( ملفوظ 62 ) مصلح محقق کی تعلیم اور تر بیت میں شہادت کرنا یا دخل دینا سخت غلطی ہے

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مصلح محقق کی تعلیم اور تر بیت میں شہادت کرنا یا دخل دینا سخت غمطی ہے جیسے طیب حازق کی تجویز اور علاج میں دخل دینا حماقت ہے بعض امور وجدانی اور ذوقی ہوتے ہیں جس کو معالج ہی سمجھ سکتا ہے دوسرا نہیں سمجھتا –

ایک بزرگ کے پاس ایک شخص آئے شیخ کو قرائن اور فراست سے معلوم ہواکہ اس شخص کے قلب میں حب مال ہے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ مال ہے عوض کیا کہ سودینار ہیں فرمایا ان کو پھینک کر آؤ وہ چل دیئے بلا یا پوچھا کیا کروگے عرض کیا کسی کو دے دوںگا فرمایا نہیں اس سے تو نفس میں حظ (مزہ) ہوگا کہ ہم نے دوسرے کو نفع پہنچایا دریا میں ڈال آؤ وہ چلدیئے پھر بلایا پوچھا کس طرح ڈالوگے عرض کیا ایک دم پھینک آؤں گا فرمایا نہیں ایک دینار روزانہ ڈالو مطلب شیخ کا یہ تھا کہ روزانہ نفس پر آرہ چلے. بعض اہل ظاہر نے مجھ سے اس پر شبہ اور اعتراض کیا کہ یہ تواضاعت ہے مال کی میں نے کہا کہ اضاعت اسے کہتے ہیں کہ جہاں کوئی نفع نہ ہو اور یہاں نفع ہے وہی جو شیخ نے تجویز کیا –

میں بحمداللہ اسکا جو جواب دیا کسی کے کلام میں نہیں دیکھا حضرت یہ لوگ بھی مجتہد ہیں حکیم ہیں – ان کو حق تعالی ایک نور عطا فرماتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نظر میں حقیتقت  آجاتی ہے اسی سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ زمانہ تحریک خلافت میں مجھ پر قسم قسم کے الزامات لگائے گے۔ اور بعض عنایت فرماؤں نے دھمکی کے خطوط بھی لکھے کہ یا تو شریک ہوجاؤ ورنہ عنقریب تہمارے چراغ زنگی کو گل کردیا جائے گا غرض ایک ہڑبونگ مچاہوا تھا اس لئے کہ ایسے لوگوں کے نہ قلب میں دین تھا نہ خدا کا خوف نہ کوئی قاعدہ اور جو جی آیا کرلیا جو منہ میں آیا بک دیا میں اس زمانہ میں حسب معمول جنگل جایا کرتا تھا اب بھی چلا جاتا ہوں ایک دن ایک بوڑھا ہندو راجپوت جنگل میں ملا اس نے کہا کہ میاں کچھ خبر بھی ہے کہ کیا ہو رہا ہے یعنی تمہارے متعلق کیا کیا تجویزیں ہیں میں کہا کہ مجھ کو اس چیز کی بھی خبر ہے جس کی تمہیں خبر ہے اور ایک اور چیز کی بھی خبر ہے جس کی تمہیں خبر نہیں وہ یہ کہ بدون خدا کے حکم کے کوئی کچھ نہیں کرسکتا تو وہ ہندہ کہتا ہے کہ بس میاں تمہیں کچھ جوکھم یعنی خطرہ نہیں جہاں چاہو پھرو اسی طرح ان محققین کو سب چیزوں کی خبر ہے یعنی اس کی بھی جس کی معترض کو خبر ہے یعنی اشکال اور اس کی بھی جس کی معترض کو خبر نہیں یعنی اس اصلاح مذکورہ کی۔

اس نظیر میں ایک حکایت یاد آگئی بڑے کام کی چیز ہے اگر کوئی اس سے منتفع ہو – اگرچہ اس حکایت میں اصلاح کی نیت نہ تھی محض انتقام تھا لکین عبرت کے لئے تھوڑا سا اشتراک بھی کافی ہوتا ہے ایک ولایتی سرحدی پھٹان ریل میں سفر کررہا تھا جب گاڑی ٹونڈلہ میں ٹھہری اس پٹھان نے پلیٹ فارم پر کلی کی جس کی چھینٹیں ایک مغرور کافر کے پیروں پر پڑ گئیں جو پلیٹ فارم پر کھڑا تھا اس کو غصہ آیا اور غصہ میں کہا کہ سور ۔ بس جناب اتنا کہنا تھا کہ ولایتی نے گاڑی سے اتر کر اور اس کا کان پکڑ کر اور ریل کے ہر ڈبہ میں اس کا منہ دے کر کہا کہ کہو میں سور وہ مغرور ہر ڈبہ میں منہ دے کر کہتا تھا کہ میں سور ۔ اس سے اسکی عمر بھر کے لئے اصلاح ہو گئی کہ پھر تو کسی کو سور نہ کہا ہو گا تو بعض دفعہ اصلاح اسی طرح ہوتی ہے۔

