(ملفوظ 115) سیاسی تحریک پر گفتگو بے مقصود

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ زمانہ تحریک میں ایک لیڈر مولوی صاحب نے مجھ سے بذریعۂ خط تحریکی مسائل پر گفتگو کرنے کے لئے آنے کی اجازت چاہی، میں نے لکھا کہ گفتگو سے دو مقصود ہو سکتے ہیں افادہ یا استفادہ۔ اگر افادہ مقصود ہے تو وہ تبلیغ ہے اس میں میرا کام صرف استماع ہوگا میرے ذمہ جواب نہ ہوگا جواب کا مطالبہ نہ کیجئے اور استفادہ مقصود ہے تو استفادہ ہوتا ہے تردد کے بعد تو پہلے اپنے تردد کا اقرار کیجئے یعنی بذریعہ اشتہار اعلان کردیجئے کہ مجھ کو اب تک تردد نہ تھا مگر اب ہوگیا۔ جواب آیا جو چاہو سمجھ لو مگر مجھ کو آنے دو، چنانچہ آئے اور خفیہ گفتگو کرنا چاہا۔ میں نے بعض مصالح سے اس کو پسند نہ کیا آخر خالی واپس چلے گئے۔

ایک واقعہ ایک اسکول کے ماسٹر کا ہے، انہوں نے بعض شبہات روافض کا جواب چاہا، میں نے لکھا کہ زبانی گفتگو کرلو۔ انہوں نے آنے پر رضامندی ظاہر کی اور ایک بیہودہ شرط لگائی کہ میں آپ کا کھانا نہ کھاؤں گا کیونکہ اس سے میں آپ کا نمک خوار ہوجاؤں گا پھر گفتگو نہ کرسکوں گا۔ بعضے آدمی بڑے ہی بد فہم ہوتے ہیں، چنانچہ میں اس پر راضی ہوگیا اور وہ خود ہی اس شرط سے دستبردار ہوگئے، الحمد اللہ شفا حاصل کرکے گئے۔ چلتے وقت میں نے ان کو مخالفین کی کتابیں دیکھنے سے منع کردیا۔

ایک واقعہ ایک غیر مقلد کی گفتگو کا ہے، بہت سے قیل و قال کے بعد آخر میں میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں میں دو مرض ہیں، ایک بد گمانی ایک بد زبانی، اگر یہ نہ ہو تو آدمی تحقیق کرکے اس کی سمجھ میں جو حق ہو بشرطیکہ نیت خراب نہ ہو اور اصول شریعت سے تجاوز نہ ہو اس پر عمل کرے اس کو کون برا کہتا ہے گو تقلید کے مسئلہ میں وہ اختلاف ہی رکھے مگر شیعوں کی طرح تبرائی بننا یہ کسی طرح دین نہیں اس سے تو صاف بد نیتی کا پتہ چلتا ہے۔ یہ واقعہ قنوج کا ہے
اور وہاں ہی کا ایک اور واقعہ بھی ہے کہ میں ایک مرتبہ قنوج گیا وہاں کچھ لوگ غیر مقلد بھی ہیں حنفی انکو جامع مسجد میں آنے نہیں دیتے تھے اور وہ وعظ سننے کے لئے آنا چاہتے تھے۔ میں نے کہا کہ آنے دو اور آمین بالجہر کی بھی اجازت دے دی کیونکہ اگر طبیعتوں میں سلامتی ہو فساد نہ ہو تو اختلافی اعمال میں ہمارا حرج ہی کیا ہے مگر مشکل تو یہ ہے کہ اکثر امور میں فساد اور شرارت کی جاتی ہے حتٰی کے آمین بالجہر میں بھی نیت دوسروں کو مشتعل کرنے کی ہوتی ہے اسی لئے آمین بالجہر اس طرح کرتے ہیں گویا آمین کی اذان دیتے ہیں جو کہیں منقول نہیں۔
غرض نمازِ جمعہ کے بعد احباب کے اصرار پر جامع مسجد میں بیان کیا گیا اور اس میں میں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضور سرور عالم ﷺ کی سنت کے موافق اپنی بیویوں سے کہہ دو اگر احکام کی اتباع نہ کریں تو اسی سنت پر عمل کرو۔ یہ میں نے قصداً اس لئے کہا کہ معلوم ہوا کہ رسوم متعارفہ ان لوگوں کے گھروں میں ہیں تو مقصود میرا یہ تھا کہ آمین اور رفع یدین میں تو اتباع سنت کا دعویٰ ہے اور رسوم میں اس سنت پر عمل کیوں نہیں۔ میں اس کی قدر کرتا ہوں کہ یہ سن کر اپنے گھر جاکر حنفیوں نے تو نہیں کہا مگر ٖغیر مقلدوں نے جاکر بالاتفاق کہہ دیا۔ عورتوں کے کان کھل گئے اور اصلاح ہوگئی.

اسی سلسلہ میں ایک غیر مقلد کا واقعہ یاد آیا کہ ان کا میرے پاس خط آیا کہ میں غیر مقلد ہوں اور بیعت کرنا چاہتا ہوں، میں نے لکھا کہ یہ بتلاؤ کہ میری بھی تقلید کروگے یا نہیں۔ بس گم ہوگئے کیونکہ ایک شق پر تو مقلد بنتے ہیں اور دوسری شق پر اعتراض ہوتا ہے کہ جب میرا کہنا نہ مانو گے تو بیعت کیسی اور اس لاجواب ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ان صاحبوں میں سمجھ نہیں ہوتی، یونہی اوپر اوپر چلتے ہیں ورنہ اس کا جواب بہت آسان تھا یوں لکھتے کہ تمہاری تقلید کروں گا اور اس پر جو شبہ ہوتا کہ امام صاحب کی تو تقلید کرتے نہیں اور میری کروگے اس کا یہ جواب دیتے کہ امام ابو حنیفہ کی تقلید تو احکام میں کراتے ہیں اور تمہاری تقلید تدابیر میں ہوگی، مثل طبیب جسمانی کے کہ اس کی بتلائی ہوئی تدابیر پر عمل کرتے ہیں حالانکہ وہ بھی اجتہادی ہیں مگر احکام تو نہیں، مگر یہ چیز ان کے ذہن میں کہاں آسکتی ہیں۔

ایک نیچریوں لے مولوی صاحب سے علی گڑھ میں گفتگو ہوئی انہوں نے ایک حدیث کا راز پوچھا، میں نے کہا کہ احکام کے اسرار کی آخر غایت کیا ہے؟ مقصود عمل ہے نہ کہ تحقیق۔ اسرار گو اللہ کا شکر ہے کہ بزرگوں کی برکت سے بہت سی ایسی چیزیں بھی معلوم ہیں لیکن ہر چیز کے بتلانے پر میں اکثر یہ شعر پڑھا کرتا ہوں۔

مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتد راز       ورنہ در مجلس رنداں خبر لے نیست کہ نیست
(راز کا پردہ سے باہر آنا خلاف مصلحت ہے ورنہ رندوں کی مجلس میں ہر چیز موجود ہے)

باقی اہل تحقیقات اور ان کے غلام اس کی پروا نہیں کرتے کہ نہ بتلانے پر یہ کیا سمجھیں گے کہ ان کو کچھ آتا نہیں کچھ ہی سمجھا کریں ہاں کوئی وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس میں اسرار اور راز بھی بیان کردیتے ہیں ورنہ اصل مسلک ان کا وہی ہے جس کو فرماتے ہیں۔

با مدعی بگوئید اسرار عشق و مستی          بگزار تا بمیر و در رنج خود پرستی
(مدعی سے عشق و مستی کے اسرار بیان کرو۔ اس کو اپنی خود پرستی کہ مصیبت میں مرنے دو۔)

اور کسی کے معتقد غیر معقتد ہونے کی ان کو پرواہ ہی کیسے ہوتی ان پر تو عشق و فنا اس قدر غالب ہوتا ہے کہ اس سے ان حضرات کی شان ہی دوسری ہوجاتی ہے۔ ان کی ہر چیز اور ہر کام اور ہر بات میں اسی محبت اور عشق کی شان جھلکتی ہے ان کی ہر ادا سے دوسرے ہی عالم کا بتا چلتا ہے اور اس کے مصداق ہوتے ہیں۔

