ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض لوگ اپنے مقصود کے ظاہر کرنے میں ہریشان کرتے ہیں اور بعض ان کی طرف سے یہ عزر کرتے ہیں کہ ان کو تعلیم نہیں ہوئ میں جواب میں یہ کہا کرتا ہوں کہ یہ امر تو فطری اور اصلی ہے کہ جس نقصود کو لے کر آوے اس کو بدوں دریافت کۓ صاف صاف ظاہر کر دے ـ اس میں کسی تعلیم کی ضرورت نہیں ـ تعلیم کی تو ٹیڑھی بات میں ضرورت ہوتی ہے جس کو معمول بنا رکھا ہے مثلا آہستہ بولنے میں بدوں دریافت کۓ ہوۓ کچھ نہیں کہتے ان باتوں کی بیشک تعلیم کی ضرورت ہے اور سیدھی بات میں تعلیم کی کون سی ضرورت ہے ـ
Author: حبیب اللہ
( ملفوظ51 ) طریق میں جزب کی ضرورت
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اس طریق میں کسب کو دخل نہیں جزب کی ضرورت ہے البتہ خود جزب موقوف ہے اعمال پرہاں اس معنی کر کسب کو بھی دخیل کہا جا سکتا ہے کہ وہ اعمال اختیاری ہے مگر یہ دخل بھی محض صورۃ ہے ورنہ ہمارے اعمال ہی کیا ـ اس لۓ میں پھر یہی کہوں گا کہ کسب کو دخل نہیں جزب ہی پر موقوف ہے بعض لوگ کہتے ہوں گے یا خیال کرتے ہوں گے یہ اختیاری اور غیراختیاری کے الفاظ خوب سیکھ لۓ ہیں ہر گجہ جاری کر دیے جاتے ہیں مگر معلوم بھی ہے کہ اس کی بدولت بہت سے خلجانوں سے نجات مل گئ ـ یہ تعلیم صدیوں سے گم ہو چکی تھی اس کی بدولت لوگ سخت پریشانیوں میں مبتلا تھے اب اگر کوئ کسی حالت کی نسبت پوچھنے پر لکھتا ہے کہ غیر اختیاری ہے تو میں لکھتا ہوں تو اس کے درپے کیوں ہو اور اگر کہتا ہے کہ اختیاری ہے تو میں جواب دیتا ہوں کہ پھر ہم سے کیوں پوچھتے ہو اختیار سے کام لو ـ بس مناقشہ ختم ہو جاتا ہے اس لۓ میں کہتا ہوں کہ یہ اختیاری اور غیر اختیاری کا مسئلہ نصف سلوک ہے ـ بلکہ اگر نظر عمیق سے دیکھا جاۓ تو کل سلوک کہنا بھی میرے نزدیک بے جا نہ ہو گاـ
(ملفوظ 50 )طریق سے بیگانگی کی حد
فرمایا کہ ایک صاحب کا پہلے خط آیا تھا اس کا جواب میں نے لکھا تھا کہ ذکر واشتغال ہی مقصود ہیں یا اصلاح اعمال بھی آج ان صاحب کا خط آیا ہے لکھا کہ سوال ہی میری سمجھ میں نہیں آیا حضرت والا نے جواب میں تحریر فرمایا کہ پھر کس طرح سمجھاؤں کسی اور سے سمجھ لو – زبانی ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو اس طرف توجہ ہی نہیں اور وجہ اس کی بے فکری اور طریق سے بے گانگی ہے اور میرا مقصود سوالات سے پو چھنا ہی تھوڑا ہی ہوتا ہے بلکہ بتلانا ہوتا ہے مگر اس طرز میں مصلحت یہ ہے کہ اس میں ذہن پر بار پڑتا ہے خود فکرو غور کرتا ہے اور خود چل پڑتا ہے میں اول ہی میں طالب کو کام میں لگا دیتا ہوں اور بے فکری سے ہٹا کر فکر کی طرف متوجہ کر دیتا ہوں جب تک خود دوڑ سکتے ہیں دوڑیں جب تھک جائیں گے گود میں اٹھا کر راستہ طے کرادیا جاۓ گا اگر خوب فکر کے بعد بھی ذہن نہ پہنچے پھر میں خود بتلا دیتا ہوں ـ