پھر ولایتی مناسبت سے فرمایا کہ بعضے سرحدی لوگ بڑے ہی سخت ہوتے ہیں ان کی دوستی کا بھی اعتبار نہیں ۔ قاری عبد الرحمن صاحب پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک سرحدی طالب علم پڑھا کرتا تھا ایک دفعہ جو وطن سے آیا تو قاری صاحب کے لئے ایک نئی دری لایا انہوں نے اس کو طالب علم اور غریب سمجھ کر لینے سے عذر کر دیا ۔ چلا گیا دوسرے روز پھر لایا تیسرے روز پھر لایا قاری صاحب نے یہ سمجھ کر کہ اصرار کر رہا ہے دل آزاری نہ ہو لے لی اس پر وہ طالب علم کہتا ہے کہ الحمد اللہ کہ آج دو جانیں بچ گئیں آج ہم چھرا لایا تھا کہ اگر آج تم نہ لیتا تو ہم ایک تمہارے اور ایک اپنے مار لیتا اور لینے سے دو جانیں بچ گئیں ۔

( ملفوظ 61 ) اذیت نہ پہچانے کا قصد ہونا چاہیے

ایک صاحب کی غلطی پر مو خذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے جو برتاؤ کیا ہے آپ کی شکایت نہیں کیونکہ میں جس جماعت میں سے ہو یعنی ملُا لوگ اس کو تمام دنیا حقیر سمجھتی ہے کہ حتیٰ کہ بھنگی اور چمار بھی اس لئے آپکا قصور نہیں زمانہ کا رنگ اور رفتار ہی یہی ہے، جس لائق میں تھا آپ نے برتاؤ کیا اگر دل میں وقعت ہوتی تو ایسا نہ کرتے۔ مثال تو ساری سامنے رکھ دی وہ بھی ایسی جس کے سر نہ پیر اگر آپ سے سمجھنے کے لئے اس کے متلعق کچھ دریافت کرتا ہو ں تو جواب ہی ندارد آخر کب تک تغیر نہ ہو تشریف لیجایئے اور اپ کو اس کی اجازت دیتا ہو کہ یہاں سے مجھ کو خوب بدنام کیجئے عرض کیا معاف کردیجئے گا، فرمایا معاف کیا مگر جو تکیف تم نے پہنچائی ہے اس کا اظہار بھی نہ کروں اور کیا معافی سے اس کا اثر بھی جاتا رہتا ہے کسی کے سوئی چبھودی اور وہ چلانا شروع کرے اور معافی چاہے پر معاف کردے تو کیا معافی کے الفاظ سے اس کی سوزش بھی ختم ہوجائےگی اور حضرت حاجت تو وہ چیز ہے کہ بھنگی کے پاس بھی اگر حاجت لے جائے اسکو بھی ذلیل نہ سمجھنا چاہئے جناب کو تو بدمزاجی میں بدنام کیا جاتا ہے مگر جیسی نرم مزاجی اور خوش مزاجی آپ چاہئتے ہیں مجھ سے نہیں ہوسکتی یہ تو اچھی خاصی غلامی ہے سو نرم مزاجی اور چیز ہے اور غلامی اور چیز ہے اب یہ صاحب جا کر کہیں گے کہ ذرا سی بات تھی اس قدر خفا ہوا جی ہاں سوئی بھی ذراسی چبھوئی جاتی ہے اگر اس کے چبھونے پر کوئی کہے کہ آہ تو اس پر کہا جاتا ہے کہ اینٹ تھوڑا ہی ماری ہے جو آہ کرتے ہو خبر بھی ہے کہ اینٹ اندر نہیں گھسی تھی اور سوئی کھال کے اندر گھسی ہے –

ایک صاحب نے عرض کیا کہ قصد تو غالبا اذیت پہچانے کا نہ ہوگا فرمایا کہ میں اس کی تکذیب نہیں کرتا نہ حالا نہ قالا میں خود کہا کرتا ہوں کہ اذیت پہچانے کا قصد تو نہیں ہوتا مگر اس کا بھی قصد اور اہتمام نہیں کہ دوسرے کو اذیت نہ پہچے شکایت تو اس کی ہے –
7 ذیقودہ 1350 ھ مجلس بعد نماز یوم چہارم شنبہ

