فلاں مدرسہ کی سرپرستی کا ذکر فرماتے ہوئے کہ ایک ممبر صاحب نے جو مولوی صاحب بھی ہیں ۔ ایک دل خراش اور فضولیات سے پر تحریر میرے پاس بھیجی مجھ کو اس سے دور رنج ہوئے ایک تویہ کہ ایک دم اس قدر برا انقلاب ہوگیا یہ لوگ تو اپنے پرانے بزرگوں کے دیکھنے والے ہیں ۔ ان میں یہ نیا رنگ کہاں سے آگیا دوسرے یہ تہذیب بھی تو کوئی چیز ہے اور جن کی وہ تحریر ہے ان سے ہمیشہ کے تعلقات ہیں اس کے بعد وہ مولوی صاحب یہاں آئے اور معذرت اور معافی چاہی میں نے صاف کہہ دیا کہ اگر معافی چاہئے سے یہ مقصود ہے کہ انتقام نہ لیا جاوے نہ دنیا میں نہ آخرت میں تو معافی ہے اور اگر یہ مقصود ہے کہ رنج نہ رہے تو رنج تھا اور ہے اور رہے گا ، میں ناراض تھا اور ہوں اور رہوں گا مجھ کو کشیدگی تھی اور ہے اور رہے گی جب تک آپ کا یہ دعوٰی مجھ کو معلوم رہے گا کہ آُپ کو مجھ سے محبت ہے تعلق ہے جس روز یہ ختم ہوجائے گا یہ سب عوارض بھی ختم ہوجاویں گے شکایت اپنوں ہی سے ہوا کرتی اور ویسے تو بریلی کے خاں صاحب نے مجھ کو ساری عمر گالیاں دیں واللہ ذرہ برابر بھی کبھی اثر نہیں ہوا اور یہ جوآج کل رسم ہے معافی کی اس کی حقیقت صرف عدم مواخذہ ہے باقی اثر ضرور رہتا ہے ۔ حضرت وحشی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ساری عمر صورت نہ دکھلانا حضرت وحشی نے حالت کفر میں حضوصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو قتل کیا تھا بعد میں اسلام لے آئے تھے تو کیا اسلام نے آنے پر معافی نہیں ہوگئی مگر حضوصلی اللہ علیہ وسلم کو رنج رہا اس سے بڑی بقاء اثر کی اورکیا دلیل ہوسکتی ہے بات یہ ہے کہ معافی تو اختیاری چیز ہے رنج کا رفع کرنا اختیارہ نہیں و صاحب جرم کے اختیار میں ہے کہ ایسے اسباب جمع کردے جس سے رنج جاتا رہے ۔
Author: حبیب اللہ
(ملفوظ 462)مجھے اپنے طریق اصلاح پر نازنہیں :
ایک صاحب کی غلطی پرمواخزۃ فرماتے ہوئے اور جواب کے مطالبہ پربھی جواب نہ دینے پرفرمایا کہ اگر آپ جواب نہ دیں تو میرا کوئی ضرر نہیں نہ مجھ کو جواب کا انتظار ہے اسلئے کہ جواب میں میری کوئی غرض نہیں مصلحت نہیں اگر غرض ہے تو تہماری اگرمصلحت ہے تو تمہاری یہ بھی میرا تبرع اور احسان ہے کہ اپنے کاموں خرج کرکے تم کو وقت دیتا ہوں اورتم ہو کہ نواب کی طرح خاموش بیٹھے ہو نہ ہاں کچھ بھی نہیں ۔ اگر مصلح کو غلطی کا سبب معلوم ہوجائے تووہ غور کرلے کہ معقول ہے یا نہ معقول اور علاج قابل اصلاح ہوتو اصلاح کردے اورجب سبب ہی نہ معلوم ہوتو کس بات کی اصلاح کرے مگر مرض یہ ہوگیا ہے کہ اصل بات کو بلی کے گوہ کی طرح چھپاتے ہو تو کس بات کی اصلاح کیسے ہو ۔ شیخ اور بزرگ تو بیچارے کیا چیز ہیں اور کس شمار میں ہیں انبیاء علیہم السلام ایسے شخص کی نہ اصلاح فرما سکے چنانچہ ابوطالب اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ہی واقعہ اس کی دلیل کے لئے کافی ہے آخرت وقت تک حضور نے کوشش فرمائی کہ ابوطالب کلمہ پڑھ لیں مگر جو نتیجہ ہوا اظہر من الشمس ہے تو اصلی شرط طلب ہے اور جب یہ نہ ہوتو اوپر اوپر باتیں بنانے سے اس طریق میں اصلاح کا کام نہیں چل سکتا جب تک سچی بات ظاہر نہ کرے ۔
