( ملفوظ 32 )قبروں کو پوجنے والے

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ قبروں کے پوجنے والے نہایت گڑ بڑ کرتے ہیں اچھی خاصی بت پرستی کرتے ہیں ـ

( ملفوظ 31 )ہر کام کیلئے استخارہ مسنون نہیں

ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت یہ شیعی لوگ ہر کام پر ہر بات پر استخارہ کرتے ہیں ـ ایک صاحب کا کسی شیعی صاحب پر قرض چاہتا تھا انہوں نے اپنا قرض طلب کیا تو اس پر استخارہ دیکھا اور کہا ادا کرنے کے لۓ استخارہ نہیں آتا فرمایا کبھی لینے کے وقت بھی استخارہ کیا ہو گا کہ اس وقت نہیں لیں گے ـ استخارہ نہیں آتا ـ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ گور گھپور میں ایک شیعی رئیس تھے ـ جب بیمار ہوتے طبیب کو بلاتے اور نسخہ کے ہر جز کے لۓ استخارہ کرتے طبیب بہت پریشان ہوتے میں نے سن کر کہا کہ استخارہ کیلۓ بھی تو استخارہ کرنا چاہیے تھا ـکہ استخارہ کریں یا نہیں پھر اس استخارہ کیلۓ بھی استخارہ کی ضرورت ہے پھر ایک سلسلہ ہو گا جو لامتناہی ہو گا اور قیامت تک بھی نسخہ مرتب نہیں ہو سکتا شاید یہ سمجھا ہو گا کہ ایمان اجمالی پر اکتفا کرنا چاہیے ایمان مفصل کی ضرورت نہیں ـ

( ملفوظ 30 )اکثر جاہل صوفی حفوظ نفسانیہ میں مبتلا ہیں

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل کے اکثر جاہل صوفی حفوظ نفسانیہ میں مبتلا ہیں طریق کی حقیقت سے بے خبر ہیں یہ کیفیات اور لزات کو مقصود سمجھتے ہیں سو ایسے لوگ باکل کورے ہوتے ہیں میں تو کہا کرتا ہوں آج کل کے صوفی نہیں سوقی ( بازاری ) ہیں اور یہ آج کل سماع اہل سماء نہیں – اہل رض –
“” ولکنہ اخلد الی الا رض “”
کے مصداق ہیں کا نپور کی حکایت حافظ عبداللہ مہتمم جامع العلوم نے بیان کی تھی کہ سماع ہو رہا تھا ایک شخص کو وجد شروع ہوا حالت وجد میں ایک پاس والے شخص نے امتحان کے لۓ صاحب وجد کی چادر اوتار کر قوال کو دے دی بس فورا ہی وجد ختم ہو گیا اور چادر کی وپسی کا تقاضا کرنے لگےبڑا جھگڑا ہوا یہ ان کے وجد کی حقیقت ہے محض جھوٹے مکار ـ

( ملفوظ 29 )راحت کی خاطر سفر بند فرمانا

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فر مایا کہ سفر نہ کرنے کی میں نے قسم تھوڑا ہی کھائی بلکہ کسی قید کے سفر کرسکتا ہوں کوئی مانع نہیں ہاں اپنی راحت کے واسطے سفر بند کیا ہے لکین کسی مصلحت کے سبب جی چاہے جابھی سکتا ہوں اوو اللہ کا شکر کہ خود بدن کے اندر ایسا عزرہ فرمادیا ورنہ اگر یہ عزرہ بھی نہ ہوتا تب بھی سفر بند ہی کرنا پڑتا بڑے فتنہ کا زمانہ ہے –