( ملفوظ 60 )آداب معاشرت کی تعلیم

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ یہاں پر لوگوں آتے ہیں تعویز وغیرہ مانگتے ہیں مگر باستثناء قلیل کوئی پوری بات نہیں کہتا اس پر میں منتبہ کردیتا ہوں تو بد مزاجی میں بدنام کرتے ہیں تو کیا ہم لوگ مٹی پتھر ہیں لوگ کبھی کسی تھا نہ دار یا تحصیلدار کے سامنے ایسا کرسکتے ہیں وہاں دیہاتی پن جاتا رہتا ہے بد تہزیبی سے بات کرنا حقیقت میں سناتا ہے یہ سلسلہ گفتگو جاری ہی تھا کہ دیہاتی شخص آیا آگر بیٹھ گیا خود کچھ نہیں کہا حضرت والا نے دریافت فرمایا کہ کہاں سے آئے ہو عرض کیا فلاں جگہ سے آیا ہو ں فرمایا اگر ئی کام ہوتو کہہ لو اس پر وہ شخص رہا اور حضرت والا کے چند بار دریافت فرمانے پر بہت آہستہ سے عرض کیا کہ ایک تعویز کی ضرورت ہے فرمایا کہ موذی اس قدر پریشان کرکے اب کہتا ہے کیا پہلے سے زبان سہل گئی تھی جب اچھی طرح ستالیا اور وہ بھی میری میرے کئی مرتبہ کے پو چھنے کے بعد کہ مجھ دے کیا کام لینا ہے تب بوکا وہ بھی ایسے طرز سے جیسے کوئی نواب بولتا ہے اب اس کا جواب یہ ہے میں تعویز گنڈے نہیں جانتا یہ کسی عامل کا کام ہے میں تو نماز روزہ کے مسائل جانتا ہوں چل یہاں سے دور ہو یہودہ – کام اپنا غرض اپنی اور نخری دوسروں پر جیسے کوئی ان کے باپ کا نوکر ہے کہ جیسا چاہا برتاؤ کیا اور پھر بولے بھی نواب صاحب نے ادھوری بات کہی یعنی پھر نہیں بتلایا کہ کس بات کا تعویز میں آخر کہاں تک ان لوگوں کے اقوال افعال کی بیٹھا ہوا تاویل کیا کروں انھوں نے تو قسم کھالی ہے کہ کبھی سیدھی بات اور پوری بات بات نہ کہیں گے یہ ہیں وہ باتیں جن پر مجھ کو بدنام کیا جاتا ہے کبھی ریل کے ٹکٹ گھر جاکر بھی پیسے رکھ کر کھڑے ہوگئے ہوں اور اتنا ہی ہوں ٹکٹ دیدیا بابو کے پوچھنے جا انتظار کیا ہو یار بازار سودالینے گئے ہوں اور دکان پر چار آنے پیسے رکھ کر کھڑے ہوگئے ہوں اور سودے کا نام نہ لیا اور بابو یا دوکاندار کی شکایت پر کہہ دیا ہو کہ ہم میں قابلیت نہیں وہاں قابلیت کہاں سے آجاتی ہے –

( ملفوظ 59 ) امراء کا تکبر

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک صاحب ایک نوجوان شوخ مزاج انگریزی تعلیم یافتہ نواب کا ایک قصہ سنا تے تھے کہ ایک انگریز ( جو اردو بالکل نہ بولتا تھا ) اور نواب صاحب ایک جہاز میں سفر کررہے تھے نواب صاحب یہ سمجھے ہوئے تھے کہ یہ اردو نہیں سمجھتا اور ایسے امراء میں تہزیب بھی کم ہوتی یے اور اس کا اصل منشاء تکبر ہوتا ہے کہ کسی کو کچہ سمجھتے ہی نہیں انہوں نے تمسخر سے اس انگریز کا نام رکھا تھا اور الو کا پٹہ –
اب اس کو بناتے تھے اور کہتے کہ آیئے کے پھٹے وہ الو کے پھٹۓ کے نام پر متغیر نہ ہوتا تھا تمام راستہ جہاز میں اس ہی لقب سے اس کو پکار تے رہے اورآپس میں یار دوستوںمیں ہنستے رہے اس صاحب کو اس کے متغیر نہ ہونے سے پورا یقین ہوچکا تھا کہ یہ اردو کچھ نہیں جانتا جب جہاز مبمئی آکر ٹھر اور اترنے کی تیار ہوئی وہ وہ انگریز نواب صاحب کے سامنے کھڑا ہوکر اور دنہایت ادب سے کہتا ہے کہ الو کا پٹھا آاب بجا لاتا ہے اب معلوم ہواکہ یہ تو اردو سمجھتا ہے بس گڑ ہی تو گئے کا ٹو تو خون نہیں یہ حالت تھے کہ زمین پھٹ جائے اور ہم سما جیئں یہ اعلی طقبہ میں شمار ہونے والے بیدار مغز مشہور ہیں ان کی تہزیب کی یہ کیفیت ہے فرمایا کہ بیداری کے بھی درجے ہیں کبھی بد خوابی کے درجہ تک پہنچ کر دماخ بھی خراب ہوجاتا ہے اب یہ خرابی دماغ ہی کی تو باتیں ہیں – ایک تھانہ دار صاحب کا خط آیا تھا کہ اس میں پوچھاتھا کہ کافر سے سود لینا کیوں حرام ہے میں نے لکھا کہ کافر عورت سے زنا کرنا کیوں حرام ہے اس پر لکھا کہ علماء کو ایسا خشک نہ ہونا چایئے مگر چونکہ جواب کے لئے ٹکٹ وغیرہ نہ آیا تھا جواب نہ لکھ سکا اگر ٹکٹ ہوتا تو یہ لکھتا کہ جہلا ء کو بھی اس قدر ترنہ ہونا چایئے کہ تری میں ڈوب ہی جایئں –