سچی بات کو دل قبول کرلیتا ہے قرار پکڑجاتا ہے باقی کتنی ہی باتیں بنادے نہ دل قبول کرتا ہے اور نہ قرار پکڑتا ہے یہ دوسری بات ہے کہ مصلح کسی وقت یہ سمجھ کرکہ جب اس کو ہی اپنی اصلاح کا اہتما م نہیں اور فکر نہیں تو مرنے دوسسرے کو وہ تسامح اختیار کرلیتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہی ہے کہ جب تک اصلی بات نہ کہی جاوے اصلاح غیرممکن ہے ۔ حضرت یہ اصلاح کا پیشہ بھی بڑا ہی نازک ہے اور مجھ کو بھی اپنے طریق اصلاح پرناز نہیں اس لئے کہ میں بھی بشر ہوں علمی غلطی بھی ہوسکتی ہے عملی غلطی بھی ہوسکتی ہے کرتا میں ضرور ہوں اس کام کو مگر ڈرتا ہوں کہ کہیں حق تعالٰی اسی طرح مجھ سے نہ مطالبہ فرمالیں مگر ان کے فضل پربیڑا ہے اور بھروسہ ہے میں آپ سے بقسم عرض کرتا ہوں کہ عین مواخذہ اور مطالبہ کے وقت مجھ کو یہ استحضار رہتا ہے کہ اس کی یہ باتیں اور یہ خود خدا کے نزدیک مقبول ہو اور اس استحضار رہتا ہے کہ اس کی یہ باتیں اور یہ خود خدا کے نزدیک مقبول ہو اور اس استحضاء کے سبب میرا یہ سب کہنا سننا تحقیر سے نہیں ہوتا محض اصلاح کی غرض سے ہوتا ہے ورنہ عقیدہ سے ہرطرح پر میں آنے والوں کو اپنے سے افضل سمجھتا ہوں اور یہ خیال کرتا ہوں کہ ممکن ہے کہ یہ ہی حضرات میری نجات کا ذریعہ بن جائیں حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اگر پیر مرحوم ہوگا تو مرید کو جنت میں لے جائے گا ۔ تو مجھ کو سب آنے والوں سے یہی توقع ہوتی ہے مگر پھر بھی خدمت اصلاح کو ضروری سمجھتا ہوں اور اسی سے بد نام ہوتا ہوں مگر بجز جبر کے کیا ہوسکتا ہے ۔
(ملفوظ 461)فیشن ایبلوں میں عقل اور بیداری نہیں ہوتی
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جولوگ ہروقت مزین اور آراسہ رہتے ہیں اکثر ان میں عقل اوربیداری نہیں ہوتی کیونکہ ہوتی کیونکہ توجہ ایک ہی طرف ہوتی ہے یا جسم کو آراستہ کرلو یا قلب کو آراستہ کرلو ۔ صبح ایک دوست کو دیکھا کہ ہراکر تہ پہنے ہوئے طوطے بنے ہوئے ہیں ۔ تواب جوبات پوچھتا ہوں وہ گلہڑی طوطے کی طرح اڑنگ بڑنگ ہانکتے چلے جاتے ہیں میں نے محض ان علامات سے بدوں تحقیق کے ان پرکوئی الزام نہیں دیا بلکہ اول پوچھا پھر جواب کے لئے مہلت دی کہ سوچ کر جواب دو مگر گیا غرض جو سمجھ سے کام لیا ہو۔ اب دیکھ لیجئے میں نے کیا کیا اور انہوں نے کیا کیا میں نے یہی کہا کہ جواب کہ جواب دو تمہاری اس حرکت سے ایذاء ہوئی ہے مگر اس پربھی خبرے نباشد ۔
اب بتلایئے کہ اگر چشم پوشی کرتا ہوں اور بفضلہ تعالٰی کرسکتا ہوں اختیاری چیز ہے اور موخذاہ کے وقت الحمداللہ اضطراری حالت پیدا نہیں تمام مصا لح کی اس وقت بھی رعایت رکھتا ہوں غرض اگراختیار سے کام لوں اور چشم پوشی کرلوں تو اصلاح نہیں ہوسکتی اور اصلاح کرتا ہوں تو بدنامی ہوتی ہے مگر ہوا کرے بدنامی ایسی تیسی میں جائے ہم کیوں نہ کریں اصلاح ہمارے ذمہ ہے اصلاح ۔
(ملفوظ 460)حسن معاشرت جزو دین ہے