عشق آن شعلہ ست کو چوں برفروخت            ہر چہ چیز معشوق باقی جملہ سوخت

گلزار ابراہیم میں اسی کا ترجمہ ہے۔

عشق کی آتش ہے ایسی بد بلا           دے سوا معشوق کے سب کو جلا

غرض انکی وہ حالت ہوتی ہے کہ سوائے ایک کے سب کو فنا کئے ہوئے ہوتے ہیں پھر ان کو کسی کے اعتقاد و عدم اعتقاد سے کیا بحث اس لئے بلا ضرورت وہ علوم کو ظاہر نہیں کرتے ورنہ ان کے علم کی تو یہ شان ہوتی ہے جس کو مولانا فرماتے ہیں۔

بینی اندر خود علوم انبیاء            بے کتاب و بے معید و اوستا
(تم اپنے اندر بغیر کسی مددگار اور کتاب اور استاد کے انبیاء کے علوم پاؤگے)

اگر تم بھی ایسے اسرار معلوم کرنا چاہتے ہو تو اس کا یہ طریق نہیں ہے کہ ان حضرات کو پریشان کرو اور وہ کچھ بتلا بھی دیں تو اس سے کفایت نہیں ہوتی بلکہ اس کا بھی صرف یہی واحد طریق ہے جس طریق سے ان کو یہ دولت ملی یعنی خدا اور رسول کے احکام کا اتباع کرو، خدا کے برگزیدہ بنو اور اس اتباع کا صحیح طریق بزرگوں سے معلوم کرو ان کی صحبت اختیار کرو اور صحبت تو بڑی چیز ہے ان کا تو چہرہ دیکھنے سے بہت کچھ حاصل ہوجاتا ہے اور یہی صحبت اس راہ کے لئے منزل مقصود کی اول سیڑھی ہے، ان کا جلیس محروم نہیں رہتا اور اس کی برکت سے شبہات وغیرہ کافور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اسی کو فرماتے ہیں اور سچ فرماتے ہیں۔

اے لقاء تو جواب ہر سوال             مشکل از تو حل شود بے قیل و قال
(وہ ذات جس کی ملاقات ہی ہر سوال کا جواب ہے اور تجھ سے ہر مشکل بغیر قیل و قال کے حل ہو جاتی ہے)۔

مگر اس کے نافع ہونے کی ایک شرط بھی ہے وہ ضرور یاد رہے اور وہ اخلاص و اعتقاد کے ساتھ اتباع ہے اور اگر اتباع نہیں تو پھر محض صوری قرب کی بالکل ایسی مثال ہے کہ کوئی شخص طبیب کے پاس بیٹھے مگر دوا نہ کرے اور کوئی سوال کرے کہ میاں طبیب کے دوست ہو کے بیمار رہتے ہو تو یہی جواب ہوگا کہ مرض کا ازالہ محض طبیب کے پاس بیٹھنے سے تھوڑا ہی ہوسکتا ہے۔ اس کے پاس بیٹھنے سے تو نسخہ معلوم ہوجائے گا اور وہ بھی اس وقت جب کہ تم اس کے سامنے پہنچ کر اپنا سب حال کہو، باقی صحت تو نسخہ کے استعمال سے ہوگی۔ اسی استعمال نسخہ کی نسبت مولانا فرماتے ہیں۔

قتال راہگزار مسرد حال شو            پیش مدرے کملے پامال شو۔

(ملفوظ 114)سفر زیارتِ روضہ اقدس عشق و محبت کی رو سے فرض ہے

ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ بعضے غیر مقلدین بڑے ہی بے ادب ہوتے ہیں ان میں بیباکی بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے، بعضوں کو دیکھا بالکل روکھے روکھے ہر بات میں کہرا پن، چہروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ذرا ملاحت نہیں تو یہ ظاہری رنگ ہے اور باطنی رنگ یہ کہ فہم میں عمق (گہرائی) نہیں۔

اس پر ایک حکایت یاد آئی کہ ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے مکہ معظمہ میں ایک غیر مقلد عالم کی گفتگو ہوئی، حضرت نے ان سے پوچھ لیا کہ مدینہ منورہ جانے کا ارادہ ہے یا نہیں اس پر وہ نہایت خشکی سے کہنے لگے کہ مدینہ منورہ جانا کچھ فرض تو نہیں جس کا اہتمام کیا جائے۔ حضرت نے فرمایا کہ بےشک فتوے سے تو فرض نہیں مگر عشق و محبت کی رو سے تو فرض ہے۔ پھر حضرت نے فرمایا معلوم بھی ہے کہ بناء ابراہیمی تو قبلہ ہو، بناء داؤدی و سلیمانی قبلہ ہو اور حضور ﷺ کی بناء قبلہ نہ ہو، وہ ضرور قبلہ ہوتی مگر حضور ﷺ کی شانِ عبدیت کے غلبہ سے حکمت الٰہیہ نے اس کو منظور نہیں فرمایا ورنہ سب قبلے منسوخ ہو کر حضور ﷺ ہی کی بناء قبلہ ہوتی۔

اس پر کہنے لگے کہ خیر تو حضور ﷺ کی بناء یعنی مسجدِ نبوی کی زیارت کے قصد سے جانے کی فضیلت مسلّم ہےباقی قبر شریف کی زیارت کے قصد سے سفر نہ کرنا چاہئے۔ حضرت نے فرمایا کہ اس مسجد میں تو شرف حضور ﷺ ہی کے طفیل سے ہوا تو جس کی اصلی فضیلت ہو اس کا تو قصد جائز نہ ہو اور جس کی فضیلت فرعی ہو اس کا جائز ہو عجیب بات ہے۔ یہ مکالمہ طویل تھا میں نے مختصر نقل کیا ہے۔ اخیر میں وہ بالکل خاموش ہو گئے۔

زیارت قبر کے متعلق ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک شخص نے حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے سفر زیارت قبور کے متعلق سوال کیا تھا آپ نے کیسی عجیب سلامتی اور ادب کی بات فرمائی کہ اگر خود انسان احتیاط کرے یعنی خود نہ جائے مگر منع کرنے میں دوسروں پر تشدد تو نہ کرنا چاہئے. ہمارے حضرات کے اعتدال کا یہ طرز تھا افسوس پھر ان حضرات کو بدعتی بدنام کرتے ہیں کہ یہ حضور ﷺ کی تنقیص کرتے ہیں اور بزرگوں کے مخالف ہیں۔ استغفر اللہ، ایسا الزام محض جہل اور بددینی ہے جو بُری بلا ہے۔ غرض افراط اور تفریط سے دونوں طبقے خالی نہیں یعنی بدعتی اور غیر مقلدین۔

میں ایک مرتنہ قنوج گیا ہوا تھا ایک غیر مقلد نے میری دعوت کی میں نے قبول کرلی، بعض احباب نے منع کیا کہ خلافِ احتیاط ہے میں نے کہا کہ اگر ایسی کوئی بات ہوئی تو ہمارے دین کا کیا نقصان ہے اس کا دین تباہ ہوگا۔ مقصود میرے اس کہنے کا یہ ہے کہ ہم تو بلاوجہ بدگمانی کسی کی طرف نہیں کرتے اور یہ ہماری طرف بلادلیل بدگمانی اور بدزبانی دونوں کرتے ہیں، یہ کون سے دین اور عقل کی بات ہے۔

(ملفوظ 65) شکایت سے متعلق معاملہ

ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میرا معمول ہے کہ جب کوئی کسی کی شکایت لکھتا ہے تو میں اس کی تحریر کو جس کی شکایت کی ہے اس کے پاس بھیج دیتا ہوں کہ اگر وہ تکذیب کرے تو شاکی کے قول کر حجت نہیں قرار دیتا اور معاملہ ختم کردیا جاتا ہے اور اگر وہ اس کی تصدیق کرے تو پھر اس سے جواب طلب کرتا ہوں اور شریعت کا یہی حکم ہے اور اگر کوئی شکایت کے ساتھ یہ بھی لکھے کہ اس کو یہ لکھ دو تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا تمہاری تحریر اس کے پاس بھیج دوں اس طریق میں بڑی سہولت ہے۔