(ملفوظ 58)اہل یورپ روحیانیت میں بالکل تھوس ہیں

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ روحانیت میں اہل یورپ بالکل ٹھوس ہیں ہاں حسیات میں ان کا دماغ خوب کام کرتا ہے اور علوم کے لئے تو اللہ تعالی نے مسلمانوں ہی کا دماغ بنایا کے لئے اور کسی جے پاس دماغ ہی نہیں دوسروں کے علوم سطحیات ہیں جن میں عمق نہیں مگر پھر بھی ہر طبقے میں کچھ لوگ ذہین بھی ہوتے ہیں کمی بیشی کا فرق الگ رہا میں نے ایک انگریز کا لکھا ہوا فیلصہ دیکھا ہے شیعہ سنیوں کا مقدمہ تبرک کے متلعق عدالت میں پیش ہوا تھا شیعوں کا وکیل کہتا ہے کہ ہمارے یہاں تبرا کرنا عبادت ہے پھر جرم نہیں ہوسکتا – انگریز لکھتا ہے کہ ہم کو اس سے بحث نہیں اگر یہ عبادت ہے تو اس کی جزا ممکن ہے کہ آخرت میں ملے مگر دنیا میں فلاں دفعہ تعزیرات ہند کی بھگتنا ہی پڑے گا اس لئے میںاتنے دنوں کی سزا کرتا ہوں –
7 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم چھہارم شنبہ

( ملفوظ 57 )اہل دین میں بہت عقل ہوتی ہے

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ کوئی شخص کسی دیندار کو کہتا ہے کہ اس میں عقل نہیں بہت ہی ناگوار ہوتا ہے کیونکہ یہ خیال غلط ہے دین کی وجہ سے عقل نہیں جاتی بلکہ اس زمانہ میں دین کی طرف اکثر متوجہ وہی ہوتے ہیں جن میں عقل کم ہوتی ہے وہ دنیا کا کوئی کام نہیں کرسکتے کہتے ہیں آؤ دین ہی کی طرف چلو اور عقل رکھتے ہیں وہ اس کو دنیا میں صرف کرتے ہیں یہ وجہ ہوگئی اس غلط فہمی کی، ورنہ حضرات انبیاء علیہم السام ہی کو دیکھ لیجئے کہ ان حضرات میں کس درجہ عقل تھی کہ ان کے سامنے ارسطو اور افلا طون سب کی عقلیں گرد تھیں کیا دین اور عقل جمع نہیں ہوسکتیں – اور انبیا ء علیہم السام تو بڑی چیز ہیں ان کے خادموں اور غلاموں کی عقلوں کے سامنے بڑے بڑے فلاسفر اور رفارمر سر کے بل آ پڑے ہیں اور اس زمانے میں بھی اہل دین ایسے ایسے موجود ہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا عاقل ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا – اور یہ حقیقی عاقل ایسے ہیں کہ جتنی عقل ان میں بڑھتی جاتی ہے وہ دین کا طرف زیادہ متوجہ ہوتے جاتے ہیں اور حقیقت میں دین کا خاصہ یہی ہے کہ اس کے احتیار کرنے سے عقل اور بڑھتی ہے وجہ یہ ہے کہ دین کے اختبار کرنے سے نور پیدا ہوتا ہے اور اس نور سے عقل کو ضیاء ہوتی ہے اور جس طرح دین سے عقل بڑھتی ہے اسی طرح عقل سے دین بڑھتا ہے کیونکہ عقل کا فعل یہ ہے کہ ضرر اور نفع کو پہچانے پھر ضرر اور نفع کی دوقسمیں ہیں ایک آخرت کا اور ایک دنیا کا ، اور ایک کا فانی اور دوسرے کا باقی ہونا ظاہر ہے تو عقلِ صیحح کا فعل یہ ہوگا کہ آخرت کے ضرر اور نفع کو دنیا کے نفع کے اور ضرر غالب رکھے تو عقل سے دین کا بڑھنا ثابت ہوگیا پھر اس تلازم کے بعد دینداروں کو کم عقل کون کہ سکتا ہے مگر عقلِ حقیقی میں گفتگو ہے باقی جو آج کل متعارف ہے اس عقل کی نسبت مولانا رومی فرماتے ہیں –