( ملفوظ 49 )ایک صاحب کی بد تمیزی وبے شرمی
ایک گاؤں کا شخص آیا اور مجلس کے منتہا پر کھڑے ہو کر پاجامہ کے نیفے میں سے ایک بٹوا نکال کر اس میں سے ایک پر چہ نکالا اس کے بعد حضرت والا کے قریب آکر بیھٹا حضرت والا نے دریافت فرمایا کہ میں اتنی دیر تک کیوں آکھڑا رہے عرض کیا کہ بٹوا نکال رہا تھا فرمایا کے لوگوں کے سر پر پاجامہ کو ٹٹولنا اور بٹوا نکالنا بے شرمی کی بات ہے آئندہ ایسا نہ کرنا اس کی صورت یہ تھی کہ یہاں آنے سے پہلے باہر بٹوا نکال لیتے تب یہاں آتے آدمی کو تمیز سیکھنا چاہئے جانوروں میں رہ کر جانورہ نہیں بننا چاہئے –
(ملفوظ 48 )گمراہ عقیدہ کے لوگ دنیا میں موجود ہیں
فرمایا کہ ایک شخص کا خط آیا ہے لکھا ہے میں فکر و شغل اس لئے نہیں کرتا کہ کہیں تنگی معاش میں نہ مبتلا ہوجاؤں – حضرت والا نے جواب میں تحریر فرمایا کہ یہ خیال کیوں پیدا ہوا اور زبانی ارشاد فرمایا اس عقیدہ کے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں کہ اللہ کا نام لینے سے افلاس آتا ہے استغفراللہ – نعوذ بااللہ میں نے بھی ابھی کوئی جواب نہیں دیا اس ہی سے اس خیال کی وجہ ملعوم کی ہے دیکھئے کیا لکھتا ہے –
(ملفوظ 47 )فقہاء کا عظیم کار نامہ
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ کلام کو علماء نے ایسا مدون کیا کہ ساری دنیا کو بند کر دیا کوئ آج تک اس کو نہیں توڑ سکا اسی طرح فقہاء نے احکام کی تدوین کیا اور اور نصوص کے محامل کو ظاہر کیا مگر اغبیاء نے بجاۓ شکر گزاری کے اور الٹا ان پر اعتراض کیا کہ یہ لوگ تاویل کر کے نصوص کو ترک کرتے ہیں چناچہ ایک غیر مقلد نے دہلی میں وعظ کہا اس میں بیان کیا کہ قرآن حدیث سب ظاہر ہے کہیں تاویل جائز نہیں ایک طالب علم مولوی عبدالحق تھے قصبہ جلال آباد کے انہوں نے کہا کیوں کہ صاحب تاویل نہ کی جاوے گی کہا کہ کہیں نہ کی جاوے گی انہوں نے کہا کہ بہت اچھا تو میں کہتا ہوں کہ اس قائدہ کی بناء پر تو کافر ہے کہنے لگا کہ یہ کیوں انوں نے کہا کہ یہ قرآن میں ہے
ومن کان فی ھذہ اعمی فہو فی الاخرۃ اعمی
یہ غیر مقلد اندھا تھا کہنے لگا اس کا تو یہ مطلب نہیں بلکہ مجازی معنی مراد ہے انہوں نے کہا یہ تو تاویل ہے اور تاویل بقول آپ کے باطل ہے بڑا پر یشان ہوا فرمایا کہ واقعی اگر ضرورت اور دلیل سے بھی تاویل نہ کی جاوے گی تو ایسا ہو گا ایک شخص نے شیخ سعدی علیہ الرحمہ کے اس شعر کا مطلب سمجھا تھاـ
دوست آن باشد کہ دوست دوست در پریشان حالی دور ماندگی
