ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ رمضان کو اگر رات کو خوب پیٹ بھرکر کھالیا تو روزہ کی حکمت ہی اس کو حاصل نہیں ہے یعنی قوۃ بہیمیہ کی شکستگی کیونکہ ضعف بدنی تو ہوا ہی نہیں لیکن تجربہ ہے کہ شب کو خوب کھالینے کے بعد بھی روزہ سے ضعف ہوتا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ خلاف عادت کھانے سے تجربہ ہے کہ پوری قوت نہیں ہوتی اور معمولی پرکھانے کی خواہش ہوتی ہے اور ملتا ہے نہیں اسی لئے بدن میں ضعف ہوتا ہے اور صوم دہرے اسی لئے ممانعت کی گئی ہے کہ ایک ہی وقت کھانے کی عادت نہ ہو جاوے حالانکہ تکثیرعبادت ہے اور افضل الصوم اسکو فرمایا ہے کہ ایک دن رکھے ۔ ایک دن نہ رکھے اس میں عادت نہ ہونے کی وجہ سے روزہ میں مجاہدہ ہوگا جو حکمت ہے صوم کی ۔
Author: حبیب اللہ
(ملفوظ 452)نیک اعمال کا اہتمام ضرور کرنا چاہئے :
ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ تو ضرور سمجھنا چاہئے کہ ہمارے اعمال ناقص ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کرے کہ نہ ہونے سے ہونا اچھا ہے جیسے مال گذاری ادا کرنا ہے اور کل روپیہ پاس نہ ہوتو جوہو وہی ادا کرو ۔ بازار میں جارہا ہے اور ہاتھ میں کچھ نہیں اس سے یہ زیادہ اچھا ہے کہ کھوٹا روپیہ سہی وہ آٹھ ہی آنہ میں چلے گا تو سہی سیربھرمٹھائی نہ آوے گی آدھ ہی سہی ۔
(ملفوظ 450) حضرت مولانا شیخ محمد صاحب تھانوی کا ارشاد
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ کبر اور خودرائی کا مرض آجکل تقریبا عام ہوگیا ہے خصوص لکھے پڑھوں میں ۔ ایک شخص نے جو قاری مشہور تھے یہ استفتاء کیا تھا کہ حضرت مولانا رشید احمد صاحب کے پیچھے میرے نماز ہوجاتی ہے یا نہیں وہ اپنے دل میں سمجھتے تھے کہ سب سے زیادہ فاضل اور عامل میں ہوں حالانکہ یہ لوگ بزرگوں کے صحبت یا فتہ اور حضرت مولانا کے مرید تھے میں تو کہا کرتا ہوں کہ اگر سلسلہ میں داخل ہوکر انکساراور فنا کی شان نہ پیدا ہوئی جو اس طریق کی پہلی سیڑھی ہے تو وہ شخص بالکل محروم ہے اس قرات پریاد آیا کہ ایک بار حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ اتفاقا رات کو کہیں سے آرہے تھے راستہ میں حضرت حبیب عجمی کا گھر آگیا وہ تہجد میں قرآن شریف پڑھ رہے تھے خیال ہوا کہ میں بھی ان کا اقتداء کرلوں گا مگر دیکھا کہ بعض حروف ان کے نزدیک صحیح نہ تھے اسی لئے ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھی حضرت حق جل شانہ کو خواب میں دیکھا عرض کیا کہ کوئی عمل ایسا ہے کہ وہ سب میں زیادتی آپ کو محبوب ہوحکم ہوالصلوۃ خلف الحبیب العجمی یعنی ان کے پیچھے نماز پڑھنا کہ وہ ہمارے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے ۔ اور یہ ضروری نہیں کہ وہ غلطی مفسد صلوۃ تھی مفوت تحسین ہوگی ۔
( ملفوظ 449 )حق العمل و لو مع انخلل ( ملقب بہ حق العمل و لو مع الخلل )
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک مولوی صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے ایک گھڑی خریدی ہے اس میں الارم ہے تہجد کے وقت اس سے آنکھ کھلتی ہے اس کا افسوس ہے کہ اب تک کوئی چیز پیدا نہیں ہوئی خارجی چیزوں کی حاجت ہے ۔ میں نے جواب لکھا کہ افسوس کی کیا بات ہے خارجی چیزوں سے کہاں تک بچو گے ضروری چیزیں زیادہ تر خارجی ہیں چنانچہ روٹی بھی خارجی ہے پانی خارجی ہے ان سے کہاں تک بچو گے ۔ یہ سب اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں انہوں نے گھڑی ایجاد کرا دی ۔ تم کو اتنی وسعت دی کہ اس کو خرید سکے اس میں الارم لگوا دیا سو اس سے استغناء کی فکر کیوں ہے تمہیں اللہ تعالی کے احسانات کا ان کی رحمت کا ان کی عطاء کا شکر ادا کرنا چاہئے اور خوش ہونا چاہئے نہ کہ افسوس !