آذ مودم عقل اندیش را بعد ازیں دیوانہ سازم خویش را

( میں نے عقل اور دور اندیش کو آزمایا لیا اس کے بعد دیوانہ ( حق ) بنا ہوں )

ایک غلطی اور ہوجاتی ہے کہ عقل اور تجربہ کو ایک سمجھتے ہیں اس لئے دینداروں کو کم عقل سمجھتے ہیں حالا نکہ عقلی باتیں اور ہیں تجربہ کی باتیں اور ہیں سو جن چیزوں کا تعلق تجربہ سے ہے اس میں یہ حضرات اکثر ناواقف ہوتے ہیں مثلا گیہوں کس زمانے میں بویا جاتا ہے اور زمین اس کی کس وقت تیار کی جاتی ہے اس کا عقل سے کیا تعلق – ایک بنئے نے ریل میں مجھ سے پوچھا کہ آج کل آپ کے یہاں گیہوں کا کیا بھاؤ ہے میں نے کہا کہ نجھ کو ملعوم نہیں ا س کو بڑا تعجب ہوا وجہ یہ کہ ان کے یہاں تو اس کے سوا اور فکر اور کوئی کام ہی نہیں ان کے یہاں عقل کی ایک بات بھی نہیں شب و روز کل کی فکر ہے اسی کو فرماتے ہیں –

خوردن برائے زیستن وذکر کردن است تو معتقد کہ ذیستن از بہر خودن است

( کھانا اس لئے ہے کہ زندگی باقی اور اللہ کا ذکر کرتے رہیں مگر تمہارا اور اعتقاد یہ کہ زندگی اسی لئے کہ کھاؤ )
تو واقعات میں تو خود معترضین ہی عقل کی کمی کا شکار ہیں۔ دیکھئے چمار تجربہ رکھتا ہے چمڑے کے متعلق اور شناخت کرتا ہے اگر وائے سرائے کو چمڑا دکھا یا جا ئے اور اس کے متلعق کچھ پوچھئے وہ انکار کرے کہ مجھ کو اس کی حقیقت معلوم نہیں تو اس میں عقل کی کیا بات ہے بس ایک چیز کا تجربہ نہیں – ہیاں ایک شخص ہے وہ مدرسہ میں بہشتی زیور پڑھتا تھا حیض کا بیان جو آیا اس سے بعض لوگوں نے مزاحا کہا کہ تجھ کو بھی حیض ہوتا ہے کہا کہ کوئی نہیں کہ یہ تو بھت برا مرض ہے جلدی خبر لے اور حکیم صاحب سے جاکر کہو کہ مجھ کو یہ شکایت ہے وہ بھاگا ہوا گیا اور جاکر حکیم محمد ہاشم صاحب سے شکاہت کی کہ حکیم صاحب مجھ کو حیض نہیں ہوتا – حکیم صاحب بھی ہنس پڑے – اب جن لوگوں نے یہ مذاق بنایا تھا وہ اس کو اس کی حماقت کے دلائل میں ذکر کرتے ہیں مگر یہ کوئی حماقت کی بات نہیں وہ حیض کا لعنت اور اس کے معنی اور محل وقوع نہیں جانتا تھا یہ چیزیں اسکو معلوم نہ تھیں تو کسی واقعہ کا معلوم نہ ہونا حماقت نہیں –

(ملفوظ 56 )اچھا کپڑا ، اچھا جوتا پہننے میں تکبر نہیں

ایک صاحب نے عرض کیا کہ میں حضرت اچھا کپڑا پہننے کو جی چاہتا ہے اچھا جوتا پہننے کو جی چاہے کیا یہ تکبر ہے فرمایا تکبر نہیں ، متکبر وہ ہے حق کو رد کرکے لوگوں کو حقیر سمجھے – حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے اسی قسم کا عرض سوال کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا جواب دیا کہ کبھی تنگی نہیں فرمائی مگر لوگ خود تنگیوں میں پڑگے. الحمد اللہ یہاں تو قران وحدیث کے موافق تعلیم ہوتی ہے اس لئے بحمد اللہ کوئی تنگی نہیں اب اگر کوئی سہل کو تنگ کرے یا تنگ سمجھے تو اس کا کوئی علاج نہیں – یہاں تو جس طریق کی تعلیم ہے وہ بہت ہی سہل ہے لیکن نوالہ میں بھی منہ تو چلانا پڑے گا حلق سے نگلنا پڑے گا۔