( ملفوظ 28 )حیدر آباد کے فقراء اور امراء

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں ایک دوست کے مدعو کرنے پر حیدر آباد دکن گیا تھا وہاں تقریبا چور ہ روز قیام کیا ایک صاحب نے مجھ سے اپنے گھر میں کے لئے بیعت کرنے کی درخواست کی میں نے قبول کرلی چنانچہ انہوں نے ایک وقت مکان پر لے جانے کا متعین کیا اور اس وقت پر سواری کر آگے – میں مکان پر پہنچا اور مردانہ میں جاکر بیٹھ گیا پھر پردہ کر کرا گھر میں لے گئے اور ایک دالان میں میں بٹھلادیا اور وہاں ہی سب عورتیں برقع اوڑہے ہوئے بیٹھی تھیں مجھ کو یہ بھی ناگوار ہوا مگر چونکہ خیر ضروری پردہ تھا اس صبر کرکے بیٹھ گیا اب ان حضرات کوجوش اٹھا اور رسوم مروجہ کا غلبہ ہوا جن کو آج کل کے رسمی اور جاہل پیروں نے جائز کررکھا ہے وہ یہ کہ عورتوں سے کہا کہ منہ کھول دو میں نے سوچا کہ اگر اول ان سے بحث کی تو عورتوں بے پردہوچکیں گی اس لئے میں نے عورتوں سے کہا کہ کرگز منہ مت کھولنا اب وہ بیچاری بڑی کشمکش میں ادھر گھر کے مالک کا ایک حکم ادھر اس کے خلاف پیر کا کا حکم ـ کہنے لگے کہ وجہ اور کفین تو ستر نہیں میں کہا ضرورت میںیا بلا ضرورت بھی کہنے لگے کہ یہاں پر تو ضرورت ہے میں کہا کہ وہ ضرورت کیا ہے کہنے لگے کہ آگر آپ دیکھیں گے نہیں تو ان کی طرح توجہ کس طرح ہوگی – میں نے کہا توجہ دیکھنے پر موقوف ہے آخر عورتوں سے کہا اچھا بھائی یہ کیا کسی کی مانیں گے – اس کے بعد نے عورتوں کی طرف رومال بڑھ دیا کہ وہ پردہ میں سے اس کا گوشہ تھام لیں – اس پر ان صاحب کو پھر جوش اٹھا اور فرمانے لگے ہاتھ میں ہاتھ لے کر بیعت کیجئے – میں نے کہا کہ حدیث شریف میں تصریح موجود ہے پ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو ہاتھ میں ہاتھ میں لے کر بیعت نہ فرماتے تھے کہنے لگے اچھا صاحب یہی سہی – غرض اللہ کے فضل سے میں ہی غالب رہا اور یہ شخص ماشااللہ عالم صوفی مصنف سب کچھ تھے – مگر خدا ناس کرے ان رسوم کا ان میں وہ بھی مبتلا تھے – اورعام لوگ ان رسمی پیروں اور دکانداروں کی بدولت ان خرافات میں مبتلا ہیں جس سے اس طریق کی حقیقت تو بالکل ہی مستور ہوگئی اور ان بزرگ کا ان امور پر جو کچھ بھی اصرار تھا شرارت سے نہ تھا بلکہ انتھائی عقیدت اور خوش نیتی پر مبنی تھا جو حیدرہ آباد کے بڑے طبقہ کا جز ولا نیفک ہوگیا ہے چنانچہ ماموں امداد علی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ حیدرہ آباد کے فقراء تو دوزخی اور امراء جنتی اور اس کی وجہ بیان کیا کرتے کہ فقراء تو امراء سے تلعق پیدا کرتے ہیں دنیا کے واسطے اور امراء فقراء سے تلعق پیداکرتے ہیں دین کے واسطے اور ظاہر ہے دین کا طالب جنتی اور دنیا کا طالب دوزخی – اس خوش اعتقادی کی یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے لہ ایک پیر صاحب کی حکایت ہے کہ ایک عورت کا مجمع میں بیھٹے ہوئے جس میں اس کا خاوند بھی موجود تھا پکڑ کر کھینچ لیا اور بوسہ لے لیا خاوند بے حیا کہتا ہے کہ اب تو تم متبرک ہوگیئں تم ہماری رسائی کہاں کیا ٹھکا نا ہے اس بے حیائی اور گمراہی کا –

