(ملفوظ ۱۰۴) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ حدیث میں آیا ہے کہ’’ قل ھواللہ‘‘ تہائی قرآن شریف کی برابر ہے اس سے عام طور سے یہ سمجھا گیا ہے کہ اگر تین بار پڑھ لے تو پورے قرآن شریف پڑھنے کا ثواب ملے گا مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کیونکہ اس ثلث میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ مطلق ثلث مراد ہو اور ایک یہ ثلث متعین مراد ہو مثلاََ وہ آیات جن میں توحید کا بیان ہے اس مجموعہ کو ثلث قرآن اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ قرآن شریف میں امہات مسائل تین ہیں ایک توحید ایک رسالت ایک معاذ اس اعتبار سے توحید کا حصہ ثلث قرآن ہوا تو حدیث میں اگر کسی دلیل سے مطلق ثلث مراد ہوتا تو وہ لازم صحیح تھا کہ تین بار پڑھنے سے تین ثلث کا ثواب مل گیا اور تین ثلث کا مجموعہ پورا قرآن ہوا مگر اس کی کوئی دلیل نہیں بلکہ احتمال ہے کہ خاص وہ ثلث متعین مراد ہو جو مشتمل ہے توحید پر سو اس بناء پر اگر تین بار پڑھا تو صرف یہ لازم نہیں آیا کہ گویا پورا قرآن پڑھ لیا جیسے کسی نے ایک پارہ تیس مرتبہ پڑھ لیا تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے سارا قرآن شریف پڑھ لیا۔
Author: حبیب اللہ
(ملفوظ 103)حکایت حضرت مولانا شاہ محمد یعقوبؒ صاحب دھلوی کی امور دینیہ میں دقیق النظری
(ملفوظ ۱۰۳) اسی سلسلہ میں فرمایا کہ یہ بزرگ یعنی مولانا محمد یعقوب صاحبؒ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحبؒ کے نواسے تھے امور دینیہ میں اس قدر دقیق النظر تھے کہ سفارش کو پسند نہ فرماتے تھے کیونکہ سفارش کرنا جوکہ ایک مسلمان کو راحت پہنچانا ہے یہ تو مستحب ہے اور جس سے سفارش کی گئی ہے اگر قرینہ سے معلوم ہو کہ اس کو گرانی اور تکلیف ہوگی تو تکلیف سے بچانا واجب ہے سو مستحب کے لئے واجب کو ترک نہیں کیا جا سکتا دیکھئے کیسی دقیق نظر تھی۔
(ملفوظ 102)حکایت حضرت مولانا شاہ محمد یعقوبؒ صاحب دھلوی
(ملفوظ ۱۰۲) اسی سلسلہ میں فرمایا کہ بعضے بزرگ بھولے معلوم ہوتے ہیں مگر واقع میں نہایت دانشمند ہوتے ہیں اور بھولے کسی حالت کے غلبہ سے معلوم ہوتے ہیں چنانچہ حضرت مولونا شاہ محمد یعقوب صاحبؒ دھلوی جو مکہ معظمہ میں مقیم تھے ان کا واقعہ ہے کہ ان کے پاس ایک تھیلی تھی جس میں روپیہ گنے پیسے سب ایک ہی جگہ رکھتے تھے اور جب بازار جاتے تو اگر ایک پیسہ کا بھی سودا لینا ہوتا تب بھی پوری تھیلی لے جاتے اور سودا خرید کر پوری تھیلی کو دکان پر لوٹ کر دکاندار کو پیسہ دیتے اور بقیہ اس میں اٹھا کر بھر لیتے۔ ایک روز بازار سے تھیلی ہاتھ میں لیئے واپس مکان کو جارہے تھے جب مکان کے قریب ایک گلی میں داخل ہوئے ایک بدوی راستہ سے ساتھ ہولیا تھا وہ تھیلی ہاتھ سے چھینی اور چلدیا آپ نے پیچھے مڑکر بھی نہ دیکھا کیا ہوا سیدھے مکان پر پہنچ کر اور مکان کا دروازہ بند کرکے اندر سے کنڈی لگالی اب وہ بدوی تھیلی لئے چلا مگر جب اس ہی گلی سے نکلنے کا ارادہ کرتا تب ہی لوٹ کر پھر اسی گلی میں آجاتا گویا راستہ بند ہوگیا سمجھ گیا یہ وبال کسی بات کا ہے اور پریشان ہوکر تھیلی لوٹانے کے لئے واپس شیخ کے مکان پر آیا اور آواز دی یاشیخ یاشیخ اپنی تھیلی لےلو شیخ کوئی جواب ہی نہیں دیتے یہ پھر دوبارہ لےکر چلا پھر وہی صورت کہ راستہ بند پھر لوٹا اور شیخ کے مکان پر پہنچ کر پکارا مگر جواب ندارد آخر اس نے ایک ترکیب کی کہ غل(شور) مچانا شروع کیا کہ دوڑو شیخ نے مجھ پر بڑٓا ظلم کیا ہے سارا محلہ جمع ہوگیا پوچھا کیا معاملہ ہے کہا کہ اس مکان میں جو شخص ہے اس نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے انہیں سامنے لاؤ تو بیان کروں لوگ ان کے بزرگی کے معتقد تھے اس کو ڈانٹا کہ کیا بکتا ہے وہ تو بڑے بزرگ ہیں کہا کہ ذرا کواڑ تو کھلواؤ میں ابھی بزرگی ظاھر کئے دیتا ہوں اہل محلہ نے بزرگ سے خوشامد کر کے کواڑ کھلوائے اور بدوی سے دریافت کیا کہ بتلاؤ انہوں نے کیا ظلم کیا ہے کہا کہ میں نے ان کے ہاتھ سے روپوں کی تھیلی لے کر بھاگا اب یہ مجھ کو جانے نہیں دیتے جب جانے کا ارادہ کرتا ہوں راستہ بند نظر آتا ہے اور تھیلی بھی نہیں لیتے یہ ان بزرگ کا ظلم تھا غرض کہ یہ نہ جانے دیتے ہیں اور نہ اپنی تھیلی واپس لیتے ہیں یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے لوگوں نے ان بزرگ سے عرض کیا کہ آپ اپنی تھیلی لے لیں فرمایا کہ یہ تھیلی اب میری نہیں رہی اسی کی ہوگئی وجہ یہ کہ جس وقت یہ میرے ہاتھ سے لے کر بھاگا تھا اسی وقت مجھ کو یہ خیال ہوا کہ ایک مسلمان میرے سبب گہنگار ہوا اور دوزخ میں جائے گا اس لئے مین نے اسی وقت وہ تھیلی اس کو ہبہ کردی اللہ اکبر ان حضرات کا بڑا ظرف ہوتا ہے یہ بھی گوار نہ ہوا کہ ایک مسلمان ایک لمحہ اور ایک منٹ کے لئے بھی خدا کا گہنگار رہے اور کُل مال کا چلا جانا اور دے دینا گوارا کر لیا اور یہ ہبہ اصطلاحی تو نہ تھا کیونکہ اس مین دوسرے کا قبول شرط ہے مگر اپنی نیت سے اس کو بری الذمہ کردینے کو مجازاََ ہبہ فرمادیا پھرفرمایا کہ یہ حکایت بیان کرنے میں تو بہت سہل ہے مگر کوئی کر بھی سکتا ہے؟ بس وہی کر سکتا ہے کہ جس کے دل میں کوئی اور چیز ہو اس چیز کے ہوتے ہوئے دو عالم بھی اس کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتے حضرت غوث اعظمؒ کی خدمت میں شاہ سنجر نے لکھا کہ مین چاہتا ہوں کہ ملک سنجر کا کچھ حصہ خانقاہ کے نام کردوں تاکہ اہل خانقاہ کو اور آپ کو کوئی تاکلیف نہ رہے آپ نے اس کے جواب میں یہ لکھ کر بھیجا۔
چوں چتر سنجری تجتم سیاہ باد
دردل اگربودہوس ملک سنجرم
زانگہ کہ یاقتم خبراز ملک نیم شب
من ملک نیمروزبیک جونمی خرم
(اگر میرے دل میں سنجرکی ہوس ہو تو جس طرح سنجرکا چتر سیاہ ہے۔ میرا نصیب بھی سیاہ ہو۔اور جس وقت سے ملک نیم شب(یعنی عبادت نیم شب) کی مجھے خبر ہوئی ہے۔ میں تو ملک نیم روز کو ایک جؤ کے بدلہ میں بھی نہ خریدوں گا۔)