(ملفوظ 64)غصہ کے موقع (پر) غصہ نہ آنا

ایک صاحب کی غلطی پر مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ بزرگی کے لوازم میں سے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بزرگوں میں بے حسی (اور) بے غیرتی ہو، کسی چیز سے متاثر نہ ہوں جماد (بے جان اشیاء) کی طرح سب کے تابع رہیں۔ میں تو کہا کرتا ہوں کہ بزرگوں کو بت سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو چاہو برتاؤ کرو ان کو حس ہی نہیں ہوتی اور اس کو بے نفسی کہتے ہیں ان اغباء (غبی) کو یہ خبر نہیں کہ بے نفسی اور چیز ہے بے حسی اور چیز ہے۔ امام شافعی نے خوب فرمایا ہے کہ جس کو غصہ دلایا جائے اور اس کو غصہ نہ آئے وہ حمار (گدھا) ہے اور جس سے معذرت کی جائے اور وہ معذرت کو قبول نہ کرے وہ شیطان ہے۔ مطلب کے دونوں چیزوں سے مناثر ہونا یہ انسانیت ہے۔

بنائے سفر لاہور

ان دونوں سفروں کے بعد تیسرا سفر ہوا جو درحقیقت اہمیت رکھتا ہے – حضرت والا کو
عرصے سے معدے کی شکایت چلی جاتی تھی – جس سے غذا کم ہوگئی تھی اور جس قدر ہوتی تھی
وہ بھی ہضم نہ ہوتی تھی – چونکہ دانت اوپر کے اور بعض نیچے کے ٹوٹ گئے تھے اس لئے خیال
ہوا کہ شاید غذا پورے طور پر چبتی نہ ہو اور اس وجہ سے ہضم میں فتور ہو کر معدہ خراب ہوگیا
ہو – دانت بنوانے کا خیال ہوا – حضرت والا کے مخلص خادم ڈاکڑ عیزیز احمد جلال الدین
صاحب جو اس فن میں مہارت تامہ اور نہایت کمال رکھتے ہیں اور لاہور میں ایک مشہور و
تجربہ کار دندان ساز ہیں ان سے دانت بنوالے کا ارادہ ظاہر فرمایا – ڈاکٹر صاحب نے عرض
کیا کہ میرے لئے یہ خدمت باعث سعادت وخوش قسمتی ہے اور اگرچہ دانت بنانے کے
لئے جن آلات اور مشینوں کی ضرورت ہوگی وہ تھوڑی سی وقت سے تھانہ بھون میں بھی لائی
جاسکتی ہیں لیکن ان میں بجلی سے کام لیاجاتا ہے اور تھانہ بھون نیں بجلی ہونے کے باوجود
حضور کے یہاں بجلی کی فٹنگ نہیں نیز لاہور سے تمام سامان کا لانا بھی مشکل ہے اور اگر
لایا بھی گیا پھر بھی طور پر سے کل ضرویات پوری نہ ہوسکیں گی اور وہ سہولتیں جو وہاں ممکن ہیں تھانہ بھون میں بہم نہ ہوسکیں گی – اگر کسی وقت حضور والا لاہور کا سفر فرمائیں تو سب
سے بہتر ہوگا – دانت بننے کے ولاعہ میرے لئے باعث برکت ہوگا – اور حقیقت تویہ ہے کہ
حضور کی غیور اور با اصول طبیعت ہی نے یہ گوارا نہیں فرمایا کہ اپنے ذاتی کام کے لئے
دوسروں کو تکلیف دی جائے بکلہ یہ طے فرمایا کہ مجھے خود وہاں جانا اور کل خرچ برداشت کرنا
چاہیئے یہاں تک کہ کھانے کا صرف اور دانتوں کی اصل لاگت بھی میرے ہی ذمہ ہو اس
خیال کی بناء پر حضور نے وہاں تشریف لے جانا منظور فرمایا لیکن اس خیال وگفتگو کو دو سال
ہوگئے چونکہ ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر ہے اور بغیر اس وقت کے کام کا ہونا غیر ممکن
اب دو سال کے بعد وہ وقت آگیا اور سفر کی تیاریاں ہونے لگیں –

سفرسہارنپور

پہلا سفر غالبا ذی قعدہ 1353 ھ اور دوسرا 18 جمادی الاخریٰ 1354 ھ کو سہارنپور تک ہوا ان
دونوں سفروں کی غرض یہ تھی کہ حضرت کے بڑے بھانجے مولوی سعید احمد صاحب مرحوم کی
صاحبزادی جو جناب چھوٹی پیرانی صاحبہ مدظہلا کے بطن سے ہیں اور جواب گویا حضرت والا ہی کی
صاحبزادی ہیں اور حضرت والا پر ان کے حقوق پدرانہ و بگتگانہ ہیں مولوی جمیل احمد صاحب
مدرس مدرسہ مظاہر العلوم سہانپور سے منسوب ہیں ان کو ایک مرتبہ سفر حج کے سلسلے میں سہارنپور
تک پہنچانے کے لئے اور دوسری مرتبہ سہارنپور سے لانے کے لئے صرف ان کی خاطر سے
بغایت شفقت و محبت تکلیف گوارا فرمائی – یہ دونوں مختصر اتفاقی اور فوری سفر اس طرح شروع اور ختم
ہوئے صھب عادت گرامی ان سفروں میں رموز معرفت اسرار حقیقت اور نکات طریقت کی
گہرباری ہوئی اور خوش قسمتوں نے دامن مراد کامیابی کے موتیوں سے بھر لئے –

ار مغان جاوداں

1357 ھ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمد و نصلی علیٰ حبیبہ الکریم
یوں تو ہر سفر کی کوئی غرض و غایت ضرور ہوتی ہے لیکن اصل سفر تو اہل اللہ کا سفر ہے جو
اگرچہ بظاہر کسی دینوی ضرورت ہی سے جائے مگر جہاں ان کے بابرکت قدم جاتے ہیں
بغیر ان کے اہتمام یا ارادے کے خدا کی رحمتیں ساتھ ساتھ ہوتی ہیں انوار الہیٰ کا ظہور ہوتا
ہے فیوض و برکات نمایاں ہوتے ہیں رشد و ہدایت کی شمعیں روشن ہوجاتی ہیں حقائق
و معارف کی بارش ہونے لگتی ہے اور ہر نشنہ کام معرفت کو اس کی استعداد اور طلب کے
موافق اس خذانہ معرفت سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور مل جاتا ہے –
ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا اب بھی دیکھنے والے بکثرت موجود ہیں – اب سے پندرہ برس
کچھ کم و بئش پہلے بزرگان دین کی کافی تعداد موجود تھی – مشائخ کرام کی برکتوں سے
ہندوستان خصوصیت کے ساتھ فائز المرام ہو رہا تھا علماء و فضلاء کے اثرات پورے طور سے
پھیلے ہوئے تھے – کفر و ضلالت کی قوتیں دبی ہوئی تھیں لیکن اب وہ دور نہیں رہا زمانے نے
کروٹیں بدلیں خیالات نے پلٹا کھایا اور وہی دین مبین جس کے آثار آفتاب سے زیادہ
درخشاں اور تاباں نظر آتے تھے آج دھند لے نظر آرہے ہیں اولیاء اللہ نے دنیا سے پردہ کرلیا
خدا کے خاص بر گزیدہ اور مقبول بندوں نے اس جہان فانی کو چھوڑ دیا مسجدیں خالی خانقاہ
سونی حجرے ویران آج اگر ڈھونڈا جائے تو مبشکل چند ایسے مقدس نفوس مل سکیں گے جن کا
ہر لمحہ خدا کی رضا کے واسطے صرف ہوتا ہو اور جن کی ہر ساعت خدمت دین کے لئے وقف ہو –