معلوم نہیں لوگ بننا کیا چاہتے ہیں بندہ بن کر رہنا تو لوگوں کو دو بھر ہو گیا کمال کے معنی گھڑ کر اس معنی کے اعتبار سے اپنے کو کامل بنانا چاہتے ہیں ۔ مگر حضرات انبیاء علیہم السلام کو دیکھئے جو ہر طرح کامل ہیں مگر ان سے پوچھئے کہ وہ اپنی عبادتوں کو کیسا سمجھتے تھے حضور صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں لن یدخل الجنۃ احد بعملہ کہ جنت میں اپنے عمل کی وجہ سے کوئی داخل نہ ہو گا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ولا انت یا رسول اللہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا و لا انا الا ان یتغمدنی اللہ برحمتہ ۔ اگر آپ اپنے عمل کو کامل سمجھتے تو جنت میں جانے کو عمل کا ثمرہ کیوں نہ فرماتے حضرت وہاں تو فضل ہی پر مدار ہے شیخ سعدی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ۔
بندہ ہماں بہ کہ زتقصیر خویش عذر بدرگاہ خدا آورد
ورنہ سزا وار خداوندیش کس نتو اند کہ بجا آورد
جب انبیاء علیہم السلام کمال کا دعوی نہیں کرتے تو اور کس کا منہ ہے کہ وہ کامل ہونے کا یا بننے کا دعوی کرے بس عبدیت یہی ہے کہ کام میں لگے رہو اور آگے کو چلتے رہو اگر کوئی شخص چلنے کے وقت ہر قدم پر یہ دیکھے کہ رفتار سریع ہے یا بطی ( سست ) تو منزل ختم ہو چکی اور منزل مقصود پر پہنچ لیا ارے تیز ہے یا سست ۔ چلا چل منزل سے قریب ہی بڑھے گا اور ایک روز پہنچ رہے گا ۔
مجنون کی حکایت ہے ایک مرتبہ اپنی لیلی کی ملاقات کے لئے اونٹنی پر سوار ہو کر چلا جس کے ساتھ بچہ بھی تھا جو اونٹنی کے پیچھے آ رہا تھا جب تک مجنوں کے ہوش حواس درست رہتے اور مہار ہاتھ میں رہتی اونٹنی چلتی رہتی اور جب اس پر محبت کا غلبہ ہوتا تو بے ہوش ہو جاتا ۔ مہار ہاتھ سے چھوٹی جاتی اونٹنی محسوس کر لیتی کہ اب سوار غافل ہے وہ پیچھے لوٹ کر بچے کے پاس جا پہنچتی پھر مجنوں کو جب ہوش آتا دوبارہ پھر مہار سنبھال کر بیٹھتا اور لے کر چلتا پھر اسی مدہوشی کی کیفیت کا غلبہ ہوتا اونٹنی پھر اسی طرح پیچھے لوٹتی ہوش آیا تو دیکھا کہ ابھی وہیں ہوں جہاں سے چلا تھا تب مجنوں نے یہ شعر پڑھا :
ھوی ناقتی خلفی و قدامی الھوی فانی و ایاھا لمختلفان
یعنی میرا محبوب تو آگے ہے اور اس اونٹنی کا محبوب پیچھے ۔ میرا اس کا نباہ نہیں ہو سکتا اور ساتھ ہی اوپر سے کود پڑا چوٹ بھی لگی اسی لئے کے بے تکے پن سے کودا چلنے کی بھی قوت نہ رہی تو زمین پر ہی لیٹے لیٹے لڑھکنا شروع کر دیا تو مجنون نے تو لیلی کے عشق میں یہاں تک گوارا کیا اور تم
خدا کے عشق کا اور محبت کا دعوی کرتے ہو پھر انتظار کس بات کا ہے جس طرح بھی ہو اور جیسے بھی تیزی سے سستی سے چل پڑو کیا خدا کی محبت لیلی کی محبت سے بھی کم ہے خوب فرماتے ہیں :