پھرفرمایا کہ حضرت شاہ صاحب کی اس عادت کا منشاء ظاہراََ تو بھولا پن ہے مگر واقع میں دوسری وجہ ہے یعنی متاع دنیا سے استغناء اور قلب کا عدم تعلق ورنہ ان کی ذکاوت مشہور ہے
(ملفوظ 101)بعض بزرگ بھولے ہوتے ہیں
(ملفوظ ۱۰۱) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض بزرگ بولے ہوتے ہیں مگر انبیاء علیہم السلام میں سے کوئی نبی بھولے نہیں ہوئے سب کے سب کامل العقل ہوتے ہیں اگر وہ حضرات بھولے ہوتے تو بڑے بڑے کفار ان کے سامنے پانی نہ بھرتے۔
(ملفوظ 100)حضرت حکیم الامت کی شریعت طبیعت ثانیہ بن گئی
(ملفوظ ۱۰۰) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک بہت بڑے عالم نے جن کا اب انتقال ہوگیا دیوبند میں خود مجھ سے یہ فرمایا کہ جب جلسہ میں بیان ہو اس میں انگریزوں کی اطاعت اور فرمابرداری’’اولی الامرمنکم‘‘ سے ثابت کی جائے مگر میں نے اس آیت سے اس کا بنان نہیں کیا اور اس کے بعد وہی عالم ان نئی تحریکات میں بڑے زور شور سے شریک ہیں نہیں معلوم آیت کی پہلی تفسیر صحیح تھی یا بعد کی تفسیر عجب ہڑبونگ ہے نہ کوئی حدود ہیں نہ اصول محض بےڈھنگا پن ہے جو جی میں آیا کر لیا جو منہ میں آیا کہدیا پھر مجھ کو ایسی باتوں میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے میں ان لوگوں کی نبضیں پہچانتا ہوں اسی وجہ سے یہ لوگ مجھ سے خفا ہیں خیر ہوا کریں میں احکام شرعیہ کے خلاف ایک انچ اِدھر اُدھر جانا نہیں چاہتا۔ اور جاؤں بھی کس طرح جب بحمداللہ شریعت میری طبیعت ثانیہ بن گئی ہو اور یہ محض حق تعالی کا فضل ہے اور بزرگوں کی دعاء کی برکت ہے یہ میں نے فخراََ بیان نہیں کیا بلکہ بطور تحدث بالنعمتہ کے بیان کیا۔
(ملفوظ 99)اسلام میں توحید کی بیحد حفاظت
(ملفوظ ۹۹) ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ قبر پر مردہ کو دفن کرنے کے بعد سرہانے پائنتی(پاؤں کی طرف) کھڑے ہوکر اور قبر پر انگلی رکھ کر سورۃ بقرہ کا اول اور آخر پڑھتے ہیں اس کے متعلق کیا حکم ہے فرمایا کہ یہ پڑھنا تو ثابت ہے مگر انگلی رکھ کر پڑھنا ثابت نہیں پھر عرض کیا کہ اس کے پڑھنے کے بعد قبر پر کل حاضرین ہاتھ اٹھا کر مردہ کے لئے ایصال ثواب اور مغفرت کرتے ہیں فرمایا ویسے ہی دعا کردینا اور ثواب پہنچا دینا چاہئے ہاتھ نہیں اٹھانا چاہئے۔ قبر کی طرف منہ کرکےاور ہاتھ اٹھا کردعاء کرنے کو فقہاء نے منع کیا ہے اس میں صاحب قبر سے استفادہ کا شبہ ہوتا ہے ہاں قبر کی طرف پشت کر کے دعاء مانگنا جائز ہے اسلام میں توحید کی بےحدحفاظت کی گئی ہے مگر لوگ خیال نہیں کرتے گڑبڑ کرتے ہیں ان ہی باتوں سے بدعات پیدا ہوگئی ہیں۔
(ملفوظ 98)آج کل دنیا بدفہموں سے پر ہے