( ملفوظ 55 ) دو متضاد چیز رنج اور احترام جمع فرمانا

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک صاحب فلاں مدرسہ کے مبروں میں سے ہیں انہوں نے مجھ کا ایک یہودی تحریر لکھی تھی باوجود اس کے کہ ان کو تعلق اور محبت کا دعویٰ ہے چونکہ یہ تحریر اس کے بعد ان کے قول اور فعل میں تعارض ہے اس سے ناگواری ہوتی ہے یہاں پر وہ دوسرے متعدد ممبر آئے تھے میں نے صاف کہ دیا کہ مجھ کو شکایت تھی اور ہے اور رہے گی میں منقبض تھا اور ہوں رہوں گا جب تک اس تحریر کا تدارک نہ ہوگا باقی مہمان ہونے کی حیثیت ہونے سے ان کا احترام بھی پورا کیاگیا تو میرے قلب میں دونوں چیزیں جمع تھیں شکایت اور رنج بھی اور اکرام واحترام بھی –
بحمداللہ تعالی میرے یہاں ہر چیز اپنی حد پر رہتی ہے ان یہ شبہ کہ دو چیزیں متضاد کیسے جمع ہوسکتی ہیں کیونکہ اول مستلزم ہے ان کے اعتقاد نقص کو اور ثانی استھنار عضمت کو تو میں جواب میں اس پر ایک مثال بیان کیا کرتا ہوں ایک بزرگ نے یہ مثال بیان فرمائی ہے عجیب مثال ہے کہ کسی جرم پر بھنگی کو شاہی حکم ہوا کہ شہزادہ کے بید لگاؤ تو عین بید لگانے کے وقت کیا بھنگی یہ خیال کرسکتا ہے کہ میں شہزادے سے افضل ہوں ہر گز نہیں کرسکتا – تو دیکھئے دونوں باتیں ایک وقت میں جمع ہوگیئں اس کا نقص اور جرم بھی اور اس کی عظمت اور اپنے سے افضل ہونا بھی – یقینا وہ بھنگی یہی سمجھے گا کہ بھنگی بھنگی ہی ہے شہزادہ شہزادہ ہی اسی طرح مصلح میں بھی دونوں باتیں جمع ہوسکتی ہیں اصلاح و احتساب بھہ – تو ضع اور فنا بھی تو تعجب کرنا کہ دونوں کس طرح جمع ہوں غلطی اور غیر محقق تو ایسے جمع کے مطالبہ پر گھبرائے اور یہ کہے گا –
درمیان قعر در یا بندم کرؤہ باز میگوئی کہ دامن تر مکن ہوشیار باش
( دریا کی تہہ میں باندھ کر ڈال دیا – اور کہا جاتا ہے کہ دیکھو دامن بھی تر نہ ہو )
البتہ محقق چونکہ جامع ہوتا ہے وہ کہے گا کہ تختہ بند بھی ہو اور دریا میں بھی رہے پھر بھی دامن تر ہونے سے بچ سکتا ہے اور راز اس میں یہ ہے کہ وہ تختہ بندی محض صورۃ ہوتی ہے دوسرے کو ایسا تو ہم ہو تا ہے ورنہ واقع میں ہاتہ پاؤں کھلے ہوتے ہیں یعنی قدرت ہوتی ہے تو جن چیزوں کو جمع کیا گیا ہے ان میں محض ظاہرا اتضاد ہے حقیقی تضاد نہیں اور یہی محمل ہے اس قول لا کہ محقق وہ شخص ہے جق جامع بین الا ضداد ہو غرض واقع میں وہ چیزیں اضداد نہیں مگر عوام کی نظر میں اضداس نظر آتی ہیں اس ہی مومعنی میں میں نے یہ کہا تھا کہ میرے اندر دو چیزیں جمع تھیں شکایت اور رنج بھی اور احترام بھی شکایت اور رنج یہودگی پر تھا اور احترام مہمان ہونے کی حیثیت سے تھا البتہ ان حقائق کے سمجھنے میں فہم صیحح کی ضرورت ہے –

(ملفوظ 54) حضرت حکیم الامت کی کسر نفسی

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اگر کوئی میرا معتقد ہو جاتا ہے تو میں سچ عرض کرتا
ہوں کہ اس پر مجھ کو تعجب ہوتا ہے کہ مجھ میں تو کوئی چیز نہیں جس کی وجہ سے یہ میرا
معتقد ہوا اور اگر معتقد نہ ہو تو اس پر کوئی تعجب نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو میری حالت کا
مقتضا ہی ہے ۔