عشق مولی کے کم از لیلے بود گوئے گشتن بہر او اولی بود
اور تم تو رجسٹری شدہ محب ہو فرماتے ہیں و الذین امنوا اشد حبا للہ ۔ یعنی جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو سب سے زیادہ اللہ کی محبت ہے اس لئے محب ہونے سے انکار بھی نہیں کر سکتے جب تمہاری محبت اور عشق نص سے ثابت ہو گیا تو عشق تو ایسی چیز ہے کہ سوائے محبوب کے کسی کو نہیں چھوڑتا پھر موانع پر نظر کیسی خوب فرمایا :
عشق آں شعلہ است کو چوں برفروخت ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
تیغ لادر قتل غیر حق بر اند مرحبا اے عشق شرکت سوز تفت
( عشق وہ شعلہ ہے کہ جب یہ بھڑکا تو محبوب کے سوا اور سب کو جلا دیتا ہے ۔غیر حق کا فنا کرنے کے لئے جب لا کی تلوار کھینچی تو پھر دیکھو آگے کیا رہ گیا ۔ ( ظاہر ہے کہ ) الا اللہ رہ گیا ۔ مبارک ہے وہ عشق جو غیر حق کی شرکت کو بالکل فنا کر دینے والا ہے )
حضرت عشق کے تو کاروبار ہی نرالے ہیں یہ چیزیں ہی ایسی ہے کہ بجز محبوب کے قاعدوں کے کوئی قاعدہ قانون ہی باقی نہیں رہتا ۔ بلکہ کوئی چیز بھی باقی نہیں رہتی سوائے محبوب کے یہ خدا سے کیسی محبت اور کیسا عشق ہے کہ جس میں ایسی باتوں پر نظر ہے جو محبوب کی راہ میں سد راہ ہیں محب کو کسی طرح بھی چین نہ آنا چاہئے اگر چین ہے تو اپنے دعوی میں جھوٹا ہے عاشق نہیں ۔ خاتم مثنوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حکایت لکھی کہ ایک عورت چلی جا رہی تھی اس نے دیکھا کہ میرے پیچھے ایک مرد آ رہا ہے اس عورت نے کہا کہ تو میرے پیچھے کیسے آ رہا ہے ۔ اس نے کہا کہ میں تم پر عاشق ہو گیا ہوں اس عورت نے کہا کہ میری بہن مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت ہے میرے پیچھے آ رہی ہے مجھ جیسی بد صورت پر کیا عاشق ہوتے ہو وہ زیادہ حسین ہے اس پر عاشق ہو یہ سن کر اس شخص نے منہ موڑ کر دیکھا اس عورت نے اس کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کیا اور کہا
گفت اے ابلہ اگر عاشقی دربیان دعوی خود صادقی پس چرابر غیر افگندی نظر ایں بود دعوی عشق اے بے ہنر
( اس عورت نے کہا کہ ارے بیوقوف اگر تو میرا عاشق صادق ہوتا تو میرے سوا دوسری پر کیوں نظر ڈالتا ۔ کیا عشق کا دعوی ایسا ہی ہوتا ہے )
اسی طرح وہ شخص کذاب ہے جو خدا کی محبت اور عشق کا دعوی کرے اور اس کے احکام اور اس کے نام لئے بغیر اس کو چین ہو اسی کو فرماتے ہیں :
اے کہ صبرت نیست از فرزند و زن صبر چوں داری زرب ذوالمنن
اے کہ صبرت نیست از دنیائے دوں صبر چوں داری زنعم الماہدوں
( تجھ کو بیوی بچوں بغیر اور کمینی دنیا کے بغیر تو صبر نہیں آتا ۔ تعجب ہے کہ حق تعالی کے بغیر کس طرح صبر آ جاتا ہے )