(ملفوظ ۹۸) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل دنیا بدفہموں سے پر ہے یہ ایک عام اعتراض پیدا ہوگیا ہے کہ مل کر کام کرنا چاہئے اور چونکہ مولوی الگ رہتے ہیں اور کام کرنے والوں کے ساتھ شریک نہیں ہوتے اس وجہ سے ترقی نہیں ہوتی اعتراض کردینا تو آسان بات ہے مگر مشکل یہ ہے کہ شرکت کا کوئی معیار نہیں بتایا جاتا بدون معیار بتائے ہوئے علی الطلاق اپنا تابع بنانا چاہتے ہو سو یہ تو واقعہ ہے مولوی تمہارے تابع نہ بنیں گے اب رہا یہ کہ پھر مل کر کام کرنے کا طریقہ کیا ہے سو وہ میں عرض کرتا ہوں کہ وہ مل کر کام کرنے کی صورت یہ ہے کہ جو چیز تم کو معلوم نہیں یعنی احکام ان کو تم ہم سے پوچھ کر کرو اور جو ہم کو معلوم نہیں یعنی ملک کے واقعات وہ ہم تم سے پوچھ کر اس پر احکام بتلائیں یہ ہے شرکت کی صورت باقی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ علوم شرعیہ اور احکام شرعیہ میں بھی آپ ہی کی رائے مانی جائے ظاہر ہے جیسا ہم قانون کے سمجھنے میں غلطی کرسکتے ہیں ایسے ہی آپ علوم شرعیہ میں غلطی کریں گے اس کا فیصلہ آپ ہی کر لیں کہ جس نے اپنی ساری عمر دین کی خدمت میں صرف کر دی ہو وہ زیادہ سمجھے گا یا وہ شخص جس نے کبھی عمر بھر دین کی طرف رخ بھی نہ کیا ہو عجیب بات ہے کہ مقدمات تو سب صحیح اور نتیجہ غلط اور جن علماء نے تمہارے ساتھ تمہارے تابع ہوکر کام کیا انہوں نے ہی کونسا انعام پایا۔بلکہ اپنی آخرت خراب وبرباد کیا
(ملفوظ 97)اہل اللہ کا قلب صاف ہوتا ہے
(ملفوظ ۹۷) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بؑض لوگوں کو یہ مرض ہوتا ہے کہ دوسروں کو ترغیب دیتے ہیں کہ فلاں بزرگ سے بیعت و تلقین کا تعلق پیدا کرلو مجھ کو اس سے بےحد نفرت ہے اس میں شبہ ہوتا ہے کہ شاید ان بزرگ نے اس کام کے لئے آدمی چھوڑ رکھے ہیں کہ بہکا بہکا کر لاؤاس لئے مجھ کو تو اس سے بڑی ہی غیرت آتی ہے اور علاوہ غیرت طبعی کے عقلاّّ بھی مضر ہے اور اس سے زیادہ کیا مضرت ہوگی کہ طالب کو مطلوب اور مطلوب کو طالب بنایا جاتا ہے ایک ایسے ہی نادان معتقد نے اس سے بڑھ کر کیا کہ مجنون کو یہاں بھیج دیا اور یقین دلایا کہ وہاں کے تعویذ سے اچھے ہوجاؤگےاس نے آکر مجھ سے تعویذ مانگا چونکہ میں جنون کا تعویذ نہیں جانتا میں نے انکار کردیا وہ خفا ہوکر چالا گیا اور قصبہ ہی میں ایک دکان پر بیٹھ کر کہا میں اوزار لایا ہوں قتل کروں گا مجھ کو تعویذ نہیں دیا یہ مضرتیں ہیں بیہودہ باتوں مین دین کا بھی ضرر اور دنیا کا بھی ضرر کسی غرض کے لئے کسی سے کسی کا نام لینا یہ بہت ہی برا طریقہ ہے۔ ایک خیر خواہ صاحب کو اس کا بہت شوق ہے وہ شب وروز اس ہی فکر میں رہتے ہیں کہ ساری دنیا کا تعلق یہاں ہوجائے نیت تو بری نہیں مگر طریقہ کار برا ہے میں نے ان سے کہا کہ جس مقصود کے لئے آپ ایسا کرتے ہیں اس کا ایک بہت اچھا طریقہ ہے وہ یہ کہ میں پانچ چھ نام بتلائے دیتا ہوں طالب کو بجائے کسی ایک معین کے متعدد نام بتلائے جائیں پھر اس کا جس طرف رجحان ہو یہ طریق زیادہ بہتر اور نافع ہے اس میں کوئی مفسدہ بھی نہیں۔ چونکہ وہ اہل فہم ہیں انہوں نے بھی سن کر پسند کیا اور انتخاب و ترجیح کا طریقہ بھی بتلادیا جائے وہ یہ کہ سب کے پاس اپنے حالاتکے خطوط لکھو جس کا جواب شافی ہو اس سے تعلق پیدا کرلو سو اس طرح کے مشورہ میں کوئی حرج نہیں تم خود تعین مت کرو اس سے غیرت آتی ہے نیزبوجہ مفاسد کے یہ بناءالفاسد علی الفاسد ہے یہ تعلق ہی بنارہے آئندہ کے تمام معملات کی اگر یہی ٹھیک نہ ہوئی تو پھر وہ مثل ہوجاوے گی کہ
خشت اول چوں نہد معمارکج
تاثریامی رود دیوار کج
کچی یا ٹیڑھی بنیاد رکھنا نہایت برا ہے ہمیشہ خرابی ہی رہے گی اور میں نے جو نئےآدمی کے لئے یہ قید تجویز کی ہے کہ چند روز یہاں پر آکر قیام کرو اور اس زمانہ قیام میں نہ مکاتبت کرو نہ مخاطبت اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ وہ انے والے مجھ کو دیکھ لیں اور میں ان کو اس بعد اگر مناسبت ہو طرفین میں تو پھر تعلق کی درخواست کا مضائقہ نہیں سو اس تجویز سے لوگوں کو بےحد نفع ہوا۔ اسی طرح ایک اور رسم ہے کہ سفارش لاتے ہیں یہ بھی برا ہے اسکا حاصل تو یہ ہے کہ دوسرے کو مقید کرنا اور کسی بڑے اثر سے مجبور کرنا سو یہ بہت وجوہ سے برا ہونے کے علاوہ ادب کے بھی خلاف ہے اس طریق میں ایسا واسطہ ٹھیک ہی نہیں بلاواسطہ ہی تعلق ٹھیک ہی کیونکہ ہر شخص سے جدا معاملہ ہوتا ہے اس لئے کہ ہر شخص کی جدا حالت ہوتی ہے تو سفارش میں آزادی نہیں رہتی لیکن اس سے ہر واسطہ کا مضر ہونا نہ سمجھا جائے بعض جگہ واسطہ رحمت ہوتا ہے اور عدم واسطہ خطرناک ہوتا ہے جیسے علوم کہ وحی کے واسطہ سے رحمت محضہ ہیں اور بدون اس واسطہ کے خطرناک و محتمل ابتلاء۔چنانچہ جو علم انبیاء کو بلاواسطہ ہوتا ہے اس میں اندیشہ ابتلاء کا ہوتا ہے اور وہ خطرناک ہوتا ہے اور جو بواسطہ وحی ہوتا ہے اس میں فقط رحمت ہوتی ہے کوئی اندیشہ اور خطرہ نہیں ہوتا یہ تو وحی کے واسطہ کی خاصیت ہے لیکن اگر محض استدلال عقلی کا واسطہ ہو اور اس کی صحت کی شہادت شرع سے نہ ہو وہ واسطہ محض لاشےوناقابل اعتبار ہے مولانا اسی واسطہ کے متعلق فرماتے ہیں۔
علم کان نبود زحق بےواسطہ
درنپاید ہمچورنگ مساشطہ
خلاصہ یہ کہ نہ واسطہ کا وجود فی نفسہ مقصود ہے نہ واسطہ کا عدم جہاں واسطہ کا وجود نافع ہو وہاں واسطہ مقصود ہے اور جہاں واسطہ کا عدم نافع ہو وہاں واسطہ کا عدم مقصود ہے تو حکم کا مدار نفع وضرر ہے نہ کہ خود واسطہ کا وجود یا عدم۔ البتہ اگر الہام متائد بالشرع ہو اس تائید کے سبب وہ بھی رحمت ہے کیونکہ اہل اللہ کا قلب صاف ہوتا ہے اس پر واردات ہوتے ہیں یعنی ان کے قلب میں جو الہامات ہوتے ہیں وہ حق تعالی کے خطاب خاص ہیں جاننے والے کہتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بول رہا ہے یا بیٹھا ہوا بتلارہا ہے مگر شرط اس میں وہی ہے کہ قواعد شرعیہ کے خلاف نہ ہو ورنہ اس الہام رحمانی اور القاء ربانی