میری انہیں آنکھوں نے بہت کچھ دیکھا بڑی بڑی مقدس ہستیوں کی زیارت کی اور آج
بھی نظریں ان با برکت مناظر اور ان با فیض ہستیوں کو ڈھونڈ رہی ہیں ویرانی بے اثرے اور
آزادی دکھائی دیتی ہے دین سے بے پروائی کم تو جہی بلکہ بیزاری ہر طرف موجود ہے دلوں
میں مذہب کی وہ عزت اور وہ وقار جو پہلے تھا آج نہیں نہ وہ اہتمام نہ وہ انہماک بے شرمی بے
حیائی بے غیرتی بے باکی ہر سمت پھیلی ہوئی ہے – کشتی بھنور میں ہے اور نا خدا ملتا نہیں – لیکن
خداوندی وعدوں پر یقین رکھنے والا مسلم گھبراتا نہیں – لا تقنطوا من رحمتہ اللہ کی آمید
افزا آیت اس کو یاد آجاتی ہے – ایک غیبی آواز سنتا ہے گھبرا نہیں نا خدا موجود ہے – اس کا
دامن تھام اس کا وسیلہ حاصل کرنا کہاں ضلع مظفر نگر کا مشہور قصبہ تھانہ بھون – اپنی ململ تابشیں
دکھاتا ہوا نظر پڑتا ہے – اور خانقاہ امدادیہ اپنے تمام جلوؤں اور انوار و برکات کے ساتھ نمودار
ہوجاتی ہے اور اس میں وہ خاخدا جس کی طرف اشارہ کیا گیا تھا دستگیری کے لئے آمادہ مستعد
پایاجاتا ہے – آفتاب کی طرح منورہ چہرے پر رعب و سطوت اور جلالت و جبروت جلوہ فگن
آنکھیں حقیقت و معرفت کے انوار سے ضیا بار نظریں مصروف کشش پیشانی جگمگاتی ہوئی –
دماغ میں طاعت حق اور خدمت خلق کے خیالات مجتمع دل خدا اور اس کے حبیب کی محبت
سے سرشار سینہ میں ہیبت و خشیت الہٰی کا خزینہ رگ رگ میں تجلیات باری کی بجلیاں دوڑتی
ہوئی – دست مبارک ہر وقت دعا کے لئے آمادہ تمام جسم پیکر نور بنا ہوا – ستتر اٹہتر سال حیان
ظاہری کی منزلیں طے کئے ہوئے ارادوں میں کامیابی کے آثار مقاصد میں تکمیل کی لہر ہمت
واستقلال جلو میں قوت و نصرت علمبر دار فضل و رحمت باری سایہ کئے ہوئے امداد الہٰی کی بے
پناہ طاقیتں ساتھ ساتھ اس طرح اور اس شان سے اس نا خدائے سفینہ اسلام ملجا و ماواے نام
محی سنت حامی شریعت سالک مسالک طریقت و معرفت قامع بدعت و ضلالت مصلح
القلوب ولا رواح صاحب الفلاح والافلاح مجدد المنت حیکم الامت مرشد زمانہ شیخ یگانہ
مقبول بارگاہ قادر قوی حضرت مولانا حاجی حافظ قاری شاہ محمد اشرف علی صاحب فاروقی حنفی
تھانوی ادام اللہ برکاتہم و فیوضہم کا جلوہ زیبا کھایا جاتا ہے

زفرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا ست
مشاہدات
اللہ اللہ یہ مقدر حاضر ہوں میں آیسے آستاں پر
کاشانۃ فیض جس کو کہئے خمخانۃ فیض جس کو کہئے
ہر سمت سے رند آرہے ہیں قسمت سب آزمارہے ہیں
ہر وقت ہے خاطر و مدارات میخانہ کھلا ہوا ہے دن رات
انوار حقیقت اس میں شامل اللہ کی رحمت اس میں شامل
جلوہ افروز ذات اس میں ضوبار ہیں کل صفات اس میں
ہے طرفہ فضا عجب ہے عالم مے ہے کہچھلک رہی ہے ہر دم
ہر لحظہ ہے دور جام عرفاں صبح عرفان ہے سان عرفان
ہر رنگ نیا نیا سماں ہے شیشوں میں حیات جادواں ہے
پیمانوں میں روح عجز وایثار زہاد سے بڑھ گئے ہیں میخوار
ہر ظرف میں بادۃ شریعت ہر قطرے میں جلوۃ طریقت
ابھرے ہوئے سادگی کے جوہر گردش میں وہی قدیم ساغر
ہے غیرت آفتاب ہر جام مے نوش ہیں اور جام پر جام
انگڑائیاں لے رہی ہیں موجیں صہبا میں یہ نور کی ہیں موجیں
اس مے کو مے طہور کہئے یا شعلہ برق طور کہئے
اس مے سے ہے مست آج ہر ایک توحید پرست آج ہر ایک
مستون کو ہے ذکر و شغل سے کام کیسا آرام کس کا آرام
ہر رند یہاں کا پارسا ہے ذرہ ذرہ خدا نما ہے
تقوی کی چہل پہل یہاں ہے مقصود فطق عمل یہاں ہے

شہرت کا یہاں وجود مفقود ذکر نام و نمود مفقود
دنیا سے جدا یہ سر زمیں ہے کبر و نخوت یہاں نہیں ہے
کوئی بھی نہیں یہاں مقرب مصروف ہیں اپنے کام میں سب
ہو کر مایوس ہر جگہ سے آتے ہیں مریض ہر طرح کے
تشخیص کا ہے نیا جگہ سے آتے ہیں مریض ہر طرح کے
تشخیص کا ہے نیا طریقہ بے مثل علاج کا طریقہ
ملتی ہے یہاں دلوں کو راحت پاتا ہے ہر ایک مریض صحت
تدبیر نئی دوا نئی ہے اصلاح قلوب ہو رہی ہے
ناز اور نیاز سب یہاں ہے کہتے ہیں جسے ادب یہاں ہے
آئین بتائے جارہے ہیں آداب سکھائے جارہے ہیں
ہوتی ہے رضائے حق کو تعلیم ہر کام بصد اصول و تنظیم
تعلیم میں تربیت ہے شامل اللہ کی معرفت ہے شامل
تعلیم کا طرز ہی نیا ہے ہر اک کی تربیت جدا ہے
بعضوں سے تخاطب و تکلم اس طرح نوازش و ترحم
بعضوں کو یہی امور ممنوع ہر شائبہ غرور ممنوع
تادیب اصول کے مطابق تجویز مزاج کے موافق
لطف اور کرم بھی ساتھ ہی ساتھ تیار دعا کے واسطے ہاتھ
مجلس کا یہاں کی پوچھنا کیا مجلس ہے کہ فیض کا ہے دریا
انوار کا وہ ہجوم اس میں وہ ضو افشاں علوم اس میں
ہٹتا ہے یہاں خدا کا انعام ملفوظ کی شکل میں ہے الہام
ملفوظ کی شان اللہ اللہ پر کیف بیان اللہ اللہ
ہر لفظ میں ہیں ہزار نکتے ہر نکتے میں بے شمار نکتے
اس حسن مقال کی کسے تاب مجلس ہے کہ ہو رہی ہے بیتاب
چھائی ہوئی چار سو تجکی اٹھتے ہی نگاہ برق چمکی

اب ہوش کہاں حواس کیسے صدقے ان ساعتوں کے صدقے
ایں مجلس فیض بالقین است دربار ولی حق ہمین است
اللہ ری بخشش و عنایت دارین کی بٹ رہی ہے دولت
کہہ دے کوئی طالبان حق سے بھرلیں وہ جیب و دامن اپنے
لے لیں لے لیں طلب ہو جتنی ایسی دولت نہ پھر ملے گی
ساقی کا ہے فیض عال جاری ہہے دور سبود جام جاری
بادہ اس کی نگاہ بادہ بردوش جو ہے وہ یہاں ہے مست و مدہوش
میخانے کا کل نظام مدہوش ساغر مدہوش جام مدہوش
مے مست ہے مے کی آرزو مست پیمانہ شیشہ و سیو مست
ہر جلوہ و جلوہ گاہ مدہوش سجادہ و خانقاہ مدہوش
جزبان کشش دعا اثر مست نظارہ و ناظر و نظر مست
گلزار و گل و بہاں مدہوش مستی بیخوذ خماز مدہوش
بیخود ہر کوہ محو صحرا موجیں مدہوش مست دریا
بیخود افلاک ہیں زمین مست سجدہ مدہوش ہے جبین مست
مدہوش وجود دو جہاں مست کل کون ومکان ولا مکان مست
یہ کس کی نگاہ کا اثر ہے ؟ ساقی ہے کون کچھ خبر ہے ؟
وہ بیخود و محو و مست ساقی سر شار مے الست باقی
وہ اشرف اولیائے درواں وہ صدر نشین بزم عرفاں
وہ زینت مسند شریعت وہ بادی منزل طریقت
وہ نائب خاتم النبین وہ صاحب عز وجاہ و تمکین
جام وحدت پلانے والا بدعات کا وہ مٹانے والا
قانع اللہ کی رضا پر حاضر ارشاد مصطفیٰ پر
وہ حامی دیں امین سنت وہ غوث زماں حکیم امت