( ملفوظ 53 )بغیر اپنے قصد کے دوسرا اصلاح نہیں کر سکتا

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جب تک طالب خود نہ چاہے امراض کا اعلاج نہیں ہو سکتا اور نہ اخلاق کی اصلاح ہو سکتی ہے دہکھۓ خود جناب رسول مقبول صل اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ ابو طالب ایمان لائیں مگر چونکہ ابو طالب نے خود نہیں چاہا کچھ بھی نہ ہوا اب کسی ہادی اور مصلح کو دعوی ہو سکتا ہے کہ اس کے چاہنے سے اصلاح ہو جاتی ہے نیز ارادا کے اعلاوہ درستی اخلاق کیلۓ طلب صادق اور خلوص کی بھی ضرورت ہے ورنہ قدم قدم پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا اعلاج وہی طلب و خلوص ہے بدوں اس کے وہ مشقتوں کو برداشت ہی نہیں کر سکتا اور ایسی حالت میں اس راہ میں قدم رکھنا عبث ہے اب اگر کوئ شخص ڈاکٹر کے پاس آپریشن کیلۓ جاۓ مگر یہ کہے جہاں تک آپریشن کی ضرورت ہے وہاں تک نشتر نہ جانے پاۓ اب بتایۓ مادہ فاسد کس طرح نکلے گا اس کی بالکل وہی مثال ہے جیسی مولانا نے ایک حکایت میں لکھی ہے کہ ایک شخص نے بدن گودنے والے سے کہا کہ میری کمر پر شیر کی تصویر بنا دے اس نے سوئ لے کر جیسے ہی چبھوئتو کہتا ہے کہ ارے یہ کیا بنا رہا ہے اس نے کہا دم بناتا ہوں کہنے لگا کہ کیا بے دم کا شیر نہیں ہوتا اس دم نے تو میرا دم ہی نکالا ہوتا اس نے وہاں چھوڑ کر دوسری طرف سوئ چبھوئ اس نے پھر ایک آہ کی اب کیا بناتا یے اس نے کہا پیٹ بناتا ہوں کہنے لگا کیا یہ کھانا کھاۓ گا جو پیٹ کی ضرورت ہو اس نے یہ چھڑ کر تیسری جگہ سعئ چبھوئ اس نے کہا اب کیا بناتا ہے کہا کہ منہ بناتا ہوں کہا کہ ارے بھائی یہ تو تصویر ہے کوئی بولے گا تھوڑا ہی اسے بھی چھوڑا اس نے اسے بھی چھوڑا اور چوتھی جگہ سوئی چبھوئی پوچھا کہ اب کیا بناتا ہے کہا کہ کان بناتا ہوں اس نے کہا کہ شیر بوچابھی ہوتا ہے اس بھی چھوڑ اس نے جھلا کر سوئی پھینک دی اور کہا جس کو مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں –
شیر بے گو شم داشکم کہ دید ایں چنیں شیر لے خدا ہم نافرید
( بے کان ، بے سر اور بے پیٹ کا شیر بھی کسی نے دیکھا ہے ، ایسا شیر تو خدا نے بھی پیدا نہیں کیا 12 )
یعنی شیر تو خدا نے بھی نہیں بنایا جس کے کوئی عضو ہی نہ ہو اورشیر ہو تو میں تو کیا بنا سکتا ہوں آگے بطور ثمرہ اور نتیجہ کے فرمایا –
گر بہر زخمے تو پر کینہ شوی پس کجابے صیقل آئینہ شوی
یعنی جب تو ہر کوچنے پر چیختا اور پکارتا ہے اور برداشت نہیں کرسکتا مراد یہ کہ مصلح اور مرشد کی ہر تنبیہ پر تیرے نفس میں کدرت پیداہوتی ہے تو بدوں مانجھے ہوئے صاف اور توشن کیسے ہوگا اور اسی کو فرمایا ہیں –
چو نداری طاقت سوزن زون پس تو از شیر ژیاں ہم دم مزن
(جب تھہ کوسوئی چبھنے کا تحمل نہیں ہے تو شیر نر کی تصویر بنوانے کاخیال بھی چھوڑ دو 12 )
اس راہ میں قدم رکھنے کے لئے تو سب سے پہلی شرط یہ ہے جس کو فرماتے ہیں –
دررہ منزل لیلے کہ خطر ہاست بجال شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی
( لیلی کی طلب میں جان کو اور بھی خطرات ہیں مگر اول شرط مجنوں بننا ہے )