ارے چلو تو چلنے میں بے ڈھنگاپن ہی سہی عشق میں عرفی حدود و شرائط بھی کہاں وہ عاشق کیسا جس کو یہ خیال ہو کہ ہائے فلاں حال نہیں ہوا فلاں کمال نہیں ہوا فرماتے ہیں :
دوست دارد دوست ایں آشفتگی کوشش بے ہودہ بہ از خفتگی
( محبوب کو یہ پریشان حالی محبوب ہے ۔ تو ہماری ناکام کوشش بے کار رہے تو بہتر ہی ہے 12 )
اگر آدمی اسی میں رہے کہ میں کامل بنوں جنید بغدادی بنوں تو میں بتلائے دیتا ہوں کہ کچھ بھی نہیں بنے گا بس کام میں لگو سعی اور کوشش کرو وہ کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں فرماتے اور بدوں کام میں لگے یہ تمنائیں پکانا یہ شیطان کی راہ زنی ہے ہمارا مذہب تو یہ ہے جیسے ایک شخص کا مقولہ ہے کہ وہ دربار ایسا ہے کہ کئے جاؤ اور لئے جاؤ کیسی کام کی بات ہے ایسے ہی قافیہ وار اور مفید بات ایک مرتبہ ریل میں ایک گاؤں کا شخص کہہ رہا تھا کہ نیک رہو اور ایک رہو کتنے عالی مضمون کو دو مختصر جملوں میں بیان کر دیا ۔ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ غرض یہ شیطان کی راہ زنی ہے کہ کھاؤں گا گھی سے ورنہ جاؤں گا جی سی ۔ ایک شخص نے یہ سن کر لاصلوۃ الا بحضور القلب نماز چھوڑ دی تھی ایک صاحب یہاں پر آئے تھے کسی حاجت کے لئے مجھ سے دعا کو کہا کہ دعا کر دیجئے میں نے کہا تم بھی کرو اور میں بھی کرتا ہوں کہتے ہیں کہ جی ہماری کیا دعاء ہماری زبان ایسی کہاں ۔ میں نے کہا کہ اسی زبان سے کلمہ شریف پڑھتے ہو جب ایسی زبان نہیں تو اس سے کلمہ شریف بھی نہ پڑھو یہ شیطان نے راہ مارر رکھی ہے مثلا اسی شخص کو برکات دعا سے محروم کررکھا ہے ۔
صاحبو ! جتنا عمل بھی ہورہا ہے وہ ناقص ہی سہی کیا ہم اس کے مستحق تھے ظاہر ہے ہمارا کیا استحقاق ہوتا کیا استحقاق استحقاق لئے پھرتے ہیں یہ سب ان کا فضل اور عطاء ہے اور استحقاق تو کیا ہوتا ہم نے تو کچھ مانگا بھی نہ تھا خود فضل فرمادیا اسی کو کہتے ہیں :
ما بنودیم و تقاضا ماں نبود ٭ لطف تو ناگفتہ نامی شنود
( ہم موجود نہیں تھے اور نہ ہمارے وجود کا کوئی تقاضا تھا مگر اس وقت بھی حق تعالٰی کا لطف ہماری التجاؤں کو ہماری دوخواست کے سن رہا تھا )
بس جتنا دیا غنیمت ہے ہمارا حق ہی کیا تھا ارے کمال نہیں تو ناقص نماز کی تو توفیق دیدی دوسروں کو تو ناقص کی بھی توفیق نہیں ان سے تو پھراچھے حال میں رکھا اب رہ گیا نقص سواس کا علاج اللھم اغفرلی ہے الحمد اللہ کامل تعلیم پیش کردی گئی اور یہ طفیل اس کا ہے کہ ہم سب خادمان دین کے خادم ہیں چنانچہ اللہ تعالٰی کا شکر ہے کہ ہماری نظر فقہ اور تصوف دونوں پرہے دونوں کو ملاکر عمل اور تعلیم کرتے ہیں اسی لیے کس جگہ پریشانی نہیں دشواری نہیں ۔ جو لوگ کمال کی فکر میں پڑجاتے ہیں ان کو بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھر اس ناقص سے بھی محروم ہوجاتے ہیں اس کامل یا ناقص پرایک واقعہ یاد آیا ۔ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کے پاس کہیں سے کھانا آیا آپ نے اپنے ایک خلیفہ کے پاس بھیج دیا انہوں نے عرض کیا حضرت تحقیق بھی فرمالیا ہے حرام ومشتبہ تونہیں فرمایا کہ جا بڑا نکلا ہے حلال وحرام والا ۔ بھوکا مرجائے گا کھالیا کر جوخدا دیا کرے ۔ مطلب یہ کہ بلا وجہ اتنی تفشیش اور تحقیق کے پیچھے نہ پڑے ۔ ایک شخص تھے یہاں پر ان کی ایک شخص نے دعوت کی جب کھانے بیٹھے تب تفشیش شروع کی کہ یہ چیز کہاں سے آئی یہ برتن کیسی کمائی کے ہیں ۔ وہ بے چارا پریشان بھلا پہلے ہی کیوں نہیں تحقیق فرمالی تھی کچھ نہیں یہ بھی ایک مرض ہے جو تکبر سے ناشی ہے ایسے ہی ایک مرتبہ ایک شخص نے میری دعوت کی مجھ کو شبہ تھا حرام کا ۔ میں نے تنہائی میں لطف کے ساتھ صاف کہہ دیا کہ اس شبہ کی وجہ سے مجھ کو عذر ہے اس شخص نے کہا کہ میں نے اس کا کافی انتظار کرلیا ہے مجھ کو اس کا خود خیال تھا ۔ بس قصہ ختم ہوا اور چیزاپنے موقع پراور حد پراچھی معلوم ہوتی ہے ۔ خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ تھی کہ جن دو چیزوں کا آپ کو اختیار دیا جاتا تھا تو سہل کو اختیار فرماتے تھے تو پھردوسرے کا کیا منہ ہے کہ اعمال میں کمال مزعوم کے درپے ہو
انتھت رسالۃ حق ولو مع الخلل ۔
( ملفوظ 448 )بخل مطلقا مذموم نہیں
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بدوں تھوڑے سے بخل کے انتظام ہو ہی نہیں سکتا اور اس میں مجھ کو چاہے کوئی کچھ ہی کہے مگر حقیقت یہ ہی ہے جو میں عرض کر رہا ہوں بخل مطلقا مذموم نہیں بلکہ کوئی ملکہ بھی برا نہیں مثلا بخل ہے طمع ہے حرص ہے حتی کہ شہوت تک بھی جب تک یہ سب اپنی حد پر ہیں مذموم نہیں فرماتے ہیں :
اے بسا امساک کز انفاق بہ مال حق راجز بامر حق مدہ
( بہت سے بخل سخاوت سے بہتر ہیں ۔ اللہ کے مال کو بغیر حکم الہی خرچ مت کر ۔ 12 )
اور آج کل جس کا نام سخاوت رکھا ہے وہ کھلا اسراف ہے اور یہ لوگ سخی نہیں مسرف ہیں اور اسراف ملکہ نہیں کہ اس میں دو درجے ہوں فعل ہے یعنی معصیت میں خرچ کرنا اس کی محمودیت کا کون دعوی کر سکتا ہے اسی لئے اسراف میں تقسیم نہیں کہ اس کی دو قسمیں ہوں کہ ایک محمود ہے اور ایک مذموم جیسے بخل کی تقسیم ہو سکتی ہے ایک محمود ایک مذموم بخل کے معنی ہیں قلب کی تنگی سو تنگی کی تقسیم ہو سکتی ہے مثلا کسی نے روپیہ جمع کیا اور خرچ اس لئے نہیں کیا کہ اس سے مقصود بیوی بچوں کی راحت ہے آسائش ہے فراغت ہے اس کے محمود ہونے کا دعوی غلط نہیں ہو سکتا ۔ مگر مسرف جب معصیت میں صرف کرے گا تو اس میں کیا مصلحت اور کون سا اچھا مقصود سمجھا جا سکتا ہے نفس نے مکروفریب سے مسرف کو یہ سمجھا رکھا ہے کہ یہ استغناء ہے یہ نفس بری بلا ہے اس کا کچھ اعتبار نہیں اسی کو فرماتے ہیں