وہ کون ؟ مجدد زمانہ وہ کون ؟ محدث ہگانہ
اللہ اللہ شان کیا ہے جس نے یہ کہا ہے سچ کہا ہے
خاصان خدا خدا نباشند لیکن زخدا جدا نباشند
ہاں ایک نظر ادھر ساقی
کچھ مہر غلام پر بھی ساقی
اب تو اپنا سے بنا لے اس کی ہستی ترے حوالے
میخانے میں جس قدر ہو مے دے صدقے ان انکھڑیوں کے صدقے
منہ مانگی مراد وصل پائے محروم نہ تیرے در سے جائے
بہ طالب عزت غلامی مقبول حسیش ہگرامی
در پہ تیری پڑا ہوا ہے تیرا صدقہ وہ مانگتا ہے
دے دے کچھ بھیک اس کو دیدے جاگے اس کا نصیب جاگے
گلزار امید میں کھلیں پھول مقبول ہو عرض وصل مقبول
یہ دور یہ ملیدہ تک
اےتھانہ بھون تجھے مبارک
خانقاہ امدادیہ
جو پہلے حضرات اقطاب ثلاثہ شیخ المشائخ قطب الاقطاب غوث وقت حضرت
حاجی شاہ امداد اللہ صاحب تھانوی مہاجر مکی سلطان العارفین سراج السالکین حضرت حافظ
محمد ضامن صاحب شہید تھانوی اور افضل الفضلا اکمل الکملا حضرت مولانا شیخ
محمد صاحب محدث تھانوی قدس سرہ اسرار ہم ونور اللہ مرقد ہم خلفائے سرجات اولیاء شہنشاہ
اصفیاء مخدوم محترم الاتقیاء حضرت میں جی نور محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی ایک جگہ
مخلتف حجروں میں قیام کی وجہ سے دکان معرفت کہلاتی تھیں اس کی وہ متبرک سہ دری اور وہ
مخصوص پر انوار و برکات حجرے جن میں خصوصیت کے ساتھ حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ

علیہ کی ایسی مقدس ترین ہستی رونق افروز تھی جن میں بڑی بڑی عبادتیں ریاضتیں اور
مجاہدات کئے تھے آج بھی روز افزوں ترقیوں کے ساتھ گوناگوں تجلیات سے معمور ہیں –
خانقاہ شریف کا ذرہ ذرہ آفتاب عالمتاب بنا ہوا ضیا باری کر رہا ہے حقیقت و معرفت کی شمع
آج بھی روشن ہے اور شریعت و طریقت کا ناپیدا کنار سمندر آج بھی یہاں لہریں لے رہا
ہے طالبان معرفت آتے اور سیراب ہو کر چلے جاتے ہیں شمع کے گر پرانوں کا ہجوم ایک
عجیب نظارہ ہے آنے والے کسی وضع قطع کے ہوں ان سے بھی کوئی خشگی نہیں برقی جاتی
لیکن زیادہ وقت نہیں گزرنے پاتا وہ بھی اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں وہ بھی شریعت و
طریقت کے دیوانے نظر آتے ہیں – ان کو بھی رضائے خداوندی کی دھن ہوجاتی ہے اور وہ
بھی عرفان کی منزلوں کو طے کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں نہ ان سے کچھ تعرض کیا جاتا ہے نہ
ان کو بطور خطاب خاص کچھ کہا جاتا ہے – صرف ایسی گرامی صحبت کے وہ بابرکت لمحات جو
بغیر اثر کئے ہوئے نہیں رہ سکتے کارفرمائی کرتے ہیں – میر مجلس کا جاذب نظر وہ پر اخلاص عمل
اور حاضرین کا حسن اعتقاد و ذوق اتباع یہی وہ چیزیں ہیں جو افعال واعمال کیا طبائع میں
انقلاب پیدا کردیتی ہیں ہر قول مین صدق ہر عمل میں حقانیت ظاہر وہ باطن میں خلوص میتیں
پاک ارادے نیک اور ہر ہر قدم پر صراط مستقیم پر چلنے کی خواہش یہی انداز اپناوالہ وشیدا بنا
لیتے ہیں یہی وہ باتیں ہیں جن پر دنیا مٹی ہوئی ہے –
جس برگزیدہ ہستی کی ہر ساعت اعلامے کلمۃ الحق میں گزری ہو جس کا ہر نفس احیائے سنت
اور تبلغ شریعت میں صرف ہوا ہو جس کی ساڑھے سات سو سے زیادہ تالیفات و تصنیفات سے
ایک عالم فیضیاب ہو رہا ہو- اس کی کدمت کا کیا اندازہ اور شمار ہوسکتا ہے – یہی نہیں جس نے
اپنی عمر گرامی کا بہت بڑا حصہ درس و تدریس لے علاوہ مواعظ وپبد نصائح ارشاد وہدایت اصلاح
نفوس و قلوب میں گزار ہو کیا ایسی مثال آسانی سے مل سکتی ہے جس نے مشرق و مغرب شمال و
جنوب ہندوستان کے اطراف و جوانب میں خود جاکر جام شریعت اور ساغر معرفت سے جانے
کتنوں کو متوالا بنایا ہو ایسے ساقی کی کہیں نظیر ہائی جاسکتی ہے جو اس کبر سنی میں بھی تعلین و تلقین
کے لئے ہر وقت مستعد اور مریضان معصیت کی مسیحائی کے لئے ہر لحظہ تیار ہوا یسےعارف ایسے

ہادی ایسے رہبر ایسے محسن معالج اور ایسے حکیم کا ثانی کہیں مل سکتا ہے
ز سرتا ناخن پایت سراسر نازمی بینم کجا حد ست حسنت راہنوز آغازمی بینم
حضرت والا کے اسفار
حضرت والا کے بے شمار سفروں میں سے پہلا سفر 1301 ھ میں شروع ہوا اور اخیر سفر
غالبا 1343 ھ میں ختم ہوا – جن لوگوں نے حضرت والا کے سفر کی حالت دیکھی ہے سفر میں
حضرت والا کے ساتھ رہے ہیں ان سے حضرت والا اصول سفر پوچھئے آئین و قواعد
دریافت کیجئے – معمول سے معلولی باتوں پر خیال کہ کوئی امر خلاف شریعت نہ ہو اس کی
حالت وہی بناسکتے ہیں – سفر میں حضرت اقدس کے فیوض و برکات کی کیفیت دیکھنے والے
آج بھی بکثرت موجود ہیں ان کے مشاہدات آج بھی شہادت دے سکتے ہیں –
ایک زمانہ میں اس خادم کو بھی خوش قسمتی سے ہر دوئی سے لکنؤ – کانپور سے قنوج قنوج
سے تھانہ بھون تھانہ بھون سے دہلی گورکھ پور سے لکھنو حضرت والا کے ہمرا سفر کرنے
اور خدمت میں رینے کی سعادت حاصل ہوئی – کچھ نہیں کہہ سکتا کیا دیکھا کیا پایا یہ وہ
چیزیں ہیں جو بیان میں آہی نہیں سکتیں – بس من کم یذق لم یدر کا مصداق ہے
کیا کہوں میں کہ میں نے کیا دیکھا کیا بتاؤں کہ میں نے کیا پایا
میں نے دیکھا سفینئہ اسلام میں نے قسمت نسے ناخدا پایا
میں نے دیکھا جمال پر انوار میں نے آنکھیں کو پر ضیا پایا
میں نے دیکھا جو دیکھنا تھا مجھے میں نے جو کچھ تھا مدعا پایا
میں نے دیکھا فزوں توقع سے میں نے امید سے سوا پایا
میں نے دیکھا فزوں توقع سے میں نے امید سے سوا پایا
ترک سفر
شوال 1334 ھ کے بعد سے حضرت والا نے سخت مجبوریوں کبر سنی اور ضعف کے
باعث ترک سفر کا مصمم عزم فرمالیا اور کسی صورت میں کسی کی درخواست منظور نہیں فرمائی –
لیکن پھر بھی اپنی ذاتی ضروتوں اور اپنی وجہ سے دوسروں کو تکلیف سے بچانے کے لئے چار
مرتبہ سفر کی زحمت گوارا کرنا پڑی –

مقدمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حامدا و مصلیا
التماس آشفتہ حال
1357 ھ
رازے کہ بر خلق نہفتیم و نلتقیم با دوست بگوئیم کہ او محرم راز ست
اے مجلسیاں ! سوز دل حافط مسکین از شمع پیر سید کہ در سوذ و گدازست
مجھ میں آشفتہ حالی اور بیقراری کیوں ؟ سینے مین سوزش جگر میں ٹیس اور دل میں
بیتابی واضطراب کس سبب سے ہے ؟ خود میری سمجھ میں نہیں آتا – کیا بتاؤں – کیا جواب
دوں – ہر غیر کی صحبت سے پریشانی پیدا ہوجاتی ہے – کسی دوسرے کے ذکر سے طبیعت
گھبرانے لگتی ہے – ہر وقت یہی تمنا کہ اس کے پاس بیٹھو جو اپنے ساقی کا ذکر کرتا ہو – ہر لمحہ
یہی آرزو کہ اپنے ہم مشرب رندوں کے سوا دوسروں سے بات بھی نہ کروں – اس بزم میں
حاضر رہو جہاں اپنا ساقی قاسی گرمی کرتا ہو – سر میں یہی سودا کہ ہر وقت اپنے ہی ساتھی کا
تذکرہ ہو – آنکھیں ڈھونٹی ہیں تو میخانہ امدادیہ کے انوار و برکات کو نظروں کو تجسس ہے تو

تھانہ بھون کے درخشاں ذرات کی تابش کی کان سننا چاہتے ہیں تو ان پر اثر الفاظ اور پر کیف
کلمات کو جو ساقی بادۃ الست کے لب و دہب سے نکلے ہوئے ہوں – قوت شامہ کو ہوس ہے تو
صرف اس پھول کی خوشبو کی جو گلستان شریعت میں مہک کر تما عالم کو مست و بیخود بنا رہا ہو –
ہاتھ ان مبارک ہاتھوں کے جو یا ہیں جن کے زریعے کبھی کوئی عہدہ و پیمان لیا گیا تھا – پاؤں
اس منزل کی طرف چلنا چاہتے ہیں جو میرے ساقی کی بناتی اور دکھائی ہوئی ہو خیالات متحمل
ہیں تو ایسے مالک بہار عالم حسن کے تصور کے جس کے لئے کہا گہا ہے
بہار عالم حسنش دل و جاں تازہ می دارد
برنگ اصحاب صورت رابہ بوار باب معنی را
مجھے نہیں معلوم کیا ہوگیا ہے سودائی ہوگیا ہوں یا بنادیا گیا ہوں – کسی وقت چین نہیں
سکون نہیں تمام جسم میں آگ لگی ہوئی ہے یا لگادی گئی ہے کسی طرح نہیں بجھتی بلکہ میں دیکھتا
ہوں کہ روز بروز تیز ہوتی جاتی ہے – جبان مجذوب
سے سوختہ جان ! پھونک دیا کیا مرے دل میں
ہے شعلہ زن اک آگ کا دریا مرے دل میں
اب تو یہ حالت ہے کہ اگر چند دن کے لئے تھانہ بھون سے باہر جاتا ہوں تو اپنے قابو
میں نہیں رہتا چاہتاہوں کہ ہر گھڑی یہیں بسر ہو اور ہر پل خدمت ساقی میں گزرے ساقی کا
جادہ جہاں آرا سامنے ہو اور دور چل رہا ہو –
ابھی زمانہ نہیں گزرا یہی عالم تھا – دیوانگی نے بڑھنا شروع کیا تھا کہ پنجشنبہ 13 جمادی الاخریٰ
1357 ھ مطابق 11 اگست 1938 ء کو میرے ساقی – میرے آقا – میرے مولا – میرے ہادی
میرے رہبر – میرے حامی میرے یارو شیخ الشیوخ عالم فیوض و برکات مجسم – قطب یگانہ –
غوث زمانہ حضرت حکیم الامت سراپا رحمت مولانا حاجی حافظ قاری شاہ محمد اشرف علی صاحب
تھانوی مدظہلم اللہ قوی بغرض علاج رونق افروز لکھنو ہوئے – علاج شروع ہوا – بحمد اللہ مرض
میں بھی افاقہ ہوا – طاقت بھی آنے لگی – قیام گاہ پر بے تکلف اصحاب کو حاضری کی بھی اجازت
دے دی گئی ٓ پھر مسجد خواص کے حجرے کے پاس نشست بھی ہونے لگی – مفلوظات کا سلسلہ بھی

 

جاری ہوا – معارف و حقائق کی بارش ہو رہی تھی فیوض و برکات کا دریا موجزن تھا کہ میرے دل
نے مجبور کیا اور میں نے ارادہ کرلیا جس طرح بھی ہو زمانہ قیام لکھنؤ کے ملفوظات قلمبند ہو
جائیں گے – اور خدا بزرگ و بر تر نے توفیق دی اور اس کی مدد شامل ھال ہوئی تو طبع کرا کر
شائع بھی کردیئے جائیں گے – تاکہ خلق اللہ کو ان سے فائدہ پہنچے – دور افتادہ تشنہ کاموں کو جام
فیوض کا ہدیہ بھیجا جائے اور حضوری سے معذور بیقراروں کے لئے مایہ تسکین فراہم کیا جائے –
چنانچہ اسی دھن میں میں نے اپنے سرکار مدظلہم العالی سے اجازت حاصل کی – مولوی جمیل احمد
صاحب تھانوی سے اپنی تمنا ظاہر کی – ممدوح نے اپنے لطف و کرم سے خود اس کام کی انجام دہی
کا ذمہ لیا – لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ایک اور شخص بھی ہونا چاہئے جو میری عدم موجودگی
میں اس کو جاری رکھے – کیونکہ میں ہر وقت موجود بھی نہیں رہ سکتا – اس کو سن کر میں نے عزیزی
مولوی حافظ ابرار الحق سلمہ ابن جناب مولوی محمدود الحق صاحب بی اے ایل ایل بی ایڈوکیٹ
ہر دوئی و مجاز صحبت حضرت اقدس مدظہلم العالی کے سپرد یہ خدمت کی انہوں نے طیب خاطر
اس کو منظور کر لیا – بلکہ باعث برکت و سعادت سمجھا اور اس طرھ جو ملفوظات قلبند ہوسکے ان کا
ایک اچھا خاصہ مجموعہ تیار ہوگیا لیکن اس کی ضرورت تھی کہ حضرت اقدس کے ملا حظہ سے گزر
جائے – اس لئے یہ مجموعہ میں میں نے تھانہ بھون کی واپسی کے بعد حضرت اقدس کے حضور میں
ملا حظہ کی مؤدبانہ درخواست کے ساتھ پیش کردیا – حضرت والا نے سر سری نظر سے ملا حظہ فرماکر
ارشاد فرمایا کہ مولوی جمیل احمد کے قلمبند کردہ ملفوظات کی تصحیح تو آسان ہے لیکن مولوی ابرار الحق
کے لکھئے ہوئے ملفوظات کی صحت دشوار ہے – انہوں نے میرے الفاظ کو نقل نہیں کیا – یادواشت
لکھ کر میری گفتگو کو بطور روایت بالمعنیٰ کے اپنی عبارت میں لکھا ہے اور سی وجہ سے الفاظ
مطلب واقعہ غرض وغایت سب میں کچھ فرق آگیا – میرے لئے اس ضعف میں نئے سرے
سے دماغ پر زور ڈال کر واقعے کو سوچنا اور لکھنا غیر ممکن ہے – اس کے معلوم ہونے پر جس قدر
مجھے پریشانی ہوئی وہ بیان میں ہیں آسکتی – خدا وند تعالیٰ بڑے کریم وکار ساز ہیں – دیکھتا کیا
ہوں کہ محترمی جناب مولوی اسعد اللہ صاحب مدرس مدرسہ مظاہر العلوم سہانپور و مجاز طریقت
حضرت اقدس مدظلہم العالیٰ تشریف لا رہے ہیں – معلوم ہوا کہ پورا رمضان المبارک کا مہینہ

