توبہ ایسی اچھی چیز ہے کہ اس سے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور جو آدمی اپنی حالت میں غور کرے گا۔ کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی بات گناہ کی ہو جاتی ہے ضرور توبہ کو ہر وقت ضروری سمجھے گا۔ طریقہ اس کے حاصل کرنے کا یہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں جو جو عذاب کے ڈراوے گناہوں پر آئے ہیں ان کو یاد کرے اور سوچے اس سے گناہ پر دل دکھے گا۔ اس وقت چاہیے کہ زبان سے بھی توبہ کرے اور جو نماز روزہ وغیرہ قضا ہوا ہو اس کو قضا بھی کرے۔ اگر بندوں کے حقوق ضائع ہوئے ہیں ان سے معاف بھی کرا لے یا ادا کرے اور جو ویسے ہی گناہ ہوں ان پر خوب کڑھے اور رونے کی شکل بنا کر خدائے تعالی سے خوب معافی مانگے۔
خدائے تعالی سے ڈرنا اور اس کا طریقہ
اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مجھ سے ڈرو۔ اور خوف ایسی اچھی چیز ہے کہ آدمی اس کی بدولت گناہوں سے بچتا ہے۔ طریقہ اس کا وہی ہے جو طریقہ توبہ کا ہے کہ خدائے تعالی کے عذاب کو سچا کرے اور یاد کیا کرے۔
اللہ تعالی سے امید رکھنا اور اس کا طریقہ
اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ تم حق تعالی کی رحمت سے نا امید ہو۔ اور امید ایسی اچھی چیز ہے کہ اس سے نیک کاموں کے لیے دل بڑھتا ہے اور توبہ کرنے کی ہمت ہوتی ہے۔ طریقہ اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت کو یاد کیا کرے اور سوچا کرے۔
صبر اور اس کا طریقہ
نفس کو دین کی بات پر پابند رکھنا اور دین کے خلاف اس سے کوئی کام نہ ہونے دینا اس کو صبر کہتے ہیں۔ اور اس کے کئی موقعے ہیں۔ ایک موقع یہ ہے کہ آدمی چین امن کی حالت میں ہو۔ خدائے تعالی نے صحت دی ہو۔ مال دولت عزت برو نوکر چاکر مال اولاد گھر بار سازو سامان دیا ہو۔ ایسے وقت کا صبر یہ ہے کہ دماغ خراب نہ ہو۔ خدائے تعالی کو نہ بھول جائے۔ غریبوں کو حقیر نہ سمجھے ان کے ساتھ نرمی اور احسان کرتا رہے دوسرا موقع عبادت کا وقت ہے کہ اس وقت نفس سستی کرتا ہے جیسے نماز کے لیے اٹھنے میں یا نفس کنجوسی کرتا ہے جیسے زکوٰۃ خیرات دینے میں ایسے موقع میں تین طرح کا صبر درکار ہے۔ ایک عبادت سے پہلے کہ نیت درست رکھے۔ اللہ ہی کے واسطے وہ کام کرے نفس کی کوئی غرض نہ ہو۔ دوسرے عبادت کے وقت کہ کم ہمتی نہ ہو جس طرح اس عبادت کا حق ہے اسی طرح ادا کرے۔ تیسرے عبادت کے بعد کہ اس کو کسی کے روبرو ذکر نہ کرے۔ تیسرا موقع گناہ کا وقت ہے۔ اس وقت کا صبر یہ ہے کہ نفس کو گناہ سے روکے۔ چوتھا موقع وہ وقت ہے کہ اس شخص کو کوئی مخلوق تکلیف پہنچائے برا بھلا کہے اس وقت کا صبر یہ ہے کہ بدلہ نہ لے خاموش ہو جائے۔ پانچواں موقع مصیبت اور بیماری اور مال کے نقصان یا کسی عزیز و قریب کے مر جانے کا ہے۔ اس وقت کا صبر یہ ہے کہ زبان سے خلاف شرع کلمہ نہ کہے بیان کر کے نہ روئے۔ طریقہ سب قسم کے صبروں کا یہ ہے کہ ان سب موقعوں کے ثواب کو یاد کرے اور سمجھے کہ یہ سب باتیں میرے فائدے کے واسطے ہیں۔ اور سوچے کہ بے صبری کرنے سے تقدیر تو ٹلتی نہیں۔ ناحق ثواب بھی کیوں کھویا جائے۔