( دوست وہ ہے جو دوست کی پریشانی حالی درعاجز ہونے کے وقت مدد کرے 16 )
واقعہ یہ ہوا کہ اس کا دوست کسی سے لڑ رہا تھا اور وہ بھی ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا اس نے پہنچ کر دوست کے دونوں ہاتھ پکڑ لۓ جس سے بیچارے کی اچھی طرح مرمت ہوئ کسی نے کہا یہ کیا حرکت ـ کہتا ہے کہ میں نے تو شیخ سعدی علیہ الرحمتہ کی تعلیم پر عمل کیا وہ فرما گۓہیں ـ
دوست آن باشد کہ گیر دوست دوست در پریشانی حالی دور ماندگی
اگر تاویل سے بچیں تو کوئ کلام بھی صحیح معنی میں استعمال نہیں ہو سکتا اسی طرح کسی مطلق لفظ کو مقید پر محمول کرنا ایک قسم کا مجاز اور تاویل ہے مگر دلیل کی ضرورت سے اختیار کیا جاۓ گا ـ میں ایک مرتبہ علی گڑھ اپنے چھوٹے بھائ کے پاس مہمان تھا نواب وقار الملک کی استدعاء پر کالج گیا وہاں جمعہ بھی پڑھا ـ وعظ بھی کہا وہاں کے پروفیسر نے سائنس کے کمرہ کی بھی سیر کرائ اس میں بجلی بھی تھی ـ اس کے افعال خواص کا بھی مشاہدہ کیا اس کے بعد وعظ ہوا تو میں نے وعظ میں برق کے متعلق بھی بیان کیا کہ آپ لوگوں کو کہیں یہ شبہ نہ ہو کہ بجلی تو ہم نے بھی پیدا کر لی ہے پھر جو حقیقت بجلی کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے ہمارا مشاہدہ اس کی نفی کرتا ہےکیونکہ برق تو ہم بھی بناسکتے ہیں میں نے جواب دیا کہ برق کی دو قسمیں ہیں ایک سماوی اور ایک ارضی سو ارضی برق کی تو حقیقت ہے جو تم سمجھتے ہو اور سماوی برق کی وہ حقیقت ہے جوحضور صلی اللہ عیلہ وسلم نے ارشاد فرمائی گو سماوی کی قید لفظوں میں مصرح نہیں مگر قرائن سے اس کا اعتبار کیا جاوے گا میرے اس بیان کا ان لوگوں پر بے حد اثر ہو اس لئے کہ ایسا قریب جواب انہوں نے کبھی نہ سنا
تھا – میں نے یہ بھی کہا کہ جو کچھ میں نے اس وقت بیان کیا برق کے متعلق اس کو توجیہ وتکلیف نہیں کہتے تو ضیح وتحقیق کہتے ہیں یعنی حقیقت کا اظہار جو شخص دونوں میں منافات سمجھتا تھا اس کو حقیقت سمجھادی –
6 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس بعد نماز یوم شنبہ
(ملفوظ 46 )رشوت خوف خدا سے چھوڑنا چائی ہے
ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اس زمانہ میں اکثر اہل حکومت کی نظر میں کام کرنے والوں کی قدر نہیں وفاداری کی قدر نہیں ـ بھائ مرحوم کہا کرتے تھے کہ اگر کوئ رشوت خدا تعالی کے خوف سے چھوڑے تو ٹھیک ہے اور اگر اس خیال سے چھوڑے کہ اہل حکومت خوش ہونگے وہ بڑا ہی بے وقوف ہے کوئ قدر نہیں اور ایسے اہل حکومت کی طرف سے جو کچھ پبلک کی راحت رسانی کا سامان کیا گیا اور کیا جا رہا ہے