میں ایک مرتبہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مرادی آباد رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں بغرض زیارت حاضر ہو اشب کو بے وقت پہنچا حضرت مولانا خفا ہوئے اور مجھ پر ڈانٹ ڈپت کی مولا نا نہ میرے استاد تھے نہ پیر کے پیر تھے حتی کہ جس سلسلہ میں میں یعنی چشتیہ میں مولانا اس سلسلہ میں نہ میں بھی نہ تھے کیوں کہ مولا نا کا سلسلہ نقشبندی تھا مگر مولا نا خفا ہونے کا میرے دل میں ذرہ برابر ثقل نہ تھا میں اپنے نفس کو عین کے وقت خوش پاتا تھا اور ذرا کدرت یا نفرت محسوس نہ کرتا تھا اس پر میں حق تعا لیٰ کے فضل اور رحمت کا شکرادا کیا یہ اللہ سے تلعق کی علامت ہے کہ اللہ والوں کی خفگی سے دل پر ہوئی ناگواری اثر پیدا نہیں ہوا – سو جب تک قلب میں خلوص نہ طلب صادق نہ ہوا ایسی چیزوں کو برداشت نہیں کرسکتا عاشق کو اس مذہب کے احتیار کی ضرورت ہے جس کو کہا ہے –
یا مکن پلیاں ناں دوستی یا بنا کن خانہ برا انداز پیل
یا مکش بر چہرہ نیل عاشقی یا فرو شو جامہ تقوی بہ نیل
( یا تو فیل بان سے دوستی نہ کرو – یا گھر ایسا بناؤ جس میں ہاتھی آسکے ، یا عاشقی کا دعوی نہ کرو ، اور اگر کرتے ہو تو جامہ تقویٰ کو دریائے نیل میں دھوڈالو )
اگر یہ نہیں تو جھوٹا دعوی کی اس سے زیادہ حقیقت نہیں جیسے خاتمہ مثنوی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک شخص ایک عورت کے پیچھے ہولیا – اس نے پوچھا کہ تو میرے پیچھے کیوں آرہا ہے اس نے کہا کہ میں تجھ پر عاشق ہوگیا ہوں اس عورت نے کہا کہ مجھ بد شکل ہوکر کیالے گا میرے پیچھے میری بہن مجھ سے بہت زیادہ خوبصورت آرہی ہے وہ عاشق ہونے کے قابل بو الہوس تو تھا ہی فورا پیچھے لوٹا اور منھ پھیر کر دیکھنے لگا اس عورت نے اس کے دھول رسید کی اور کہا –
گفت اے ابلہ اگر تو عاشقی در بیان دعوی خود ضادقی
پس چرا بر غیر افگندی ایں بود دعوی عشق اے بے ہنر
یعنی تو اپنے دعوی میں جھوٹا ہے اگر تو عاشق ہوتا تو غیر پر نظر کیوں کرتا محبت تو وہ چیز
ہے کہ جس دل میں ہوتی ہے محبوب کے سوا سب کو فنا کر دیتی ہے اصلی کو مولانا
فرماتے ہیں ۔
عشق آن شعلہ است کوچوں بر فروخت ہرچہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
(عشق تو وہ شعلہ ہے کہ جب یہ بھڑکتا ہے تو مشرق کے سوا سب کو پھینک دیتا ہے )
اور یہ وہ چیز ہے ۔
ہمہ شہر پر زخوہان منم وخیال ما ہے چہ کنم کہ چشم ایک بیں نہ کند بہ کس نگاہے
(سارا شہر حسینوں سے بھرا ہوا ہے مگر میں ہوں کہ ایک چاند کے خیال میں مست ہوں ۔
کیا کروں کہ یہ آنکھ ایک کے سوا کسی کی طرف دیکھتی ہی نہیں ۔ 12)
جب عشق فانی کا یہ خاصہ ہے تو غیر محبوب نظر سے فنا ہو جاتا ہے تو عشق باقی کا تو کیا
پوچھنا اس میں تو خود بھی اپنی نظر سے فنا ہو جاتا ہے حتی کہ کتے اور سور کو اپنے سے افضل
سمجھنے لگتا ہے جس کی اصل حقیقت تو ذوقی اور جدانی ہے مگر ایک ظاہری وجہ استدلالی بھی
ہے کہ بہائم مامون العاقبہ (یعنی جانور عذاب سے امن میں ہیں ) ہیں اور انسان مامون
العاقبہ (عذاب سے مامون ) نہیں غرض فنا ہونا مٹنا خاک میں ملنا اس طریق کا اول قدم
ہے اور آخر دم توجہ ہے وہ جس کو اللہ تعالی عطا فرمادیں اور وہاں تک پہنچا دیں اس میں
کسب کو دخل نہیں محض موہبت و جذب کی ضرورت ہے جو محض ان کے فضل پر ہے ۔