تھانہ بھون ہی میں ختم ہوگا – عید کی نماز پڑھ کر واپس جائیں گے – ان سے مولوی ابرار الحق
سلمہ کے تحریر کردہ ملفوظات کی کوتاہیں بتا کر تکمیل کی استدعا کی – اور موصوف نے انتہائی محبت و
مسرت کیساتگ اس کو قبول و منظور فرمایا اور خاص توجہ و کوشش کے ساتھ ان کی تحریر کو بغور ملاحظہ کر
کے جا بجا صاحب ملفوظ سے تحقیق کر کے درست کیا مربوط اور صاف کر کے تمام خامیوں کو نکال
کر رمضان شریف کے اندر ہی مجھے دیدئے – خدا کا شکر ہے کہ حضرت والا نے ان کو پسند فرما
لیا اور اس طرح میری دعا مقبول اور رتمنا کامیاب ہوگئی –
میں چاہتا تھا کہ ملفوظات کی صحت ہوجائے اور یہ فورا طبع کرا کے شائع کردیئے جائیں –
حضرت اقدس نے میری بے تابی کی حالت ملا حظہ فرما کر جلد سے جلد نظر اصلاحی کے کام کو ختم
فرمادیا اور اپنی کاص شفقت سے جامع کے ناموں کی مناسبت پر غور فرماتے ہوئے مولوی جمیل
احمد صاحب کے جمع کردہ ملفوظات کا نام جمیل الکلام اور مولوی ابرار الحق سلمہ کے جمع کردہ
ملفوظات کا پہلا نام نزول الابرار اور جناب مولوی اسعد اللہ صاحب کی تصیح کے بعد دونوں جامع
کے ناموں کی رعایت سے دوسرا اخیر نام اسعد الا برار تجویز فرمایا –
اسی گزشتہ رمضان المبارک میں میں بھی برابر حاضر تھانہ بھون رہا – میں نے ارادہ کیا کہ
ان ملفوظات کے شروع میں مختصر سادیباچہ لکھ کر شامل کردوں جس میں لکھنو کے سفر کا ضمنا
ٹزکرہ بھی ہو – لیکن جس وقت لکھنے بیٹھا ہوں تو اس وقت کچھ حالات ہی اور ہوگئی – لکھنو کے
سفر کے ساتھ ایک اور سفر کا خیال آگیا وہ لاہور کا سفر تھا – جو لکھنو کے سفر سے پہلے قریب تر
زمانے میں ہوا تھا – دل میں ایک جوش پیدا ہوگیا کہ کسی طرح وہاں کے حالات معلوم ہوں
اور دیباچے میں ان کا بھی اضافہ ہوجائے –
دور چلے دور چلے ساقیا اور چلے اور چلے ساقیا
تمنا تو یہ تھی کہ تمام عمر اور عمر کی ہر ساعت اپنے آقا ہی کا تذکرہ لکھتا رہوں – مخلتف عنوان
سے اس کا ذکر کیا جایا کرے زبان سے اپنے آقا ہی کا بیان ہو – اور تحریر میں اپنے آقاہی
کے مناقب و فضائل ہوں – اپنے آقا ہی کا تصور رہے – اور اپنے آقا ہی کی دھن – وہ کون
آقا جس جس کےحسن کی خوبیوں کا تحریر میں لانا آسان کام نہیں اور حسن بھی کیسا حسن خداداد ۔

دلفریبان نباتی ہمہ زیور بستند دلبر ماست کہ با حسن خدادا آمد
میں نے بسم اللہ کہہ کر سفر لاہور کے حالات دریافت کرنا شروع کئے – اتفاق وقت اور
میری خوش قسمتی سے مخدومی جناب مولانا خیر محمد صاحب جالندھری محترمی جناب مولوی محمد
حسن صاحب امر تسری مکرمی جناب حیکم عبد الخالق صاحب امر تسری مشفقی جناب مولوی ظہور
الحسن صاحب عطونی جناب مولوی اسعد اللہ صاحب مدرسین مدرسہ مظاہر العلوم سہانپور
( کہ ان حضرات نے اس سفر کے حالات کا مشاہدہ فرمایا تھا ) اسی رمجان المبارک میں
تشریف لے ائے اور میرے ممدو مواعن ہوئے – میں نے اپنی پوری جدوجہد سے ان سے
سوالات پر سوالا کر کے حالات دریافت کئے ان سے یادواشت لکھوئی اور اس طرح
سفر نامے کے لئے کافی مواد فراہم کرلیا – حضرت اقدس کے ناسازی مزاج کے حالات آغاذ
اور بہت کچھ سفر لاہور کے متعلق واقعات کے لکھنے میں مخدومی جناب مولوی شبیر علی صاحب
نے میری امداد فرمائی – سفر لکھنو کے حالات کے سلسلے میں بہت سی یاد دوشتیں جناب مولوی
اجمل احمد صاحب تھانوی سے حاصل ہوئیں اور با وجود اس کے کہ میں نے اس سفر نامہ کو بہت
مختصر کرنا چاہا میرے ذوق میرے جزبات اور میرے طبعی جوش کی وجہ سے وہ ایک اچھا خاصہ
رسالہ ہوگیا – میں تو چاہتا تھا ہر ادائے حسن کو ظاہر کردوں مگر اس کی بھلا کس کو قدرت تھی –
گر مصور صورت آن دلستان خواہد کشیدہ لیک حیرانم کہ نازش راچساں خواہد کشید
اور سچ تو یہ ہے کہ کس کس چیز کو ظاہر کرتا
خوبی ہمیں کرشمہ و ناز خرام نیست بیسار شیوہ ہاست بتاں راکہ نام نیست
روحی فداہ
آفا قہا گردیدہ ام مہر بتاں ور زیدہ ام بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری
یہ ذکر اور تذکرہ تو ایسا تھا کہ تمام عمر لکھتا اور تمام نہ ہوتا – خیر خدا تبارک و تعالیٰ کا ہزار
ہزار شکر ہے کہ اس نے اس قدر ذخیرہ فراہم کردیا جو میرے لئے موجب صد افتخار ہے ورنہ کہاں
مجھ سا بے بضاعت اور کہاں حضرت حیکم الامت مدظلہم العالیٰ کے سفر کے حالات کا جمع کرنا
کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل نسیم صبح ! تیری مہربانی