نہ کہیں گے بلکہ اس کو حدیث النفس یا وسوسہ شیطانی سے تعبیر کریں گے بعض کا الہام تو یہاں تک بڑھ جاتاہے کہ ہر وقت الہام ہوتا ہے کہ یہ کرو یہ نہ کرو یہ مت کھاؤ یہ مت پیئو اس سے ہدیہ لو اس سے نہ لو اس کو بیعت کرو اور اس کو مت کرو اب اس کے مقتضا پر اگر وہ کسی کی درخواست قبول کرنے سے انکار کرتا ہے تو اس پر اعتاضات ہوتے ہیں کہ فلاں کو قبول کرلیا فلاں کو قبول نہیں کیا فلاں سے ہدیہ لے لیا فلاں سے نہیں لیا مگر اس پر جواب میں بھی کہنا پڑے گا۔
درنیا حال پختہ ہیچ خام
پس سخن کوتاہ باید والسلام
(ملفوظ 96)بد تمیزوں کی دلشوئی
(ملفوظ ۹۶) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جب تک دل ملا ہوا نہیں ہوتا خدمت لیتے ہوئے شرم معلوم ہوتی ہے غیرت آتی ہے دل پر بوجھ معلوم ہوتا ہے طبیعت مکدر ہوتی ہے مگر عام طور پر لوگ خدمت کو ادب سمجھتے ہیں گو اس سے اذیت ہی ہو. ادب کہتے ہیں راحت پہنچانے کو نہ کہ خدمت کرنے کو یا پچھلے پیروں ہٹنے کو خوب سمجھ لو۔ بعضے ایسے کوڑ مغزوں اور بد فہموں سے واسطہ پڑتا ہے کہ جب آئیں گے ستاتے ہوئے اور میں جو ان باتوں کو ظاہر کر دیتا ہوں اسی وجہ سے بدنام ہوں دوسری جگہوں میں ایسے بدتمیزوں کی چاپلوسی اور دلجوئی کی جاتی ہے اور میرے یہاں بحمداللہ بجائے دلجوئی کے دلشوئی ہوتی ہے
(ملفوظ 95)بہائم اور انسان میں فرق صرف فکر کا ہے
(ملفوظ ۹۵)ایک شخص کی غلطی پر تنبیہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ زیادہ تر جو تکلیف ہوتی ہے وہ بے عقلی سے نہیں ہوتی بلکہ بے فکری سے ہوتی ہے اگر فکر سے آدمی کام لے تو موٹی موٹی باتوں میں غلطی نہیں ہو سکتی اور عقلوں میں تفاوت ضرور ہوتا ہے مگر اس قدر نہیں کہ فکر سے کام لینے کی حالت میں اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے مگر جب فکر ہی سے کام نہ لیں تو پھر بہائم اور انسان میں فرق کیا رہ گیا کیونکہ جانور میں فکر نہیں ہے یعنی دوسری جانب کا احتمال اس کے ذہن میں حاضر نہیں ہوتا سو آدمی کو چاہئے کہ جو کام کرنا چاہے پہلے سوچ لے کہ نہ معلوم اس کا کوئی پہلو مصلحت کے خلاف ہو۔ اس شخص نے عرض کیا کہ میں معافی چاہتا ہوں فرمایا کہ معاف ہے خدانخواستہ کوئی انتقام تھوڑا ہی لے رہا ہوں مگر کیا منتبہ بھی نہ کروں بدون تنبیہ کے یہ کیسے معلوم ہوگا کہ ایسی حرکت کرنا غلطی ہے عرض کیا کہ میرے مقدر میں اسی طرح تھا فرمایا کہ یہ اور نامعقول عذر ہے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ بولنے کا بھی مرض ہے محض بے ہودہ ہو آپ کہتے ہیں کہ مقدر میں بھی تھا اس کے معنی تو یہ ہیں کہ خدا ہی کی تجویز ایسی ہے میں مجبور ہوں اپنے تبریہ(جان چھڑانا) کے لئے مقدر کو پیش کرنا کس قدر نالائق اور بےہودہ حرکت ہے اب تک تو میں نے نہیں کہا تھا مگر اب کہتا ہوں کہ تم کو مجھ سے مناسبت نہیں کہیں اور جاؤ

You must be logged in to post a comment.