اس میں بھی نیت بخیر نہیں جیسے مذہبی جوش کو برباد کرنے کی سعی اور کوشش کی جارہی ہے اس کا اثر قوت باطنی پر پڑا ار ظاہری قوت کو ان اسباب عیش اور راحت سے برباد کر دیا جیسے ایک عورت کی حکایت ہے کہ سوتیلے بیٹے کو گود میں لے رکھا تھا اور اپنے بیٹے کو انگلی پکڑے پیدل لیۓ جاری تھی دیکھنے والوں نے کہا کہ کس قدر شفیق اور بے نفس طبیت عورت ہے سوتیلے بیتے کو گود میں اور اپنے بیٹے کو پیدل لۓ جارہی ہےاس عورت نے سن کر کہا اس میں بھی میری ایک حکمت ہے کہ یہ گود کا خوگر ہو کر اپاہچ ہو جاۓ اور میرا بچہ چلنا سیکھ جاۓ اور تندرست رہے یہی مثال خود غرض لوگوں کی ہے کہ ان کی دوستی کے پردہ میں دشمنی ہوتی ہے ـ
( ملفوظ 45 ) حق تعالٰی سے دعا کی ترغیب
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اپنے دوستوں کو بھی مشورہ دیتا ہوں اور خود بھی اس پر عامل ہوں کہ حق تعالیٰ سے اپنی بہود اور فلاح کی دعا کریں اور یہ بڑا عمل ہے اور اس سے بڑا عمل یہ ہے کہ خدا کے راضی کرنے کی فکر میں لگ جائیں اگر مسلمان ایسا کریں تو چند روز میں انشا ء اللہ کا یاپلٹ ہوجائے حقیقی مالک ملک کے حق تعالیٰ ہی ہیں تو ملک جن کی ملک ہے انہیں سے مانگو اور اس کا صحیح طریق یہی ہے کہ ان کو راضی کرو – اور راضی کرنے کا طریقہ یہ کہ گزشتہ نافرمانیوں سے تائب ہوکر آئندہ کے لئے عزم اعمال صالحہ کا کرو دیکھو پھر کیا ہوتا ہے کیونکر تدابیر بھی وہی ذہنوں میں پیدا فرماتے ہیں اور پھر ان تدابیر کو مؤثر بھی وہی بناتے ہیں تو ان کو راضی رکھنے سے تد بیریں بھی صحیح اور مؤثر سمجھ میں آتی ہیں یہ بات یقین کے درجہ کی ہے کہ اگر مسلمان ایسا کریں تو ان کے تمام مصائب اور آلام ختم ہوجائیں یہ مصائب کا سامنا خدا کو ناراض کرنے ہی کی بدولت ہورہا ہے اور جو تدابیر اس وقت اختیار کر رکھی ہیں چونکہ ان اکا اکثر حصہ غیر مشروع ہے اس لئے بجائے کسی کامیابی کے اور الٹی ذلت اور نامی گلو گیر ہوجاتی ہے لوگ کہتے ہیں کہ ( انگریزوں کی ) شروع سلطنت کے زمانہ میں اس کا مشورہ ہواتھا کہ ہندوستان کو نکما بنان چاہئے اور اس کی تدبیر یہ نکلی کہ مذہبی حمیت کو برباد کردینا شاہئے بس میں اسی حمیت کو کہتا ہوں کہ اپنے اندر پیدا کرو لیجئے اثر ہوتا ہے اس وقت کثرت سے لوگوں کو مذہب سے بے گانہ کردیا گیا یہ نہایت باریک حربہ ہے بس اس کے مقابلہ میں کرنے کاکام یہ یے کہ مذہب کی اہمیت قلوب میں پیدا کیجائے مگر مشکل یہ ہے کہ جو کام کرنے کے ہیں ان کو تو مسلمان کرتے نہیں دوسرے جھگڑوں اور قصوں میں پڑ کر اپنا مال اور جان اپنا وقت برباد کررہے ہیں حقیقی تدابیر سے بھاگتے ہیں صاحبو اگر اعتقاد سے کرتے تو آزمانے ہی طریق پر کر کے دیکھ لو اسی کو فرماتے ہیں –
سالہا تو سہنگ بودی دل خراش آزموں رایک زمانے خاک باش