شکر اور اس کا طریقہ
خدائے تعالی کی نعمتوں سے خوش ہو کر خدائے تعالی کی محبت دل میں پیدا ہونا اور اس محبت سے یہ شوق ہونا کہ جب وہ ہم کو ایسی ایسی نعمتیں دیتے ہیں تو ان کی خوب عبادت کرو۔ اور ایسی نعمت دینے والے کی نافرمانی بڑے شرم کی بات ہے۔ یہ خلاصہ ہے سکر کا۔ یہ ظاہر ہے کہ بندے پر ہر وقت اللہ تعالی کی ہزاروں نعمتیں ہیں۔ اگر کوئی مصیبت بھی ہے تو اس میں بھی بندے کا فائدہ ہے تو وہ بھی نعمت ہے۔ جب ہر وقت نعمت ہے تو ہر وقت دل میں یہ خوشی اور محبت رہنا چاہیے کہ کبھی خدائے تعالی کے حکم کے بجا لانے میں کمی نہ کرنی چاہیے۔ طریقہ اس کا یہ ہے کہ خدائے تعالی کی نعمتوں کو یاد کیا کرے اور سوچا کرے۔
خدائے تعالی پر بھروسہ رکھنا اور اس کا طریقہ
یہ ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ بدون خدائے تعالی کے ارادے کے نہ کوئی نفع حاصل ہو سکتا ہے۔ نہ نقصان پہنچ سکتا ہے اس واسطے ضرور ہوا کہ جو کام کرے اپنی تدبیر پر بھروسہ نہ کرے۔ نظر خدائے تعالی پر رکھے اور اسی مخلوق سے زیادہ امید نہ رکھے نہ کسی سے زیادہ ڈرے یہ سمجھ لے بدون خدا کے چاہے کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کو بھروسہ اور توکل کہتے ہیں طریقہ اس کا یہی ہے کہ اللہ تعالی کی قدرت اور حکمت کو اور مخلوق کے ناچیز ہونے کو خوب سوچا اور یاد کیا کرے۔
خدائے تعالی سے محبت کرنا اور اس کا طریقہ
اللہ تعالی کی طرف دل کا کھینچنا اور اللہ تعالی کی باتوں کو سن کر اور ان کے کاموں کو دیکھ کر دل کو مزہ نا یہ محبت ہے طریقہ اس کا یہ ہے کہ اللہ کا نام بہت کثرت سے پڑھا کرے اور ان کی خوبیوں کو یاد کیا کرے اور ان کو جو بندے کے ساتھ محبت ہے اس کو سوچا کرے۔
خدائے تعالی کے حکم پر راضی رہنا اور اس کا طریقہ
جب مسلمان کو یہ معلوم ہے کہ خدائے تعالی کی طرف سے جو کچھ ہوتا ہے سب میں بندے کا فائدہ اور ثواب ہے تو ہر بات پر راضی رہنا چاہیے۔ نہ گھبرائے نہ شکایت حکایت کرے۔ طریقہ اس کا اسی بات کا سوچنا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے سب بہتر ہے۔
صدق یعنی سچی نیت اور اس کا طریقہ
دین کا جو کوئی کام کرے اس میں کوئی دنیا کا مطلب نہ ہو نہ تو دکھلاوا ہو نہ ایسا کوئی مطلب ہو جیسے کسی کے پیٹ میں گرانی ہے اس نے کہا لاؤ روزہ رکھ لیں۔ روزے کا روزہ ہو جائے گا اور پیٹ ہلکا ہو جائے گا یا نماز کے وقت پہلے سے وضو ہو مگر گرمی بھی ہے اس لیے وضو تازہ کر لیا کہ وضو بھی تازہ ہو جائے گا اور ہاتھ پاؤں بھی ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ یا کسی سائل کو دیا کہ اس کے تقاضے سے جان بچی اور یہ بلا ٹلی۔ یہ سب باتیں سچی نیت کے خلاف ہیں۔ طریقہ اس کا یہ ہے کہ کام کرنے سے پہلے خوب سوچ لیا کرے اگر کسی ایسی بات کا اس میں میل پائے اس سے دل کو صاف کر لے۔
