( ملفوظ 442 )ادھوری بات پر عتاب

ایک گاؤں کے آدمی نے تعویذ مانگا اور یہ نہیں کہا کس چیز کے لئے تعویذ کی ضرورت ہے اور بھی چند درخوستیں کیں وہ بھی ایسی ہی مبہم ۔ اس پر حضرت والا نے مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ میں ہی تمہارے رگ و ریشہ سے واقف ہوں خوب نبض پہچانتا ہوں ادھوری بات کہی جس کو کوئی سمجھ ہی نہ سکے چاہتے یہ ہیں کہ دوسرا آدمی ہمارا تابع رہے اور ہم کسی کے تابع نہ ہوں ۔
عرض کیا کہ قصور ہوا معاف کر دو فرمایا کہ معافی کو میں پھانسی تھوڑا ہی دے رہا ہوں مگر کیا غلطی پر متنبہ بھی نہ کروں اسی میں گیہوں اسی میں جو یہ بھی کوئی کھیتی سمجھ لی ہے کہ تعویذ بھی دیدو دعا بھی کر دو خیر اس کا بھی مضائقہ نہیں تھا مگر ساتھ ہی بندہ خدا دوسروں کے بکھیڑے بھی اسی طرح باندھ کر لایا ہے جیسے یہاں سے ایک پلے میں نمک اور ایک میں مرچ ایک میں ہلدی ایک میں تمباکو باندھ کر لے جائے گا یہ گاؤں والے ہوتے ہیں بڑے ہوشیار خبردار جو کبھی دوسروں کے بکھیڑے بھی لے کر آیا آج تعویذ نہیں ملے گا کل کو آ کر پوری بات کہنا اور اگر عقل نہ ہو تو یہاں کسی سے پوچھ لینا کہ پوری بات کس طرح ہوتی ہے پھر کبھی گڑبڑ کرے ۔

( ملفوظ 441 )مقلد ہونا آسان غیر مقلد ہونا مشکل

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ غیر مقلد ہونا تو بہت آسان ہے البتہ مقلد ہونا مشکل ہے کیونکہ مقلدی میں تو یہ ہے کہ جو جی میں آیا کر لیا جسے چاہا بدعت کہہ دیا جسے چاہا سنت کہہ دیا کوئی معیار ہی نہیں مگر مقلد ایسا نہیں کر سکتا اس کو قدم قدم پر دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے بعضے آزاد غیر مقلدوں کی ایسی مثال ہے کہ جیسے سانڈ ہوتے ہیں اس کھیت میں منہ مارا نہ کوئی کھونٹا ہے نہ تھان ہے تو ان کا کیا ۔ اس کو تو کوئی کر لے غرض ایسے لوگوں میں خود رائی کا بڑا مرض ہے ۔

( ملفوظ 440 )ایک بزرگ کا یا فتاح سے مضمون کا شروع کرنا :

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ پہلے بزرگ کسی مضمون کے شروع کرنے سے قبل یا فتاح لکھتے تھے ۔ پہلے بزرگوں کی رسمیں بھی صالح ہوتی تھیں مگر اب تو نیچریت کا غلبہ ہوتا جاتا ہے ۔

( ملفوظ 438 )ذہانت کیفیات کو ضعیف کر دیتی ہیں

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اکثر جس قدر کوئی شخص بھولا ہو گا اس پر کیفیات کا غلبہ زیادہ ہو گا اکثر یہ ذہانت و ذکاوت کیفیات کو ضعیف کر دیتی ہے اور راز اس میں یہ ہے کہ کیفیات کے لئے یکسوئی شرط عادی ہے اور ذہین آدمی کی ہر وقت یہ حالت رہتی ہے الم تر انھم فی کل واد یھیمون ( اے مخاطب کیا تم کو معلوم نہیں کہ وہ لوگ ہر میدان میں حیران پھرا کرتے ہیں ) البتہ یہ کیفیات لذیذ ہیں مگر ان کا درجہ ایسا ہے جیسے چٹنی کہ مزیدار ہے مگر تغذیہ کے لئے کافی نہیں ۔
27 شوال المکرم 1350 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم یکشنبہ

( ملفوظ 439 )اصلاح معاشرت کا بحران :