( برسوں تک تو سخت پتھر بنا رہا آزمائش کے لئے کچھ روز خاک ہوکر بھی دیکھ 12 )
ان رسموں تک تو سخت پتھر بنا رہا آزمائش کے لئے کچھ روز خاک میں سر رکھ کر بھی دیکھ لو حکمت یونانی کا نسخہ تو بہت زمانہ تک استعمال کرلیا اب حکمت ایمانی بھی استعمال کر کے دیکھ لو انشاءاللہ تعالٰی تمام امراض کا فور ہوجائیں گے اور میں تدابیر ظاہرہ کا مخالف نہیں ہوں بشرطیکہ غیر مشروع نہ شکایت تو اس کی ہے کہ تدبیر ظاہری کے اس قدر پیچھے کیوں پڑ گۓ کہ حقیقت سے بھی دور جا پڑے اس لیۓ ضرورت ہے کہ اب طت ایمانی نسخہ استعمال کرو فرماتے ہیں
چند خوانی حکمت یونانیاں حکمت ایمانیاں راہم بخواں
(یونانیوں کی حکمت کب تک پڑھو گے ایمان والوں کی حکمت بھی پڑھ لو)
خلاصہ یہ ہے کہ طبیب جسمانی کی تدبیر پر تو عمل کر چکے اور اس کا نتیجہ بھی دیکھ چکے اب طبیب روحانی یعنی جناب رسول مقبول صل اللہ علیہ وسلم کے فرماۓ ہوۓ نسخوں پر عمل کر کے دیکھو کینکہ یہ مرض ان اطمینان ظاہری کی سمجھ سے باہر ہے تو ان کی تدبیر کیسے کافی ہو گی اسی کی نظیر میں مولانا فرماتے ہیں ـ
گفت ہر دارو کہ ایشاں کر دہ اند آن عمارت نیست ویران کردہ اند
بے خبر بود نداز حال دروں استعیز اللہ مما یفترون
( مرد غیبی نے کہ جو دوا ان لوگوں نے کی ہے وہ مرض کو بڑھانے والی تھی ـتندرست کرنے والی نہ تھی ـ وہ لوگ اندرونی حالت سے بے خبر تھے جو دوائیں وہ گھڑ رہے تھے ان سے اللہ کی پناہ ماگتاہوں – 12 )
دیکھۓ صحابہ کرام کی جمعیت کچھ ایسی زائد نہ تھی مادی اسباب پاس نہ تھے مگر طبیب روحانی کے نسخوں پر ان کا عمل تھا دیکھ لو کیا سے کیا کر کے دیکھا گۓ یرموک میں جب اول روز لشکر اسلام کے مقابلہ میں حبلہ بن ایہم غسانی ساٹھ ہزار لشکر لے کر آیا ہے تو حضرت خالد بن علید رضی اللہ عنہ اس کے مقابلہ اول تیس آدمی پھا دوسروں کے کہنے سننے ساٹھ آدمی منتخب کر کے میدان میں لے گۓ حبلہ یہ سمجھا کہ خالد بن ولید صلح کیلۓ آۓ ہیں وہ دیکھ کر ہنسا حضرت خالد بن ولید نے گنگ کا اعلان کر دیا شام تک تلوار چلی کفار کی ساٹھ ہزار کی جمعیت کو ہزمیت ہوئ اور میدان چھوڑ کر بھاگ گۓ صحابہ میں پانچ یا چھے تو شہید ہوۓ اور پانچ گرفتار ہوۓ جب لاشیں بھی نہیں ملیں جب گرفتاری کا گمان ہوا تو چھے لاکھ کے لشکر میں جو باہان ارمنی کے زیرے کمان تھا ان کے چھوڑانے کیلۓ سو سپاہیوں کے ساتھ تشریف لے گۓ اور باہان کی اطلاع واجازت کے بعد جب آگۓ بڑھے تو تخت کے قریب دیبا و حریر کا فرش تھا حضرت خالد بن ولید ساتھیوں سے فرمایا کہ اس کو اولٹ دو باہان ارمنی کے کہا کہ میں نے تو آپ کی عزت کی اور حریر کا فرش بچھانے کا حکم دیا آپ نے اس کی کچھ قدر نہ کی آپ نے فرمایا کہ