ملفوظات کی طرح اس سفر نامے کو بھی میں نے آپنے آقا کے حجور میں پیش کردیا وہاں
سے اس کا مسودہ خلعت صحت کے ساتھ واپس عطا ہوا – اس کے بعد احتیاطا میں نے وہی
مسودہ اپنے محترم سراپا لطف و کرم جنان خان بہادر خواجہ عزیز الحسن صاحب غوری بی اے
انسپکڑ مدارس آلٰہ آباد مؤلف اشرف السوالخ کی خدمت میں بھیج دیا – وہاں سے بھی نظر ثانی
سے مزین ہو کر میرے پاس آگیا – اب میں حضرت اقدس کی منظوری کے بعد اس کو
ارمغان جادواں کے تاریخی نام سے موسوم کرتا ہوں – اور حضرت اقدس کی غایت شفقت
و تجویز گرامی سے ان ہرسہ اجزا یعنی ارمغان جادواں جمیل الکلام اور اسعد لا برار کے مجموعہ کا
نام الاسفار عن برکات بعض الاسفار ملقب بہ الفصل للوصل قرار پایا ہے جو لوح پر زینت
و برکت کے لئے درج کردیا گیا ہے – علاوہ اس کے جب یہ خیال تھا کہ صرف لکھنؤ کے سفر
کے حالات جمع کئے جائیں اس وقت اس مجموعہ کا نام بہار لکھنو رکھا گیا تھا لیکن جب لاہور
اور دونوں جگہ کے سفر کے حالات جمع ہوگئے تو حضرت والا نے اپنی زبان فیض ترجمان سے
یہ مصرع ارشاد فرمایا ع لاہور و بہار لکھنو اس مصرع کو سن کر راقم لحروف نے پہلا
مصرع ؛؛ بے بہازیبا نفیس و دلفزا ملا دیا جس سے پورا شعر تاریخی ہوگیا – اب اس کو یوں
پڑھئے اور عیسوی تاریخ کا شمار کیجئے
بے بہا زیبا نفس نفیس و دلفزا باغ لاہور و بہار لکنھو
368 1938 ء 1570
یہ شعر بھی لوح پر درج کردیا گیا – خدا کرے یہ مجموعہ جلد
شائع ہو کر خلق خدا کے لئے فائفہ مند اور کار آمد ثابت ہو –
اب مجھے سب سے پہلے خالق جل وعلیٰ کے فضل و توفیق کا ہر بن مو سے شکر ادا کرنا ہے – ومن
شکر فانما یشکر لنفسہ ومن کفر فان اللہ غنی حمید اس بے بضاعت ابان سے
شکر – بس کا احصی ثناء علیک انت اثنیت علی نفس – اس کے بعد اپنے
آقا و مولانا حضرت حکیم الامت مدظلہم العالیٰ کے بے پایاں الطاف و بے نہایت کرم بے کراں
شفقت اور توجہ خاص کا شکر ادا کرنا چاہئے جن کی بدولت آج یہ مجموعہ مرتب ہو کر طباعت کے لئے

بھیجا جارہا ہے – لیکن اس کے لئے الظاف کہاں سے لاؤں بے جانہ ہوگا اگر یہ عرض کروں –
شکر نعمت ہائے تو چنداں کہ نعمت ہائے تو
اسی کے ساتھ مذکور الصدر اخوان میکدہ کی مخلصانہ نوازشوں پر ہدیہ تشکر پیش کرنے کا اعزاز
حاصل کرتا ہوں –
گر قبول اتتدز عز و شرف
آخر میں مجھے اتنا اور عرض کرنا ہے کہ ارمغان جادواں اور اس التماس آشفتہ حال میں کئی
جگہ میرے قلم نے وہ انداز اختیار کیا ہے جس کا تعلق صرف میرے جزبات میری عقیدت اور
میرے ذوق سے ہے نہ شاعری کی گئی ہے اور نہ مبالغے کا اس میں دخل ہے – جو کچھ لکھا ہے
میں نے اپنی عقیدت کے تحت میں – جو آواز بلند کی ہے وہ اپنے دلی جزبات کے اثر سے اور
صرف اہل ذوق کے سننے اور لطف اٹھانے کے لئے میرے مخاطب یہی حضرات ہیں – غیر
سے واسطہ نہیں – اب اس کے بعد کوئی کچھ کہے میری ذمہ داری نہیں – کسی عارف کا قول ہے
بامدعی مگوئید اسرار عشق و مستی بگزارتا بمبیرد در رنج خود پرستی
اور میں تو ان حضرات سے یہ عرض کروں گا
گفتہ بودم فساد در مستی تو شنبدی چراز عالم ہوش
والسلام
اؤارہ دشت گمنامی
احقر کونین سید مقبول حسین وصل بلگرامی غفرلہ اللہ السامی
خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون

تصدیق و توفیق

تصدیق و توفیق از احقر اشرف علی عفی عنہ
بعد حمد وصلوٰۃ میں نے مجموعہ مسمی بہ الاسفار عن برلات بعض الاسفار ملقب
بالفصل یعنی السفر للوصل ( لما امر اللہ بہ ان یوصل الشامل للافادات الدینیہ ) کو
جس میں میرے سفر لاہور لکھنو کے واقعات و حالات اور دوسرے سفر کے
ملفوظات و مقالات ھمع کے گئے ہیں مع اس کی تمہید کے حسب استداعء جناب
مولف سملہ حرما حرفا دیکھا ملفوظات کو تو حسب معمول نظر عمیق کے ساتھ دیکھ
کر اس میں با قاعدہ مکمل اصلاح کی گئی اور بقیہ میں محض معنوں کو مطمع نظر رکھ کر
حسب حاجت خاص موافق پر تغیر و تبدل کیا گیا اب یہ مجموعہ میرے نزدیک
باعتبار مضامین کے صحیح اور مکمل ہے البتہ حالات کے حصہ میں با وجود صحت
واقعات فرط محبت میں بعض مقامت پر محض عنوان میں قدرے مبالغہ کیا ہے
جو صدق کی حد سے نہیں نکلتا اور ایسے داخل حدود مبالغہ کو بزرگوں نے ہمیشہ
جائز رکھا ہے اور خود ان کے کلام میں بھی پایا جاتا ہے اور گو ایسے عنوانات کا بدلنا
ممکن تھا اور عدم تبدیل موہم حب مدح کا ہوسکتا ہے لیکن میں نے ابقاء کو
جناب مؤلف کے جذبان کی رعایت اور اپنے حق میں مستقبل کے اعتبار سے
فال صلح سمجھ کر تصرف نہیں کیا اب دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس مجموعہ سے
طالبان دین کو کو نفع و عملی عطا فرماویں اور جناب مؤلف اور اس ناکارہ کو اپنی
رحمت و ضائے مشرف فرمادیں – والسلام فقط –
مقام تھانہ بھون 26 محرم 1358 ھ

بڑے بڑے گناہوں کا بیان جن پر بہت سختی آئی ہے

خدا سے شرک کرنا۔ نا حق خون کرنا۔ وہ عورتیں جن کے اولاد نہیں ہوتی کسی کی سنور میں بعضے ایسے ٹوٹکے کرتی ہیں کہ یہ بچہ مر جائے اور ہمارے اولاد ہو یہ بھی اسی خون میں داخل ہے۔ ماں باپ کو ستانا۔ زنا کرنا۔ یتیموں کا مال کھانا جیسے اکثر عورتیں خاوند کے تمام مال و جائیداد پر قبضہ کر کے چھوٹے بچوں کا حصہ اڑاتی ہیں۔ لڑکیوں کو حصہ میراث کا نہ دینا۔ کسی عورت کو ذرا سے شبہ میں زنا کی تہمت لگانا۔ ظلم کرنا۔ کسی کو اس کے پیچھے بدی سے یاد کرنا۔ خدا کی رحمت سے نا امید ہونا۔ وعدہ کر کے پورا نہ کرنا۔ امانت میں خیانت کرنا۔ خدا کا کوئی فرض مثل نماز روزہ حج زکوٰۃ چھوڑ دینا۔ قرآن شریف پڑھ کر بھلا دینا۔ جھوٹ بولنا۔ خصوصاً جھوٹی قسم کھانا۔ خدا کے سوا اور کسی کی قسم کھانا یا اس طرح قسم کھانا کہ مرتے وقت کلمہ نصیب نہ ہو۔ ایمان پر خاتمہ نہ ہو۔ خدا کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا۔ بلا عذر نماز قضا کر دینا۔ کسی مسلمان کو کافر یا بے ایمان یا خدا کی مار یا خدا کی پھٹکار خدا کا دشمن وغیرہ کہنا۔ کسی کا گلہ شکوہ سننا۔ چوری کرنا۔ بیاج لینا۔ اناج کی گرانی سے خوش ہونا۔ مول چکا کر پیچھے زبردستی سے کم دینا۔ غیر محرم کے پاس تنہائی میں بیٹھنا۔ جوا کھیلنا۔ بعضی عورتیں اور لڑکیاں بد بد کے گٹے یا اور کوئی کھیل کھیلتی ہیں یہ بھی جوا ہے۔ کافروں کی رسمیں پسند کرنا۔ کھانے کو برا کہنا۔ ناچ دیکھنا۔ راگ باجا سننا۔ قدرت ہونے پر نصیحت نہ کرنا۔ کسی سے مسخرا پن کر کے بے حرمت اور شرمندہ کرنا۔ کسی کا عیب ڈھونڈنا۔