ایک نووارد صاحب نے جن کو اجازت دینے کے ساتھ یہ لکھ دیا گیا تھا کہ آتے ہی خط دکھلا دیں پھر بھی خط نہ دکھلایا حضرت والا نے ان سے مواخذہ فرمایا ان صاحب نے ایک صاحب کے واسطے سے معافی چاہی حضرت والا نے فرمایا کہ معافی تو اسی وقت ہو جاتی ہے مگر اس کا جو اثر ہوتا ہے وہ تو رہتا ہے اور اس کا ازالہ سلیقہ ہی سے ہو سکتا ہے ۔ خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ مکاتبت مخاطبت کی اجازت نہیں پھر سلیقہ کس طرح حاصل ہو سکتا ہے فرمایا کہ یہ تو مخاطبت مکاتبت پر موقوف نہیں ہر وقت کے اٹھنے بیٹھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کون بات پسند ہے کون ناپسند ۔
مگر آج کل اصلاح معاشرت کو دین کی فہرست ہی سے خارج کر رکھا ہے اس کی فکر ہی نہیں کہ ہماری اس حرکت سے دوسرے پر کیا اثر ہو گا ۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ یہ صاحب کم سنتے ہیں فرمایا کہ اگر ان میں اہتمام ہوتا تو اس کی بھی اطلاع کرتے کہ میں کم سنتا ہوں میں ان کو مشورہ دیتا کہ تم قریب بیٹھا کرو تا کہ میری باتیں سن سکو ۔ مگر جب اس قدر لاپرواہی ہے تو ایک شخص ہی کہاں تک ان جزئیات کا احاطہ کر سکتا ہے ۔

( ملفوظ 437 )اہل بدعت کے لچرز استدلالات

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اہل بدعت کے استدلالات بھی نہایت ہی لچر ہوتے ہیں قبر پر چادر ڈالنے کے متعلق اس سے بعض علماء نے استدلال کیا تھا کہ جنازہ پر بھی تو چادر پڑتی ہے وہاں پر بھی مردہ یہاں پر بھی مردہ اگر قبر پر کپڑا پڑ گیا تو اس میں بدعت کیا ہے اسی طرح ایک شخص نے کہا تھا کہ پھولوں کے سہرے میں بدعت کی کون سی بات ہے کسی نے سیدھا کر کے سونگھ لیا ۔ اور کسی نے الٹا کر کے سونگھ لیا ۔

( ملفوظ 436 ) مخالفین کی بد دینی اوہام پرستی اور بد دیانتی

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ کانپور الہ آباد لکھنؤ میں مخالفین نے میرے متعلق یہ مشہور کر دیا کہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حجرہ کا پاخانہ بنوا دیا ہے ۔ میں نے سن کر کہا کہ یہ تو صغری ہے اور کبری کیا ہے اور اس کی کیا دلیل ہے کیا اگر کوئی ایسا کرے تو حرام ہے قرآن میں حدیث میں یا حنفی ، شافعی ، حنبلی ، مالکی کے فقہ میں کسی کا یہ قول ہے کہ حجرہ کا پاخانہ بنانا جائز نہ ہے ان لوگوں کے عقائد محض اوہام پرستی پر مبنی ہیں حالانکہ واقع میں یہ روایت ہی غلط اور محض بہتان ہے دین تو لوگوں میں رہا ہی نہ تھا مگر دیانت بھی نہیں رہی البتہ اس کا عکس ضرور ہوا ہے کہ پائخانہ کا ایک حجرہ بنا دیا ۔