نفس اژدہا ست او کے مردہ است از غم بے آلتی افسردہ است
( نفس اژدھا ہے جو مرا نہیں ہے بے سروسامانی کی وجہ سے ٹھٹرا ہوا ہے ۔ )
ہر چیز میں دین کا رنگ ظاہر کر دیتا ہے بلکہ بخل کا جو درجہ برا ہے اسراف اس سے زیادہ برا ہے باقی محمود درجہ میں تو بڑے مصالح ہیں خصوص آج کل تو سخت ضرورت ہے کہ نفس کو بہلانے کے لئے انسان اپنے پاس کچھ ضرور رکھے اس میں بڑی مصلحتیں رہیں بہت ہی نازک وقت ہے ۔ مولوی غوث علی شاہ صاحب بڑے حکیم اور ظریف تھے ان کے سامنے کسی نے دوسرے کو دعا دی کہ ایمان کی سلامتی اور عافیت بخیر ہو ۔ مولوی صاحب نے پوچھا بھائی اس کی حقیقت بھی معلوم ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ آپ ہی فرمائیے اس پر فرمایا کہ ایمان کی سلامتی تو یہ ہے کہ پیٹ بھر کر روٹی مل جائے اور عاقبت بخیر یہ ہے کہ کھل کر پاخانہ ہو جایا کرے پس یہ ہی بڑی نعمت ہے ۔
( ملفوظ 447 )ہندوؤں اور مسلمانوں کا اتحاد کیسے ہو سکتا ہے
ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ متعصب ہندوؤں نے قریب قریب مسلمانوں کو عضو معطل کر رکھا ہے مسلمان چاہتے ہیں کہ اتحاد ہو یہ اتحاد ہے یہ تو تابع بننا ہے اتحاد اس وقت ہوتا ہے جب کہ دونوں قومیں مساوی ہوں خدا معلوم مسلمان ہندوؤں کے اس قدر گرویدہ کیوں ہوئے ہیں جن کی نظروں میں گذشتہ دور کے واقعات ہیں وہ کبھی اس قوم پر اعتماد نہیں کر سکتے مگر آج کل کے نوجوان اس قوم کی حقیقت سے بے خبر ہیں ان کی دوستی کا نتیجہ مسلمانوں کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہوا اور ہو گا مگر ان لوگوں کو کتنا ہی کوئی سمجھائے سنتا کون ہے میں سچ عرض کرتا ہوں کہ مسلمان آج کل بالکل اس کے مصداق بنے ہوئے ہیں کہ فر من المطر و وقف تحت المیزاب ( بارش کی بوندوں سے بھاگا ۔ اور پرنالہ کے نیچے کھڑا ہو گیا ) مگر کسی طرح آنکھیں نہیں کھلتیں ۔ اس کا کیا کوئی علاج کر سکتا ہے ۔
( ملفوظ 446 )دنیا میں تعویذ گنڈوں کے معتقد بہت ہیں
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آنے والوں کے لئے مصلحت یہ ہے کہ پہلے خطوط سے آنے کی اجازت حاصل کر لیا کریں ۔ خصوص جبکہ عورتیں بھی ساتھ آنا چاہیں اور اول تو میں عورتوں کے آنے کو پسند ہی نہیں کرتا اس سے آگے کو راہ کھلتا ہے اس لئے میری رائے ہے کہ ایسے موقع پر بالکل خشک جواب دیا جاوے تاکہ راہ بند ہو ۔ سہارنپور سے دو عورتیں بلا اجازت و اطلاع کے آ گئیں تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ آسیب کا خلل ہے اور بھی بعض بیماریوں کو بیان کیا ۔ میں نے کہا کہ بعض امراض کا تعلق تو طبیب سے ہے اور بعض کا عامل سے میں دونوں فن سے واقف نہیں تو آنا ہی بے کار ہو گیا اور میں اصل میں یہ چاہتا ہوں کہ تعویذ گنڈوں کی وجہ سے میرے پاس سفر کر کے کوئی نہ آوے اس سے مجھے سخت انقباض ہوتا ہے اگر یہ دروازہ کھلے تو عوام کا ہجوم ہو جاوے کیونکہ تعویذ گنڈوں کے معتقد دنیا میں بکثرت ہیں اور مجھ کو اس سے سخت انقباض ہوتا ہے ۔
میں نے ان عورتوں سے کئی بار یہ بھی دریافت کرایا کہ اس کے علاوہ اور کچھ کہنا ہے کہا کہ نہیں تو اس سفر کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور یہ سب بے اصول کام کرنے کے کرشمے ہیں روپیہ صرف کیا وقت صرف کیا سفر کی صعوبت اور پریشانی اٹھائی اور دوسرے کو پریشان کیا کیا اچھا ہوتا کہ چھ پیسے صرف کر کے ایک جوابی کارڈ کے ذریعہ معلوم کر لیتیں تو راحت ہی راحت تھی ۔
( ملفوظ 444 )کام کی کثرت سے نہ گھبرانا :
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ کام کی کثرت سے بحمد اللہ میں کبھی نہیں گھبراتا ۔ ہاں آنے والے جو دق کرتے ہیں اور بے تکا برتاؤ کرتے ہیں اس سے گھبراتا ہوں باقی کام تو روزانہ ہی کثرت سے رہتا ہے آپ لوگ دیکھتے ہی ہیں خود ڈاک ہی کا یک مستقل کام ہے مگر خدا کے فضل سے روز کے روز پورا ہو جاتا ہے جس کی ایک وجہ مختصر جواب دینا بھی ہے پہلے میں بہت مبسوط جواب لکھتا تھا چنانچہ ایک مرتبہ جب میں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر تھا ایک استفتاء جواب لکھنے کے لئے مجھ کو دیا گیا میں نے اس کا جواب لکھا اور نہایت طویل لکھا اور مولانا کے سامنے تصدیق کے لئے پیش کیا مولانا نے اس پر دستخط تو فرما دیئے مگر یہ ارشاد فرمایا کہ معلوم ہوتا کہ تم کو بہت فرصت ہے مگر جب کاغذوں کا انبار تمہارے سامنے ہو گا اس وقت دیکھیں گے کہ ایسے طویل جواب پھر بھی لکھو گے اب حضرت کا یہ مقولہ یاد آ جاتا ہے ۔
( ملفوظ 445 )اصلاح کا طریق زندہ ہونا
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اصلاح کا طریق بالکل مردہ ہو چکا تھا اب
اللہ کا شکر ہے کہ اس میں دوبارہ روح پھونکی گئی ہے جس کو ناواقفی کی وجہ سے تشدد کہا جاتا ہے لیکن اس وقت طبائع میں کجی بڑھ جانے سے اسی طرز کی حاجت تھی اسی کی نسبت میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اس چودھویں صدی میں ایسے ہی لٹھ پیر کی ضرورت تھی ۔ جیسا میں ہوں لوگ تو یہ چاہتے ہیں کہ مردے زندہ ہو جائیں اور نہ نفخ صور ہو نہ قیامت قائم ہو نہ میدان محشر ہو نہ میزان عدل ہو یعنی مقصود حاصل ہو جاوے اور کوئی بات ناگواری کی نہ ہو سو سنت اللہ میں یہ کیسے ممکن ہے اگر حسب خواہش نفس کے پیر ساری عمر طالب کی دلجوئی و خوشامد ہی کرتا رہے تو اصلاح کیسے ہو سکتی ہے ۔ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مقولہ امیر شاہ خان صاحب سے سنا ہے کہ جس کا پیر ٹرا نہ ہو اس مرید کی اصلاح نہ ہو گی عجیب شان تھی ۔ ان حضرات کی حضرت مولانا ہی کا دوسرا واقعہ اسی اصلاح کے متعلق امیر شاہ خاں صاحب ہی بیان کرتے تھے کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ دہلی تھے خاں صاحب اور مولانا احمد حسن صاحب امروہوی ہمراہ تھے شب کو دونوں صاحبوں چارپائی مولانا سے ادب کے سبب ذرا دور کو بچھائیں خاں صاحب نے مولانا احمد حسن صاحب سے کہا کہ یہاں جو ایک برج والی مسجد ہے اس میں صبح کی نماز چل کر پڑھیں گے سنا ہے کہ وہاں کا امام بہت اچھا قرآن شریف پڑھتے ہیں مولوی صاحب نے کہا کہ ارے جاہل پٹھان ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے وہ تو ہمارے مولانا کی تکفیر کرتا ہے مولانا نے سن لیا پکار کر فرمایا کہ احمد حسن تو اوروں کو جاہل بتاتا ہے اور خود جاہل ہے کیا قاسم کی تکفیر سے وہ امامت کے قابل نہیں رہا ۔ میں تو اس سے اس کی دینداری کا معتقد ہو گیا اس نے میری کوئی بات دین کے خلاف سنی ہو گی جس کی وجہ سے میری تکفیر لازم تھی اگر روایت غلط پہنچی تو راوی کی خطا ہے اب میں خود اس کے پیچھے نماز پڑھوں گا مولانا نے صبح کی نماز اس کے پیچھے پڑھی ۔ اور ان دونوں کو ساتھ جانا پڑا تو دیکھئے مولانا احمد حسن صاحب کتنے محبوب تھے ۔ مگر اصلاح کے لئے ڈانٹ ان پر بھی پڑی ۔
28 شوال المکرم 1359 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم دو شنبہ
( ملفوظ 443 ) حضرت حاجی صاحب کی تمنا کا اثر
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میرے کوئی اولاد نہیں ہوئی میں اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں ورنہ مجھ کو تو بڑی الجھن ہوتی اس لئے کہ بچوں کی تربیت بڑی مشکل چیز ہے اور اگر ہو جاتی کیونکہ سب اللہ تعالی کے قبضہ میں ہے تو وہ اسے بھی اپنی رحمت سے آسان فرما دیتے ۔
ایک مرتبہ بڑے گھر میں خالہ نے جو ان کی حقیقی خالہ تھیں حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اس باب میں عرض کیا تھا کہ اس کے لئے اولاد کی دعا فرما دیجئے ، حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ تمہاری خالہ نے تمہارے لئے اولاد کی دعا کرنے کو مجھ سے کہا تھا خیر بھائی دعا سے کیا عذر ہے مگر جی تو یہ چاہتا ہے کہ جو میری حالت ہے وہی تمہاری حالت رہے یعنی اولاد نہ تو یہ حضرت کی تمنا کا بھی اثر ہے ۔

You must be logged in to post a comment.