( ملفوظ 27 )بے فکری دور کرنے کے لئے مواخزہ

ایک صاحب نے عرض کیا کہ یہ سب پریشانیاں جیسی اس وقت ان صاحب کو ہورہی ہیں یہ سب بے فکری دور کرنے اور فکر کو پیدا کرنے میں معین ہوتی ہیں فرمایا کہ جی ہاں میری تو یہ ہی نیت یوتی ہے پہر فرمایا کہ بے اصول باتیں کر کے خود اپنے اوپر پابندیاں عائد کرتے ہیں اور ایک عجیب بات ہے کہاپنے بے اصول برتاؤ کی خوب تاؤیلیں کرلیتے ہیں مگر میری مواخزہ کی تاویل نہیں کرتے کیوں شکائتیں کرتے پھرتے ہیں حالا نکہ ان کی سب بے تمیزیاں ہی سبب ہیں اور میرا مواخذہ مسبب ہے ـ کیو نکہ وہ بعد میں ہوتا ہے مثلا میں سیدھی سیدھی بات پوچھتا ہوں اس میں چالا کیا کرتے ہیں وہ یہاں چلتی نہیں – جرح قد ہوتی ہے بات بڑھ جاتی ہے پہلے تو ایک ہی بات ہوتی ہے گڑ بڑ کرنے سے پھر کئی جمع ہوجاتی ہیں ایسی حرکتیں ہی کیوں کرتے ہیں جس کے تدارک کی ضرورت ہو اور میں ایسے امور کی سزا پہلے خود تجویز کردیا کرتا تھا اس پر مجھے بدنام کیا کہ سختی کرتا ہے اب میں نے تجویز کرنا چھوڑ دیا کہ دیتا ہوں کہ خود تجویز کرو اب یہ عقل مند میری تجویز سے زیادہ سخت سزا تجویز کرتے ہیں مگر چونکہ اپنی تجویز ہوتی ہے اس لئے اس کو سخت خیال نہیں کرتے پھر اس میں تخفیف کردیتا ہوں تو غنیمت سمجھتے ہیں –
4 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس بوقت خاص صبح یوم یکشنبہ

( ملفوظ 25 )اشرفی لکھنا پسند نہیں

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا لہ مجھ کو یہ ایسی پارٹی بندی پسند نہیں کہ ایک صاحب ہی خیال اور ایک ہی مشرب کے ہو کر نسبتوں سے فرق ظاہر کریں جیسے ایک صاحب نے اپنے نام کے ساتھ اشرفی لکھا تھا بلا ضرورت ایسی نسبتیں متضمن مفاسد ہیں ایک صاحب نے عرض کیا کہ چشتی قادری ، سہردردی یہ بھی تو ایک نسبت ہے فرمایا کہ وہاں تو اپنے مسلک اور مشروب کو اہل بدعت کے مسلک سے ممتاز کرنا ہے اور یہاں جب ایک ہی مسلک اور مشرب ہے تو وہ مقصود نہیں ہو سکتا –

( ملفوظ 26 ) اپنے کام کے لئے دوسروں کو مجبور نہ کرنا

ایک صاحب کے لئے واسطہ کے ذریعے خط و کتابت کرنا حضرت والا نے تجویز فرمایا تھا ان صاحب نے عرض کیا کہ وسطہ بننے پر کوئی راضی نہیں ہوتا فرمایا پھر میں کیا کروں ہاتھ جوڑ پیر پکڑو اور راضی کرو غرض آپ کاکام ہے آپ کوشش کیجئے میں اس کاکیا انتظام کروں میں تو خود اپنے کاموں کے لئے بھی دوسروں کو مجبور نہیں کرتا دوسروں کے لئے تو کیا کسی کو کچھ کہوں اور مجبور کروں –

( ملفوظ 24 ) دوسرے کی اصلاح مصلح کی ضرورت

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ کسی کی اصلاح کے لئے نرا صالح ہونا کافی نہیں بکلہ مصلح کی ضرورت ہے جیسے مریض کو معالج کے تند رست ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے طبیب ہونے کی ضرورت ہے اس لئے کہ ہر تندرست طبیب نہیں ہوتا –

( ملفوظ 23 )عدم اذیت کا اہتمام نہ کرنا سبب بے فکری ہے

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اس کا توخدا نخواستہ قلب میں شبہ بھی نہیں کہ لوگ جان کریا قصد اور اہتمام سے اذیت پہچاتے ہیں ہاں یہ یقینی ہے کہ عدم اذیت کا بھی اہتمام نہیں کرتے جس کا سبب صرف بے فکری ہے بس میں اسی کی کوشش کرتا ہوں کہ فکر پیدا ہو اگر فکر سے کام لیں تو بھت کم غلطیاں ہوں –
3 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم شنبہ