( ملفوظ 435 )ہمارے حضرت حاجی صاحب فن طریقت کے امام تھے

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اپنے بزرگوں کی دعا کی برکت سے صحیح اصول دل میں پیدا فرما دیئے باقی آگے اور کچھ آتا جاتا نہیں کتابیں پڑھیں وہ بھی بے تکی سبق میں کبھی حاضر ہوا کبھی نہیں مگر اللہ کا فضل ہے کہ باوجود ان سب کوتاہیوں کے اساتذہ ایسے مل گئے کہ ان حضرات کی تحقیقات مغز ہیں ۔
حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ جیسے استاد ملے جو میزان کل تھے کتابوں کے اور علوم کے اور اس کے بعد حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جیسے استاد ملے جو اس فن کے امام تھے مجتہد تھے مجدد تھے سب ان ہی کا صدقہ ہے جو ہم بیٹھ کر باتیں بگھارتے ہیں گو حضرت درسیات پڑھے ہوئے نہ تھے مگر علم جس چیز کا نام ہے وہ حضرت کو عطا ہوا تھا ۔ چنانچہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میں حضرت حاجی صاحب کا علم کے سبب معتقد ہوں کسی نے اس کی حقیقت پوچھی تو مولانا نے فرمایا کہ ایک تو ہے ابصار ( نگاہ ) اور ایک ہے مبصرات ( دیکھی ہوئی چیزیں ) فرض کرو ایک شخص اپنے وطن ہی میں مقیم ہے اس نے سیاحت نہیں کی مگر نگاہ بہت تیز ہے جس چیز کو دیکھتا ہے صحیح دیکھتا ہے ۔ سو اس شخص کے مبصرات کم ہیں مگر ابصار زیادہ ہے ۔ ایسے ہی حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو علم زیادہ ہے گو معلومات کم ہیں جس چیز کو بھی سمجھے ہوئے ہیں اس کی حقیقت تک پہنچے ہوئے ہیں اور درسیات پڑھنے والے اسی شخص کے مشابہ ہیں جس نے ساحت تو زیادہ کی مگر نگاہ ضعیف ہے اس کے مبصرات زیادہ ہیں اور ابصار کم پھر فرمایا کہ میں مولانا کا یہ مقولہ اس وجہ سے سناتا ہوں کہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے علم کے متعلق اتنے بڑے شخص کی شہادت ہے یہی تو وہ علوم ہیں جس کی نسبت فرماتے ہیں
بینی اندر خود علوم انبیاء بے کتاب و بے معید و اوستا
( تم اپنے اندر حضرات انبیاء علیہم السلام کے علوم بغیر کسی کتاب اور مددگار اور استاد کے پاؤ گے )
حضرت مولانا یہ بھی فرماتے تھے کہ ہمارے ذہن میں تو مقدمات پہلے آتے ہیں اور مقاصد بعد میں اسی لئے وہ مقدمات کے تابع ہوتے ہیں اگر کہیں مقدمات غلط ہو گئے تو مقاصد بھی غلط ہو جاتے ہیں اور حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے یا دوسرے عارفین کے ذہن میں مقاصد پہلے آتے ہیں اور مقدمات کی غلطی کا اثر مقاصد میں نہیں پہنچتا ۔ بلکہ بعض حقیقت شناسوں نے تو مولانا محمد قاسم صاحب کے علوم کو حضرت حاجی صاحب کے علوم کا ظل بتایا جاتا ہے چنانچہ حضرت حاجی صاحب خود فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالی اپنے مقبول بندوں کو ایک لسان عطاء فرماتے ہیں ۔ حضرت شمس تبریز کو حضرت مولانا رومی عطاء فرمائے گئے تھے جو ان کی لسان تھے اور مجھ کو مولانا محمد قاسم صاحب عطاء فرما گئے ہیں جو میری لسان ہیں حاصل یہ تھا کہ میرے ہی علوم کی ترجمانی فرماتے ہیں ۔

( ملفوظ 434 ) رسمی پیروں کا مقصود جاہ و مال طلبی :

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ یہ آج کل رسمی پیر جن کا مقصود جاہ طلبی اور مال طلبی کے سوا کچھ نہیں باوجود بیحد مداہنت کے یہ بھی مصیبت ہی میں رہتے ہیں ایک پیر صاحب یہاں پر آئے تھے کہ میں قرضدار ہوں کہیں کسی کو کچھ لکھ دو وجہ قرض کی یہ بیان کی کہ مرید کھا گئے اور دیا کچھ نہیں یہ انجام ہے لنگرخانہ کا میں تو کہا کرتا ہوں کہ آدمی لنگر دینے کی وجہ سے لنگڑ دین ہو جاتا ہے اور قرض بھی چاہتے تھے تین چار ہزار کی رقم میں نے پوچھا ادا کہاں سے کرو گے ۔ کہتے ہیں کہ مریدوں سے وصول کر کے دے دوں گا بے چارے پھر بھی مریدوں کے معتقد تھے ان کے نہ دینے پر بھی اعتقاد نہیں ٹوٹا خلوص ہو تو ایسا ہو چاہے فلوس نہ ہو ۔

( ملفوظ 433 )شیخ کی اقسام :

ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ شیخ کی دو قسمیں ہیں ایک مبطل ( باطل پر عمل کرنے والا ) ایک محق ( حق پر عمل کرنے والا ) پھر محق کی دو قسمیں ہیں
ایک محقق ، ایک غیر محقق شیخ کے لئے محق کے ساتھ محقق ہونے کی بھی ضرورت ہے ۔