ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض محبان دنیا اس طریق کو اس لئے مضر سمجھتے ہیں کہ آدمی نکما ہوجاتا ہے مگر یہ بھی ہے کہ نکما ہو کس کا ہوجاتا ہے وہ ایسا نکما ہوجاتا ہے جس کی نسبت فرماتے ہیں :
تابدانی ہر کر ایزداں بخواند از ہمہ کار جہاں بیکار ماند
ما اگر قلاش وگر دیوانہ ایم مست آں ساقی وآں پیمانہ ایم
( تاکہ تم جان لوکہ جس کو خدا تعالٰی نے بلالیا ۔ بعنی اپنی طرف جذب کرلیا وہ سارے جہاں کے کام سے بے کار ہوگیا ۔ لہذا ہم اگر مفلس اور دیوانے (بے عقل ) ہیں تو کچھ غم نہیں کیونکہ اس ساقی کی شراب کے اور اس کے پیمانہ کے مست ہیں ۔ تو اس دولت کے ہوتے ہوئے دولت دنیا کی اگر نہیں ہے تو کیا غم ہے 12)
باقی یہ طریق ضروری اس قدر ہے کہ بدوں اس کے اپنی ہی حقیقت معلوم نہیں ہوتی میں نے ایک شخص کے اندر مرض کبر محسوس کرکے اس کو بتلایا اس نے اتنی مدت تک اس کو پتہ نہ لگا ۔ اسی طرح ایک شخص نے مجھ کولکھا کہ میں کس چیزکا علاج کروں مجھ میں کوئی مرض ہی نہیں دیکھئے مریض ہوکر اپنی صحت پراطمینان تھا ۔