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ حسن معاشرت کو تو اچھے پڑھوں نے بھی دین کی فہرست ہی سے نکال دیا یہ باتیں دین ہی نہیں سمجھی جاتیں محض نمازروزہ چند عقیدوں کو دین سمجھا جاتا ہے آگے صفر۔ حالانکہ حدیث شریف میں صاف آیا ہے کہ اگر دو مسلمان قصدا پاس بیٹھے ہوں کے بیچ میں جاکر مت بیٹھو ممکن ہے کہ وہ قصدا پاس بیٹھے ہوں محبت کی وجہ سے سے یا کسی مصلحت کی وجہ سے تو ایسی ہلکی ہلکی باتوں کی جب نصوص میں تعلیم ہے اس سے اندازہ کرلیا جاوے کہ دین میں حسن معاشرت کی تعلیم ہے یا نہیں ۔
(ملفوظ 459)حکایت کبراورکم عقلی
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ معلم انگریزی اسکولوں کے ہوں یا اردو کے اکثر ان میں دوچیزیں جمع ہوتی ہیں کبر اورکم عقلی ایک حکایت ہے کسی نے نوکر سے بکری کی سری منگائی تھی وہ مغز خود کھاگیا آقا نے پوچھا مغز کیا ہوا دیکھنے لگا مدلم گوسفنداں بود ۔ ( یہ بکرا دوسرے بکروں کا معلم تھا ) ۔
ایک صاحب ہیں وہ تعلیم کا سلسلہ جاری کرنا چاہتے ہیں مگر اس قدر کم فہم واقع ہوئے ہیں کہ کوئی بات بھی تو ٹھکانے یا سمجھ کی نہیں میں جو لکھتا ہوں اس کا تو جواب ندارد اپنی ہی مرغ کی ایک ٹانگ ہانکے چلے جاتے ہیں ۔ فرمایا کہ مرغ کی ٹانگ یہ ایک مثل مشہور ہے اس کی بناء یہ ہے کہ کسی آقا نے باورچی کو حکم دیا کہ آج مرغ پکاؤ اس نے حکم کی تعلیم کی مگر جب دسترخوان پرکھانا گیا تو پلیٹ میں مرغ کی صرف ایک ٹانگ آقا نے مطالبہ کیا باورچی کہتا ہے کہ اس کی ایک ہی ٹانگ تھی آقا نے کہا کہ پاگل ہو کہیں ایک بھی ہوتی ہے اس نے پھراصرار کیا کہ اچھا کوئی مرغ ایک ٹانگ کا دکھلاؤ آقا نوکر کولے کرچلا اتفاق سے ایک مرغ ایک ٹانگ پر کھڑا تھا نوکر نے جوکہا کہ دیکھئے حضور ہے بھی اس کے ایک ہی ٹانگ ہے آقا نے اس مرغ کی طرف ہاتھ کرکے کہا کہ ہشت ،، مرغ دوسری ٹانگ بھی نکالدی اور بھاگ گیا۔ آقا نے کہا کہ دیکھ ! دوٹانگ ہیں یا نہیں تو باورچی کہتا ہے کہ آُپ نے وہاں ،، ہشت ،، کیوں نہیں فرمایا تھا وہاں بھی دوسری ٹانگ نکل آتی ۔
(ملفوظ 458)اختیاری کام کرنے کا امر ہے
فرمایا کہ ایک خدا خط آیا ہے لکھا ہے کہ میں نہ نماز پڑھتا ہوں نہ مجھ کو زکوۃ کا اہتمام ہے یہ تو دینی حالت ہے اور دنیوی حالت یہ ہے کہ تجارت نہیں چلتی اورجس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں اس میں کامیابی نہیں ہوتی نہایت ادب سے خادم کی التجا ہے کہ آپ دل سے دعا فرماویں ۔ میں نے جواب میں لکھ دیا ہے کہ دل بہت خوش کررکھا ہے جودعاء کروں جوکرنے کے اختیاری کام ہیں وہ بھی نہیں کرتے اس پرایک قصہ یا د آیا کہ ایک شخص نے بمبئی میں حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت دعا فرماویں کہ میں حج کر آؤں فرمایا کہ جس روز جہاز جانے کو ہوا اس روز تمام دن کے لئے مجھ کو تم اپنے اوپر پورا اختیار دیدینا ۔ عرض کیا کہ کیا ہوگا فرمایا یہ ہوگا کہ ٹکٹ خرید کر تمہارا پکڑ کر جہاز میں سوار کرادوں گا ۔ پھر میں دعاکروں گا وہ جہاز تم کو لے کر جدہ پہنچے گا اور پھر وہاں سے مکہ ضرور جائے گا اس طرح حج ہوجائے گا اور بدوں اس کے تو ساری عمر دعا کرتا رہوں گا اور تم ساری عمر تجارت کرتے رہو گے بس ہوچکاحج۔
