات کیس سیر بھی کرائی منجملہ سب کے ایک کمراہ تھا جس میں بجلی تھی اس کا بھی معائنہ کیا جب بیان شروع ہوا تو دوران تقریر میں بجلی بھی کچھ تحقیق تھی اس باب میں جوحدیث آئی وہ بھی بیان کی گئی ـ پھر میں نے کھا شاید آپ لوگوں کو یہ شبہ ہو کہ برق کی حقیتق جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے اس پر شبہ ہوسکتا ہے کہ یہ تو مشاہدہ کے خلاف ہے ہم نے خود برق بنالی ہے اس کی حقیتق تو ہ نیہں میں نے جواب میں کہا کہ ممکن ہے برق کی دوقسمیں ہوں ایک سماوی اورایک ارضی تو جس کی حقیقت حضور صلی اللہ وعلیہ وسلم نے بیان کی وہ برق سماوی ہے اور جس برق کا آپ کو مشاہدہ ہواہے وہ ارضی ہے سو اگر دونوں کی حقیقت مختلف ہو تو اس میں تعارض کیا ہوا چونکہ ایسا قریب الفہم جواب انہوں نے کبھی سنا نہ تھا ان لوگوں پر بیحد اثر تھا تمام وعظ سن لینے کے بعد کہا کہ ہم کو ایسے وعظ کی ضرورت ہے اور اسی طریق سے ہمارئ اصلاح کی ضرورت ہے اصلاح بھی ہوجاوے اور ہم کو ناگوار بھی نہ اور عام واعظین میں بعض تو ہم پر کفر کے فتوے دیتے ہیں جس سے ہم کو وحشت ہوتی ہے اور بعض ہماری ہاں میں ہاں ملاتے ہیں جس سے بجائے اصلاح کے ہمارا مرض بڑھتا ہے طلبہ کی خواہش تھی کہ کالج میں آتا رہے تاکہ ہماری ا صلاح ہو مگر کالج کے حامی ڈرگئے اگر ایک دو دفعہ اور آگیا تو تمام کالج ہی کی کا یا پلٹ ہوجائے گی پھر نہیں جانا ہواـ
(ملفوظ 7) رضاعی رشتہ بالکل حرام ہے
فرمایا کہ آج ایک رجسڑی آئی ہے اس میں ایک استفتاء آیا لکھا ہے کہ یہ
رضاعی رشتہ ہے اس کو ایک پیر نے جائز کردیا ہے خدا معلوم لوگ ایسے جاہلوں سے مسائل پوچھتے ہی کیوں ہیں باوجود اس کے آج کل علم کازمانہ ہے کثرت سے علماء ہیں مگر پھر بھی جاہلوں سے مسائل پوچھتے ہیں سمجھتے ہیں جب پیر ہوگئے تو سب کچھ ہوگے سر بھی ہوگے اور پیر بھی ہوگے فرمایا میں نے جواب لکھ دیا حرام بالکل باطل ہے اور یہ قول کہ مرضعہ کا دودھ ہندہ کی پیدائیش کے زمانہ کا نہ تھا اس لئے زید و ہندہ رضاعی بھائی بھن نہیں ہوئے بالکل ظلط بالکل باطل ہے ـزید کو چایہئے فورا ہندہ کو جدا کردے اور ان سب کو توبہ کرنی چایئے مع پیر صاحب سے ادب کے ساتھ کہنا چایئے کہ پیر ہی رہیں مولوی نہ بنیں اور فتوے نہ دیا کریں ان کمبختوںنے لوگوں کے دین کا ناس کردیا خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو گمراہ بناتے یہاں اس نواح میں تو بفضلہ تعالیٰ ان گمر ہیوں کا پتہ چلتا نہیں اپنے بزرگوں کا اثر ہے یہاں سےادھر ادھر جاکر دیکھے کیا خرافات برپا ہے ایک مرتبہ مبمئی میں وعظ کا اتفاق ہوا مجھ کو بڑا تردد ہوا کہ کیا بیان کروں اگر مسائل مسائل اختلافیہ بیان کرتا ہوں تو وحشت ہوگی متفق علیہ بیان کروں تو ان کو سب جا نتے ہیں یعنی نماز روزہ وغیرہ تو ضرورت کا بیان کونسا کیاجاوے پھر سوچکر میں نے آیت وضرب اللہ مثلا قریتۃ کانت امتہ مطمنۃ الخ
( اور اللہ تعالی ایک بستی والوں کی حالت عجیب بیان فرماتے ہیں کہ وا امن واطمینان میں تھے )