ولارض فرشنھا فنعم الماھدون “”
خدا کا فرش تیرے فرش سے اچھا ہے باہان ارمی نے کہا کہ ہم اور تم بھائ بھائ ہو جائیں حضرت خالد بن ولید نے فرمایا کہ اسلام قبول کر لے ہم اور تو بھائ بھائ ہو جائیں گے اور اگر اسلام قبول نہ کرے گا تو وہ دن مجھے قریب نظر آتا ہے تیری گردن میں رسی ہو گی اور لوگ کھینچ کر تجھ کو امیرالمئومنین کے سامنے کھڑا کریں گے یہ سن کر باہان ارمنی آگ ہو گیا اور حکم دیا کہ ان کو پکڑو حضرت خالد بن ولید نے تلوار کھینچ کر ساتھیوں کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ تم بھی تیار ہو جاؤ اور اس کی جرار کرار فوج کی طرف نظر نہ کرو اور اس وقت آپس میں ایک دوسرے کو نہ دیکھو اب انشااللہ آب کوثر پر ملاقات ہو گی بس باہان ڈھیلا ہو گیا اور کہنے لگا میں تو ہنستا تھا تو یہ کیا چیز تھی وہی حمیت مذہبی تھی بس اعداء دین تدبیر سے اس کو مٹانا چاہتے ہیں اس کا اثر یہ ہوا اب خد لوگ اپنا مذہب چھوڑ دینے پر آمادہ ہیں مگر پھر اعداء اعداء ( دشمن دشمن ) میں فرق ہے ایک قوم ( انگریز ) کی دشمنی آئین کے ساتھ ہے اور دوسری قوم ( ہندو ) کی صریح ظلم کے ساتھ ـ اگر کہیں ان( ہندوؤں ) کا تسلط ہو جاۓ تو یہ تو زبردستی مسلمانوں کو مرتد بنائیں ـ اب باوجود حکمت نہ ہونے کے جہاں قدرت ہوتی ہے جبر کرتے ہیں جہاں جہاں ان کی اکثریت اور کچھ قوت ہے اور مسلمانوں کی آبادی کم ہے ان کو ارتداد پر مجبور کیا جاتا ہے ـ
( ملفوظ 44 )خلوص اور تواضع کی قدردانی
ایک سلسلہ میں فرمایا کہ یہاں تو خلوص اور تواضع کی قدر ہے اگر یہ نہیں تو پھر چاہے کتنا ہی بڑا ہو اس کی ذرہ برابر قدر نہیں ہوتی اور اس کو سمجھ لینا چاہئے کہ میں محروم ہوں نہ کوئی نفع ہو اور نہ ہوسکتا ہے یہ دوسری بات ہے کہ وہ نفع اور عدم نفع کا امتیاز ہی نہ کرتا ہو جیسے بعض علمی اداروں میں تکبر اور تر فع کو خود داری سمجھتے ہیں اب اگر کسی کے یہاں رذائل ہی کمالات سمجھے جاتے ہوں اور باعث فخر ہوں اس کا کسی کے پاس کیا علاج اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ مریض اپنے امراض ہی کمال سمجھے اور اس پر فخر کرے تو طبیب بیچارہ کیا تیر لگائے گا مگر انجام کا ہلاکت ہی ہے –
6 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم سہ شنبہ
( ملفوظ 43 ) حضرت میاں جی رحمتہ اللہ علیہ کی روشنی
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ حضرت میاں جی صاحب رحمتہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ہماری وفات کے بعد دیکھنا ہماری روشنی کس قدر پھلے گی -( چنانچہ مشاہدہ ہے )

You must be logged in to post a comment.