(ملفوظ 457)پابندی اصول میں بڑی راحت ہے :
ایک آنے والے صاحب نے ایک دستی خط حضرت والا کی خدمت میں دیر سے پیش کیا اورعرض کیا کہ یہ فلاں صاحب کا خط ہے بوجہ بھول جانے کے آتے پیش نہ کرسکا فرمایا کہ آپ کود ہیں انکا ر کردینا تھا یہ ہی وجہ ہے کہ اپنے دوستوں کو کہا کرتا ہوں کہ اصول کے پابند بنواس میں بڑی راحت چھوٹی سے چھوٹی بات میں سلیقہ اور انتظام کی ضرورت ہے اصل میں ان باتوں کا سبب بے فکری ہے بھول کم ہے بے فکری زیادہ ہے اس رنگ کو دیکھ کر خیرخواہی سے مشورہ دیتا ہوں کہ دستی خط لینا ہی نہیں چاہے صاف کہہ دینا چاہیے کیا اطمینان کیا بھروسہ کہ پہنچایا نہیں خط ہمشہ ڈاک ہی میں بیجھنا چاہے ۔ یاد رکھنے کی بات ہے کیونکہ بیداری بہت کم طبیعتوں میں ہے جیسے سوتے ہیں یہ حال ہے ۔ پھر اس حالت میں کیوں ذمہ داری لے ۔
(ملفوظ 456) بذم القیل وقال :
ملقب بذم القیل والقال : ایک مولوی صاحب نے سوال کیا کہ چارچیزیں ہیں شریعت طریقت حقیقت ، معرفت ، اگر کوئی ان کا منکرہ ہواس کے متعلق کیا حکم ہے فرمایا کہ تحریر کے ذریعہ سے سب کو الگ الگ پوچھنا چاہئے اسی لئے کہ اس خلط کی صورت میں حکم دینے میں کے ذریعہ سے سب کو الگ الگ پوچھنا چاہئے اسی لئے کہ اس خلط کی صورت میں حکم دینے میں اندیشہ ہے کہ محاطب کو غلط فہمی ہوجائے ایک کا حکم دوسرے پرلگالیا جاوے اسی طرح زبانی تقریر میں یہ احتمال زیادہ تھے اور ایک بات ضروری یہ ہے کہ جو شخص منکر ہو اس کو خود سوال کرنا چاہئے یہ نہیں کہ عمر زید کو فرض کرکے سوال کیا جائے اور چونکہ ان میں بعض چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا انکار کفر نہیں اوربعض کا انکار کفر ہے اسی لئے مخلوط حالت میں فتویٰ دنیا خلاف احتیاط ہے اس کی صورت یہی ہے کہ جو منکر ہے وہ خود سوال کرے اوراس کی یہ صورت ہے کہ اول اس مسئول عنہ کی تعیین لکھے اوراس کے ساتھ سائل اس کا جو مفہوم خود سمجھا ہے اس کی تفسیر کرے اس کے بعد اپنا عقیدہ اس کے خلاف ساتھ ظاہر کرے اور سب کے بعد اپنے دسخط کرے تب فتوٰی سہولت سے ہوسکتا ہے اور جب تک سوال منقح نہ ہو فتوٰی ہوسکتا ، اس قسم کا فتویٰ بلا تحقیق دنیا ایسا ہے جیسے کسی کے قتل کا حکم کرنا یہاں جان میں تصرف ہے وہاں ایمان میں تصرف ہے ۔
پھر فرمایا کہ یہ سب اصطلاحات ہیں سہولت تعبیر کے لئے استعمال کی جاتی ہیں حقیقت سب کی بایں معنی متحد ہے کہ ان میں تنافی نہیں ایک ہی ہیں ۔ یہی غلطی ہے کہ ان کو الگ الگ بمعنی تنافی سمجھ لیا گیا جیسے ایک شخص ہے اس کو مولوی بھی کہتے ہیں قاری بھی کہتے ہیں حافظ بھی کہتے ہیں حاجی بھی کہتے ہیں تو یہ چیزیں صفات متبائنہ تھوڑا ہی ہیں ایک ہی شخص میں سب جمع ہیں اور باہم نسبت عموم وخصوص کی ہے ۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ مقصود اعظم تو شریعت ہی ہے فرمایا کہ خود ایک ہی چیز ہے یعنی شریعت ۔ اس کے مقابل کوئی چیز نہیں جس کی وجہ سے اعظم کہا جاوے جس کا حاصل عمل کا خالص کرنا بے شیخ اس کی تدابیر کی تعلیم کرتا ہے ان تدابیر کا نام طریقت ہے پھر اس کی برکت سے جو علوم منکشف ہوتے ہیں وہ حقیقت ہیں اوران ہی کے حقائق میں بعض کے انکشاف کا نام معرفت ہے باقی اور جوکچھ ہے مراقبہ مکاشفہ ذکر وشغل سب اسی مقصود کے معین اورمتمم ہیں اور اصل وہی ایک چیز ہے اور یہ سب کرنے کے کام ہیں مگر آج کل بجائے کچھ کرنے کے بڑا شغل دوسری کی عیب جوئی یا فضول تحقیقات رہ گئی ہیں لیکن دوسرے پرتو فتوٰی جب لگاوے جب اپنے سے فراغت حاصل کرلی ہو ایک شخص مدقوق ( مرض دق میں مبتلا ) ہے اور ایک پڑوس میں مزکوم ( جس کوزکام ہورہا ) ہے اب یہ دق والا زکام کا نسخہ تلاش کرتا پھرتا ہے اپنی فکر نہیں خبر نہیں لیتا ۔ مولانا نعیم صاحب سے کسی شخص نے سوال کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میں اور حضرت معاویہر رضی اللہ عنہ میں جو جنگ ہوئی کون حق پرتھا مولانا نے دریافت کیا کہ یہ کس نے سوال کیا ہے عرض کیا کہ فلاں حافظ صاحب نے دریافت فرمایا کہ وہ کام کرتے ہیں عرض کیا جوتے بیچتے ہیں فرمایا اور تم کیا کام کرتے ہو عرض کیا کہ میں کپڑے رنگتا ہوں فرمایا جاؤ تم کپڑے رنگو اور ان سے کہو جوتے بیچا کریں علی جانیں اور معاویہ جانیں ان کا معاملہ تمہارے پاس فیصلہ کے لئے نہ آئے گا بعض لوگ خطوط میں مجھ سے استفسار کرتے ہیں کہ فلاں شخص ایسا ہے اس کے متعلق کیا حکم ہے لکھ دیتا ہوں کہ خود واقعہ کے دستخط کراکر بھیجھیں حضرت یقینا سوال میں افتراء اور کذب ہوتا ہے یا نیت فاسد ہوتی ہے فتوے کو آڑ بنا کر ایک مسلمان کی تکفیر کرتے ہیں اور اس کی فضیحت اور رسوائی کے درپے ہوتے ہیں بڑی بڑی سخت بات ہے جونہایت احتیاط کے قابل ہے جیسے بزرگوں نے اس باب میں سخت احتیاط سے کام لیا ہے ۔
ایک حکایت اس کے متعلق یا د آئی میں نے طالب علمی کے زمانہ میں کسی کتاب میں دیکھا کہ ایک پیر نے مرید سے پوچھا کہ تم خدا کو جانتے ہو مرید نے کہا کہ میں خدا کو کیا جانوں میں تو تم کو جانوں مجھ کو اس پربڑا غصہ آیا کہ بڑا ہی جاہل اور ایمان سے دور تھا ۔ میں نے یہ قصہ مولانا محمد یعقوب صاحب سے عرض کیا کہ حضرت ایسے ایسے بھی جاہل ہیں مولانا نے فرمایا کہ کیا تم خدا کو جانتے ہو ، تب میری آنکھیں کھلیں فرمایا کہ میاں کس اللہ والے ہی کو پہچان لے یہ ہی بڑی نعمت ہے اس میں مولانا نے تاویل سے کام لیا اور قائل کو بچالیا ۔ حضرت مولانا شیخ محمد صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ بعض لوگ والاالضالین فرمایا بس جو قرآن میں لکھا ہے وہی پڑھا کرو دیکھے کیسی سہولت سے جھگڑے کو قطع کردیا اس میں تعلیم تھی کہ جھگڑوں میں مت پڑو ۔
ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ یزید پر لعنت کرنا کیسا ہے میں نے کہا کہ اس شخص کو جائز ہے جس کو یہ خبردار اور یقین ہوکہ میں یزید سے اچھی حالت میں مروں گا اگرکہیں اس سے خراب حالت میں قبر میں رہ گئے تو وہ کہے گا کہ مجھ کو تو ایسا ایسا کہتے تجھے تھے اب تم دیکھو کس حالت میں ہوکہنے لگے تو یہ کب معلوم ہوگا میں نے کہا کہ مرنے کہا مرنے کے بعد کہنے لگے تو قبر میں لعنت کیا کریں میں نے کہا کہ ہاں کوئی کام تو وہاں ہوگا نہیں بیٹھے ہوئے لعنت اللہ علی الیزید پڑھا کرنا یہاں تو کام کی باتوں میں لگو ۔ خاتمہ کے خطرہ پرایک بزرگی کی ایک حکایت یا د آئی کہ ان سے کسی کنجڑن نے سوال کیا کہ ملاجی تمہاری داڑھی اچھی ہے یا میرے بکرے کی دم کہا کہ کبھی جواب دیے دیں گے ۔ ساری عمر گذر گئی مگر اس کنجڑن کوکوئی جواب نہیں دیا جب مرنے لگے تو وصیت کی کہ میرا جنازہ اس کنجڑن کے دوکان کے سامنے سے نکالنا جب جنازہ وہاں پہنچا اس نے کہا کہ مرگئے میرے سوال کا جواب نہ دیا بس منہ کھول دیا اور منہ پرہاتھ پھیر کر کہا کہ الحمداللہ آج میری داڑھی اچھی ہے تیرے بکرے کی دم سے اسی لئے کہ ایمان پر خاتمہ ہوگیا ۔ اب یہ حکایت صحیح ہو یا غلط مگر مثال اچھی ہے اور مثال دلیل نہیں ہوتی محض تو ضیح کے لئے ہوتی ہے غرض خاتمہ کے بعد پتہ لگتا ہے باقی اس سے پہلے تو مجدد صاحب کے ارشاد عمل ہونا چاہئے انہوں نے فرمایا ہے کہ مومن مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے کو کافر فرنگ سے بدتر نہ سمجھے مطلب یہ کہ کیا خبرکیا ہوجائے اور کیا خبرکیا ہوجائے اور کیا معاملہ پیش آئے کس کو خبر ہے خلاصہ یہ ہے کہ فضول سوالوں میں پڑنا وقت کا ضائع کرنا ہے ہمارے بزرگ اس قسم کی گفتگو اور مباحثوں مناظروں کو پسند نہ فرماتے تھے خود کام لگے رہتے تھے اور دوسروں کو لگائے رکھتے تھے ۔ ایک مرتبہ حضرت مولانا قاسم صاحب دہلی تشریف رکھتے تھے اور ان کے ساتھ مولانا احمد حسن صاحب امروہی اورامیرشاہ خان صاحب بھی تھے شب کو جب سونے کے لئے لیٹے تو ان دونوں نے اپنی چارپائی ذرا الگ کو بچھالی اور باتیں کرنے لگے امیر شاہ خان صاحب نے مولوی صاحب سے کہا کہ صبح کی نماز ایک برج والی مسجد میں چل کرپڑھیں گے سنا ہے وہاں کے امام قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں مولوی صاحب نے کہا ک ارے پٹھان جاہل (آپس میں بے تکلفی بہت تھی ) ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے وہ تو ہمارے مولانا کی تکفیر کرتا ہے مولانا نے سن لیا اورزرو سے فرمایا احمد حسن میں تو سمجھا تھا تو لکھ پڑھ گیا ہے مگر جاہل ہی رہا پھر دوسروں کو جاہل کہتا ہے ارے کیا قاسم کی تکفیر سے وہ قابل امامت نہیں رہا میں تو اس سے اس کی دینداری کا معتقد ہوگیا اس نے میری کوئی ایسی ہی بات سنی ہوگی ۔ جس کی وجہ سے میری تکفیر واجب تھی گوروایت غلط پہنچی ہوتو یہ راوی پرالزام ہے تو اس کا سبب دین ہی ہے اب میں خود اس کے پیچھے نماز پڑھوں گا ۔ غرضکہ صبح کی نماز مولانا نے اس کے پیچھے پڑھی یہ ہے ہمارے بزرگوں کا مذاق جن کی کوئی نظیر پیش نہیں کرسکتا ان حضرات کی عجیب وغریب شان تھی حضرت مولانا محمد قاسم صاحب بجز کفار کے اور کسی سے مناظرہ نہ کرتے تھے بہت ہی مجبوری کے درجہ میں ایک مرتبہ بعض غیرمقلدین کا اور نعض شیعوں کا جواب لکھا ۔ تحذیرالناس پر جب مولانا پرفتوے لگے تو جواب نہیں دیا یہ فرمایا کہ کافر سے مسلمان ہونے کا طریقہ بڑوں سے یہ سنا ہے کہ کلمہ پڑھنے سے مسلمان ہوجاتا ہے تو میں کلمہ پڑھتا ہوں لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ : ایک مرتبہ میرے لکھے ہوئے اور حضرات مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے تصحیح کردہ ایک فتویٰ پرسائل کی طرف سے کچھ اعتراضات آئے تھے ۔ میں نے جواب لکھنے کی اجازت لینے کے لئے دکھلایا تو فرمایا کہ جواب مت لکھنا صرف یہ لکھ دو کہ ضروری جواب دیا جاچکا ہے باقی ہم مرغان جنگی نہیں کہ جنگ وجدال کا سلسلہ دراز کریں اگر ہمارے جواب سے اطمینان نہ ہو ۔ فوق کل ذی علم علیم ۔ دوسری جگہ سے اطمینان کرلو ہم اس جنگ وجدل سے معاف رکھواب دوبات حضرت کی یاد آتی ہے کہ ردوکد میں وہی پڑھ سکتا ہے جس کوکوئی کام نہ ہو اور جس کو کام ہوگا اس کی تویہ حالت ہوگی جیسے ایک حکایت ہے کہ ایک شخص کی داڑھی میں کچھ سفید بال آگئے حجام سے کہا کہ سفید بال چن چن کر نکال دینا ۔ نائی نے استرے سے تمام داڑھی صاف کرکے سامنے ڈال دی کہ لومیاں تم بیٹھے چنے جاؤ مجھے اور بھی کام ہے مجھ کو چننے کی فرصت نہیں تو کام کا آدمی توبکھیڑوں سے ضرور گھبراتا ہے یہ تو بے کارلوگوں کے مشغلے ہیں اسے برا کہہ لیا اس سے بھلا کہہ لیا اس پرفتویٰ دیا اس پرفتوٰی دیدیا ۔
ایک غیرمقلد یہاں آئے تھے ذکروشغل کرتے تھے بے چاروں کو مجھ سے محبت تھی ایک روز لوگوں سے کہنے لگے کہ یہاں پرسنت کے خلاف صرف ایک بات ہے وہ یہ کہ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ چشتی ، قادری ، نقشبندی ،سہروردی یہ تقسیم کسی ہے ، میں نے سن کر کہا کہ آصطلاحات میں سہولت تعبیر کے لیے نام کھ لئے ہیں یہ کوئی طریق کا جزو نہیں نہ مقصود طریق ہے اس کا انکار آپ جائز ہے۔ غرض کا رنگ ہی دوسرا ہوتا ہے مگر لوگوں کی عجییب حالت ہورہی ہے کہ اپنی فکر نہیں دوسروں کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ۔ حصوص عیب جوئی اور عیب گوئی کہ اس میں عام ابتلاء ہورہا ہے اپنے بدن میں تو کیڑے پڑرہے ہیں ان کی خبر نہیں اور دوسروں کے کپڑے پرجومکھیاں بیٹھی ہیں ان پرنظر ہے ارے اپنے کو تو دیکھ کہ کس حال ہیں ہے ۔
ایک مثال عیب چین کی ایک شخص نے عجیب بیان کی کہ باغ میں کوئی جاتا ہے تفریح سیرکے لئے ، کوئی پھول سونگھنے کے لئے اور کوئی پھل کھانے کے لئے مگر سور جب جائے گا نجاست ہی کو تلاش کرے گا کہ پاخانہ بھی کہیں ہے یا نہیں ایسے ہی اس عیب چیں کی مثال ہے کہ کسی میں کتنی ہی خوبیاں کیوں نہ ہوں مگر اس کی نظر عیوب ہی کی متلاشی رہتی ہے ۔
ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ تو ضروری نہیں ہے کہ کسی خاص طریق تربیت کو مثلا میرے ہی طرز کو سب اچھا ہی سمجھیں اس کی ایسی مثال ہے جیسے کسی کا لڑکا حسین ہے تو کیا ضرور ہے کہ ساری دنیا اس کو حسین ہی سمجھے بلکہ یہ اچھا ہے کہ دوسرے اس کو بدشکل اور غیر حسین سمجھیں تاکہ لڑکا بچا تو رہے گا اور پاک صاف رہے گا ۔ اسی طرح یہ کیا طرح یہ کیا ضرور ہے کہ جو چیز ایک کی نظر میں اچھی نہیں معلوم ہوتی اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس طریق میں کام کرنے سے حقیقت کا پتہ چلتا ہے کام ہی کرنے سے راستہ سمجھ میں آسکتا ہے اور لوگ کام کرتے نہیں اسی لئے اس سے اجنبیت ہے باقی محض بیان کرنے سے سمجھ میں نہیں آسکتا ۔ بلکہ اندیشہ ہے کہ کہیں اور مضرت نہ ہو اور حقیقت سے دور جا پڑے جیسے ٹیڑھی کھیر کی حکایت ہے ۔
ایک حافظ جی مادرزادنا بینا تھے ایک لڑکے نے ان کی دعوت کی حافظ جی نے سوال کیا کہ کیا کھلاؤ گے کہا کہ کھیر اب غلطی میں ابتلاء شروع ہوتا ہے ۔ حافظ جی نے پوچھا کہ بگلا کیسے ہوتا ہے اب لڑکا کس طرح سمجائے ہاتھ موڑ کر سامنے بیٹھ کرکہا ایسا ہوتا ہے ۔ حافظ جی نے جوٹٹول کردیکھا تو کہاں کہ بھائی یہ تو بڑی ٹیڑھی کھیر ہے حلق سے نیچے کیسے اترے گی مشبہ نہ تو تھا بگلا اورلڑکا تھا پگلا کا طباق بھر کرلا کرسامنے رکھ دیتا کہ لوکھا کردیکھ لو کھیر کیسی ہوتی ہے تواسی طرح بیان کرنے سے اس طریق کی حقیقت معلوم ہو نہیں سکتی بلکہ اور بعد ہوجانے کا اندیشہ ہے خلاصہ یہ ہے کہ قیل وقال وبحث وجدال اور فضول جواب وسوال چھوڑو اور کام میں لگو ولنعم ماقیل
کارکن کاربگذر از گفتا ر کاندریں راہ کا ر باید کار
انتھت المقالۃ الملقبۃ بذم القیل والقال ۔
(ملفوظ 455) طریقت کی کتب داخل درس ہونا چاہئیں
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میری رائے ہے کہ طریق کی ضروری کتابوں کودرس میں داخل کردیا جائے کچھ تو اجنبیت جاتی رہے گو پوری تکمیل نہ سہی اسی لئے کہ شیخ کی پھر بھی ضرورت رہے گی اس طریق میں شیخ سے کسی حال میں استغناء نہیں ہوسکتا ۔ مگر درس سے کچھ تو مناسبت ہوجائے گی ۔
29 شوال المکرم 1350ھ بوقت 8 بجے درباغ حضرت والا یوم سہ شنبہ
(ملفوظ 454)بعض محبان دنیا کا طریق سے متعلق خیال
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض محبان دنیا اس طریق کو اس لئے مضر سمجھتے ہیں کہ آدمی نکما ہوجاتا ہے مگر یہ بھی ہے کہ نکما ہو کس کا ہوجاتا ہے وہ ایسا نکما ہوجاتا ہے جس کی نسبت فرماتے ہیں :
تابدانی ہر کر ایزداں بخواند از ہمہ کار جہاں بیکار ماند
ما اگر قلاش وگر دیوانہ ایم مست آں ساقی وآں پیمانہ ایم
( تاکہ تم جان لوکہ جس کو خدا تعالٰی نے بلالیا ۔ بعنی اپنی طرف جذب کرلیا وہ سارے جہاں کے کام سے بے کار ہوگیا ۔ لہذا ہم اگر مفلس اور دیوانے (بے عقل ) ہیں تو کچھ غم نہیں کیونکہ اس ساقی کی شراب کے اور اس کے پیمانہ کے مست ہیں ۔ تو اس دولت کے ہوتے ہوئے دولت دنیا کی اگر نہیں ہے تو کیا غم ہے 12)
باقی یہ طریق ضروری اس قدر ہے کہ بدوں اس کے اپنی ہی حقیقت معلوم نہیں ہوتی میں نے ایک شخص کے اندر مرض کبر محسوس کرکے اس کو بتلایا اس نے اتنی مدت تک اس کو پتہ نہ لگا ۔ اسی طرح ایک شخص نے مجھ کولکھا کہ میں کس چیزکا علاج کروں مجھ میں کوئی مرض ہی نہیں دیکھئے مریض ہوکر اپنی صحت پراطمینان تھا ۔

You must be logged in to post a comment.