پڑ بکر اس کا بیان کیا کہ اللہ نے آپ کو بہت نعمتیں دی ہیں مگر آپ ان کا شکر ادا نہیں
کرتے یہ بیان کبھی ان کے بڑوں نے بھی نہ سنا ہوگا اس کو میں نے بھت اچھی طرح ثابت کیا میں نے بیان کرنے میں ایک شرط یہ بھی لگائی تھی کی عوام الناس کا وعظ میں اجتماع نہ ہو ہاں جو عمائد اور خوش فھم ہوں ان کو بلایا جاوے اس لئے کہ بڑے درجہ کے لوگ خواہ وہ دوسرے ہی مزہب کے ہوں عالی حوصلہ ہوتے ہیں اگر ان کے خلاف بھی بیان کیا جاوے وہ ناگواری کا اثر نہیں لیتے اور عوام الناس جاہل اکثر مفسد ہوتے ہیں خوص بمبئی کے عوام الناس تو نہایت ہی مفدس ہیں اہسئ جہگوں میں بیان کر کے دل خوش نہیں ہوتا اگر سامعین خالی الزہن ہوں نہ اعتقاد ہو نہ عناد ہو تو بھی مضائقہ نہیں مگر وہاں تو کثرت سے معاندین ہیںۤ ۤـ
(ملفوظ6)لیڈی کی بجائے لفظ اھل خانہ مناسب ہے
فرمایا کہ ایک ریئس کی بی بی کا خط آیا اس میں اپنے پتہ کے ساتھ لکھا تھا کہ
لیڈی فلاں میں نے لکھا کہ اگر تم بجائے لفظ کے اہل خانہ لکھتیںـ یہ اچھا تھا پھر
ایک مہینہ کے بعد خط آیا اس پر اہل اخانہ فلاں لکھا تھا تو یہ بڑے شریف خاندان کی
عورتوں کی حالت ہے ان میں بھی جدید اثرآگیا ایسا ہی آج ایک خط آیا ہے اس میں اپنے
نام کے ساتھ مسڑ لکھا ہے کیا آفت ہے شریفوں میں بھی یہ بلا گھس گئی ہے نئے الفاظ کو
آج کل پسند کیا جاتا ہے کیا اردو میں دلالت کے لئے الفاظ رہے ـ نہیں فنا ہوگیے
(ملفوظ5)رقعہ اور رکا (لطیفہ)
ایک شخص نے آکر نہایت بلند آواز سے عرض کیا کہ میں ایک رقعہ لایا ہوں
فلاں صاحب نے بھیجا ہے حضرت والا نے وہ رقعہ ٓلے لیا اور مزاحا فرمایا کہ رقعہ تو دکھایا
پہچھے اور رکا (شوروغل ) دیدیا یا پہلے ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ یہ بد سلیقگی کی بات ہے اتنے زور
سے چیخا کہ جیسے اذان دیا کرتے ہیں اعتدال تو رہا ہی نہیں یا تو اس قدر آہستہ بولیں گے کہ
کوئی سن ہی نہ سکے یا کانوں کے پردے بھی پھاڑدیں گے غرض افراط وتفریط سے خالی
نہیں
(ملفوظ4)اعتدال اختیار کرنے میں مصلحت
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مجھ سے ایک تاجر نے روایت کی کی ایک شخص نے
جو بریلوی خانصاحب کا مرید تھا گکگتہ میں یہ کہا تھا کہ کون کہتا ہے اشرف علی دیو
بندیوں میں سے ہیں دیوبندی خواہ مخواہ اس کو اپنی طرف منسوب کرتے ہے وہ تو ہماری
جماعت سے ہیں اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ میں سختی نہیں کرتا ہر چیز کو اس کی حد پر رکھتا
ہوں حتیٰ کہ بریلوی مسلک کے متعلق بھی غصہ سے کام نہیں لیتا اس اعتدال سے وہ سمجھ
گے کہ یہ ہمارا اہم عقیدہ ہے ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے
کہ ہر شخص مجھ کو کو اپنے رنگ پر سمجھتا ہے اور میں ہر رنگ سے جداہوں اس پر ایک مثال
عجیب فرمایا کرتے تھے کہ میری ایسی مثال ہے جیسے پانی کہ اس میں کوئی رنگ نہیں مگر
جس رنگ کی بوتل میں بھردوں اس کا وہی رنگ معلوم ہونے لگتا ہے میں اس شعر پر یہ پڑھا
کرتا ہوں ے
ہر کسے ازظن خود شد یار من وزدرون من نہ جست اسرار من
( ملفوظ 3 )اھل محبت کی عجیب شان
ایک سلسہ گفتگو میں فرمایا کہ محبت بھی عجیب چیز ہے اس کی بدولت انسان
سب کچھ برادازت کرلیتا ہے محبوب کی تو خفگی بھی محبوب ہوتی ہے کسی نے خوب کہا
ہے
تم کو آتا ہے پیار پر غصہ ہم کو غصہ پہ پیار آتا ہے
اہل محبت کی تو شان ہی جدا ہوتی ہے حضرت شاہ ابوالمعالی رحمتہ اللہ علیہ کے ایک مرید حج
کو گے شاہ صاحب نے مرید سے کہا کہ جب مدینہ منورہ حاضر ہو تو روضہ اقدس پر میرا بھی
سلام عرض کرنا چنانچہ یہ بعد فراغ حج مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور پیرا کا سلام عرض کیا
وہاں سے ارشاد ہوا کہ اپنے بدعتی پیر سے ہمارا سلام کہ دینا جس کو ان مرید نے بھی
سنا جب واپس آئے توحضرت شاہ ابوالمعالی صاحب نے پوچھا کہ ہمارا سلام بھی عرض
کیا تھا انھوں نے کہا کہ میں نے عرض کردیا تھا حضورﷺ نے بھی ارشاد فرمایا کہ اپنے
پیرا ہمارا بھی سلام کہ دینا شاہ صاحب نے فرمایا کہ وہی الفاظ کہو جو وہاں سے ارشاد
ہوئے عرض کیا کہ جب حضورﷺ کے الفاظ حضرت کو معلوم ہیں تو پھر میرے
ہی کہنے کی کیا ضرورت ہے نیز میری زبان سے وہ الفاظ اداہونا سوء ادب ہے شاہ صاحب
نے فرمایا کہ معلوم ہیں مگر سننے میں اور ہی مزا ہے اور بھائی تم خود تو نہیں کہتے وہ تو
حضورﷺ کے ارشاد فرمائے ہوئے ہیں تمہارا ادا کرنا تو حضور ﷺ ہی کا فرمانا ہے اس
میں بے ادبی کیا ہوتی بالا خر مرید نے وہی الفاظ اداکردئیے سن کر شاہ صاحب پر وجد کی
حالت طاری ہوگئی اور کھڑے ہوکر بیسا ختہ زبان پر شعر جاری ہوگیا
بدم گفتی وخر سندم عفاک اللہ نکو گفتی
جواب تلخ میزیبد لب لعل شکر خارا
(آپ نے مجھے بڑا کہا مگر میں تو خوش ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عنایت
فرماوے آپ کے کے لب شیریں سے تو تلخ جواب بھی پیارا ہی معلوم ہوتا ہے 12ـ)
غرض محبت وہ چیز ہے کہ حضور نے بدعتی بھی فرمایا اور سلام بھی فرمایا اور شاہ صاحب
پر حالت بھی طاری ہرگئی اور بدعت سماع کو فرمایا سماع جامع شرائط صوۃ بدعت ہے حقیقت بدعت نہیں
( ملفوظ2 )ہر کام میں سلیقہ کی ضرورت ہے
ایک صاحب کی غلطی پر موا خذہ فرماتے ہوئے فرمایا جب میں کسی سے کوئی
فرمائش کرتا ہو ں تو میرا قاعدہ جس پر ایسے کم عقلوں کے واسطے خود بھی عمل کرتا
ہوں اور دوسروں سے بھی مشورہ دیتا ہوں کہ بات کہ کر مخاطب سے اعادہ کرالینا چایئے
تاکہ غلط فہمی کا شبہ نہ رہے اور صل بات یہ ہے کہ کام میں ہر بات میں سلیقہ کی
ضرورت ہے سلیقہ سے طبیعت پر اچھا اثر ہوتا ہے اور بد سلیقگی سے طبعیت مکدر ہوتی ہے مگر
آجکل یہ باتیں قریب قریب لوگوں میں مفقود ہیں سمجھنا پر بھی اثر نہیں ہوتا پھر جب
تجربوں کے بعد قواعد مقرر کئے جو اپنی اور دوسروں کی راحت کا سبب ہیں
آدمی کو خود اپنی اصلاح کی فکر نہ ہو دوسراکیا اصلاح کر سکتا ہے

You must be logged in to post a comment.