(ملفوظ 456) بذم القیل وقال :

ملقب بذم القیل والقال : ایک مولوی صاحب نے سوال کیا کہ چارچیزیں ہیں شریعت طریقت حقیقت ، معرفت ، اگر کوئی ان کا منکرہ ہواس کے متعلق کیا حکم ہے فرمایا کہ تحریر کے ذریعہ سے سب کو الگ الگ پوچھنا چاہئے اسی لئے کہ اس خلط کی صورت میں حکم دینے میں کے ذریعہ سے سب کو الگ الگ پوچھنا چاہئے اسی لئے کہ اس خلط کی صورت میں حکم دینے میں اندیشہ ہے کہ محاطب کو غلط فہمی ہوجائے ایک کا حکم دوسرے پرلگالیا جاوے اسی طرح زبانی تقریر میں یہ احتمال زیادہ تھے اور ایک بات ضروری یہ ہے کہ جو شخص منکر ہو اس کو خود سوال کرنا چاہئے یہ نہیں کہ عمر زید کو فرض کرکے سوال کیا جائے اور چونکہ ان میں بعض چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا انکار کفر نہیں اوربعض کا انکار کفر ہے اسی لئے مخلوط حالت میں فتویٰ دنیا خلاف احتیاط ہے اس کی صورت یہی ہے کہ جو منکر ہے وہ خود سوال کرے اوراس کی یہ صورت ہے کہ اول اس مسئول عنہ کی تعیین لکھے اوراس کے ساتھ سائل اس کا جو مفہوم خود سمجھا ہے اس کی تفسیر کرے اس کے بعد اپنا عقیدہ اس کے خلاف ساتھ ظاہر کرے اور سب کے بعد اپنے دسخط کرے تب فتوٰی سہولت سے ہوسکتا ہے اور جب تک سوال منقح نہ ہو فتوٰی ہوسکتا ، اس قسم کا فتویٰ بلا تحقیق دنیا ایسا ہے جیسے کسی کے قتل کا حکم کرنا یہاں جان میں تصرف ہے وہاں ایمان میں تصرف ہے ۔
پھر فرمایا کہ یہ سب اصطلاحات ہیں سہولت تعبیر کے لئے استعمال کی جاتی ہیں حقیقت سب کی بایں معنی متحد ہے کہ ان میں تنافی نہیں ایک ہی ہیں ۔ یہی غلطی ہے کہ ان کو الگ الگ بمعنی تنافی سمجھ لیا گیا جیسے ایک شخص ہے اس کو مولوی بھی کہتے ہیں قاری بھی کہتے ہیں حافظ بھی کہتے ہیں حاجی بھی کہتے ہیں تو یہ چیزیں صفات متبائنہ تھوڑا ہی ہیں ایک ہی شخص میں سب جمع ہیں اور باہم نسبت عموم وخصوص کی ہے ۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ مقصود اعظم تو شریعت ہی ہے فرمایا کہ خود ایک ہی چیز ہے یعنی شریعت ۔ اس کے مقابل کوئی چیز نہیں جس کی وجہ سے اعظم کہا جاوے جس کا حاصل عمل کا خالص کرنا بے شیخ اس کی تدابیر کی تعلیم کرتا ہے ان تدابیر کا نام طریقت ہے پھر اس کی برکت سے جو علوم منکشف ہوتے ہیں وہ حقیقت ہیں اوران ہی کے حقائق میں بعض کے انکشاف کا نام معرفت ہے باقی اور جوکچھ ہے مراقبہ مکاشفہ ذکر وشغل سب اسی مقصود کے معین اورمتمم ہیں اور اصل وہی ایک چیز ہے اور یہ سب کرنے کے کام ہیں مگر آج کل بجائے کچھ کرنے کے بڑا شغل دوسری کی عیب جوئی یا فضول تحقیقات رہ گئی ہیں لیکن دوسرے پرتو فتوٰی جب لگاوے جب اپنے سے فراغت حاصل کرلی ہو ایک شخص مدقوق ( مرض دق میں مبتلا ) ہے اور ایک پڑوس میں مزکوم ( جس کوزکام ہورہا ) ہے اب یہ دق والا زکام کا نسخہ تلاش کرتا پھرتا ہے اپنی فکر نہیں خبر نہیں لیتا ۔ مولانا نعیم صاحب سے کسی شخص نے سوال کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میں اور حضرت معاویہر رضی اللہ عنہ میں جو جنگ ہوئی کون حق پرتھا مولانا نے دریافت کیا کہ یہ کس نے سوال کیا ہے عرض کیا کہ فلاں حافظ صاحب نے دریافت فرمایا کہ وہ کام کرتے ہیں عرض کیا جوتے بیچتے ہیں فرمایا اور تم کیا کام کرتے ہو عرض کیا کہ میں کپڑے رنگتا ہوں فرمایا جاؤ تم کپڑے رنگو اور ان سے کہو جوتے بیچا کریں علی جانیں اور معاویہ جانیں ان کا معاملہ تمہارے پاس فیصلہ کے لئے نہ آئے گا بعض لوگ خطوط میں مجھ سے استفسار کرتے ہیں کہ فلاں شخص ایسا ہے اس کے متعلق کیا حکم ہے لکھ دیتا ہوں کہ خود واقعہ کے دستخط کراکر بھیجھیں حضرت یقینا سوال میں افتراء اور کذب ہوتا ہے یا نیت فاسد ہوتی ہے فتوے کو آڑ بنا کر ایک مسلمان کی تکفیر کرتے ہیں اور اس کی فضیحت اور رسوائی کے درپے ہوتے ہیں بڑی بڑی سخت بات ہے جونہایت احتیاط کے قابل ہے جیسے بزرگوں نے اس باب میں سخت احتیاط سے کام لیا ہے ۔
ایک حکایت اس کے متعلق یا د آئی میں نے طالب علمی کے زمانہ میں کسی کتاب میں دیکھا کہ ایک پیر نے مرید سے پوچھا کہ تم خدا کو جانتے ہو مرید نے کہا کہ میں خدا کو کیا جانوں میں تو تم کو جانوں مجھ کو اس پربڑا غصہ آیا کہ بڑا ہی جاہل اور ایمان سے دور تھا ۔ میں نے یہ قصہ مولانا محمد یعقوب صاحب سے عرض کیا کہ حضرت ایسے ایسے بھی جاہل ہیں مولانا نے فرمایا کہ کیا تم خدا کو جانتے ہو ، تب میری آنکھیں کھلیں فرمایا کہ میاں کس اللہ والے ہی کو پہچان لے یہ ہی بڑی نعمت ہے اس میں مولانا نے تاویل سے کام لیا اور قائل کو بچالیا ۔ حضرت مولانا شیخ محمد صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ بعض لوگ والاالضالین فرمایا بس جو قرآن میں لکھا ہے وہی پڑھا کرو دیکھے کیسی سہولت سے جھگڑے کو قطع کردیا اس میں تعلیم تھی کہ جھگڑوں میں مت پڑو ۔
ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ یزید پر لعنت کرنا کیسا ہے میں نے کہا کہ اس شخص کو جائز ہے جس کو یہ خبردار اور یقین ہوکہ میں یزید سے اچھی حالت میں مروں گا اگرکہیں اس سے خراب حالت میں قبر میں رہ گئے تو وہ کہے گا کہ مجھ کو تو ایسا ایسا کہتے تجھے تھے اب تم دیکھو کس حالت میں ہوکہنے لگے تو یہ کب معلوم ہوگا میں نے کہا کہ مرنے کہا مرنے کے بعد کہنے لگے تو قبر میں لعنت کیا کریں میں نے کہا کہ ہاں کوئی کام تو وہاں ہوگا نہیں بیٹھے ہوئے لعنت اللہ علی الیزید پڑھا کرنا یہاں تو کام کی باتوں میں لگو ۔ خاتمہ کے خطرہ پرایک بزرگی کی ایک حکایت یا د آئی کہ ان سے کسی کنجڑن نے سوال کیا کہ ملاجی تمہاری داڑھی اچھی ہے یا میرے بکرے کی دم کہا کہ کبھی جواب دیے دیں گے ۔ ساری عمر گذر گئی مگر اس کنجڑن کوکوئی جواب نہیں دیا جب مرنے لگے تو وصیت کی کہ میرا جنازہ اس کنجڑن کے دوکان کے سامنے سے نکالنا جب جنازہ وہاں پہنچا اس نے کہا کہ مرگئے میرے سوال کا جواب نہ دیا بس منہ کھول دیا اور منہ پرہاتھ پھیر کر کہا کہ الحمداللہ آج میری داڑھی اچھی ہے تیرے بکرے کی دم سے اسی لئے کہ ایمان پر خاتمہ ہوگیا ۔ اب یہ حکایت صحیح ہو یا غلط مگر مثال اچھی ہے اور مثال دلیل نہیں ہوتی محض تو ضیح کے لئے ہوتی ہے غرض خاتمہ کے بعد پتہ لگتا ہے باقی اس سے پہلے تو مجدد صاحب کے ارشاد عمل ہونا چاہئے انہوں نے فرمایا ہے کہ مومن مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے کو کافر فرنگ سے بدتر نہ سمجھے مطلب یہ کہ کیا خبرکیا ہوجائے اور کیا خبرکیا ہوجائے اور کیا معاملہ پیش آئے کس کو خبر ہے خلاصہ یہ ہے کہ فضول سوالوں میں پڑنا وقت کا ضائع کرنا ہے ہمارے بزرگ اس قسم کی گفتگو اور مباحثوں مناظروں کو پسند نہ فرماتے تھے خود کام لگے رہتے تھے اور دوسروں کو لگائے رکھتے تھے ۔ ایک مرتبہ حضرت مولانا قاسم صاحب دہلی تشریف رکھتے تھے اور ان کے ساتھ مولانا احمد حسن صاحب امروہی اورامیرشاہ خان صاحب بھی تھے شب کو جب سونے کے لئے لیٹے تو ان دونوں نے اپنی چارپائی ذرا الگ کو بچھالی اور باتیں کرنے لگے امیر شاہ خان صاحب نے مولوی صاحب سے کہا کہ صبح کی نماز ایک برج والی مسجد میں چل کرپڑھیں گے سنا ہے وہاں کے امام قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں مولوی صاحب نے کہا ک ارے پٹھان جاہل (آپس میں بے تکلفی بہت تھی ) ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے وہ تو ہمارے مولانا کی تکفیر کرتا ہے مولانا نے سن لیا اورزرو سے فرمایا احمد حسن میں تو سمجھا تھا تو لکھ پڑھ گیا ہے مگر جاہل ہی رہا پھر دوسروں کو جاہل کہتا ہے ارے کیا قاسم کی تکفیر سے وہ قابل امامت نہیں رہا میں تو اس سے اس کی دینداری کا معتقد ہوگیا اس نے میری کوئی ایسی ہی بات سنی ہوگی ۔ جس کی وجہ سے میری تکفیر واجب تھی گوروایت غلط پہنچی ہوتو یہ راوی پرالزام ہے تو اس کا سبب دین ہی ہے اب میں خود اس کے پیچھے نماز پڑھوں گا ۔ غرضکہ صبح کی نماز مولانا نے اس کے پیچھے پڑھی یہ ہے ہمارے بزرگوں کا مذاق جن کی کوئی نظیر پیش نہیں کرسکتا ان حضرات کی عجیب وغریب شان تھی حضرت مولانا محمد قاسم صاحب بجز کفار کے اور کسی سے مناظرہ نہ کرتے تھے بہت ہی مجبوری کے درجہ میں ایک مرتبہ بعض غیرمقلدین کا اور نعض شیعوں کا جواب لکھا ۔ تحذیرالناس پر جب مولانا پرفتوے لگے تو جواب نہیں دیا یہ فرمایا کہ کافر سے مسلمان ہونے کا طریقہ بڑوں سے یہ سنا ہے کہ کلمہ پڑھنے سے مسلمان ہوجاتا ہے تو میں کلمہ پڑھتا ہوں لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ : ایک مرتبہ میرے لکھے ہوئے اور حضرات مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے تصحیح کردہ ایک فتویٰ پرسائل کی طرف سے کچھ اعتراضات آئے تھے ۔ میں نے جواب لکھنے کی اجازت لینے کے لئے دکھلایا تو فرمایا کہ جواب مت لکھنا صرف یہ لکھ دو کہ ضروری جواب دیا جاچکا ہے باقی ہم مرغان جنگی نہیں کہ جنگ وجدال کا سلسلہ دراز کریں اگر ہمارے جواب سے اطمینان نہ ہو ۔ فوق کل ذی علم علیم ۔ دوسری جگہ سے اطمینان کرلو ہم اس جنگ وجدل سے معاف رکھواب دوبات حضرت کی یاد آتی ہے کہ ردوکد میں وہی پڑھ سکتا ہے جس کوکوئی کام نہ ہو اور جس کو کام ہوگا اس کی تویہ حالت ہوگی جیسے ایک حکایت ہے کہ ایک شخص کی داڑھی میں کچھ سفید بال آگئے حجام سے کہا کہ سفید بال چن چن کر نکال دینا ۔ نائی نے استرے سے تمام داڑھی صاف کرکے سامنے ڈال دی کہ لومیاں تم بیٹھے چنے جاؤ مجھے اور بھی کام ہے مجھ کو چننے کی فرصت نہیں تو کام کا آدمی توبکھیڑوں سے ضرور گھبراتا ہے یہ تو بے کارلوگوں کے مشغلے ہیں اسے برا کہہ لیا اس سے بھلا کہہ لیا اس پرفتویٰ دیا اس پرفتوٰی دیدیا ۔
ایک غیرمقلد یہاں آئے تھے ذکروشغل کرتے تھے بے چاروں کو مجھ سے محبت تھی ایک روز لوگوں سے کہنے لگے کہ یہاں پرسنت کے خلاف صرف ایک بات ہے وہ یہ کہ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ چشتی ، قادری ، نقشبندی ،سہروردی یہ تقسیم کسی ہے ، میں نے سن کر کہا کہ آصطلاحات میں سہولت تعبیر کے لیے نام کھ لئے ہیں یہ کوئی طریق کا جزو نہیں نہ مقصود طریق ہے اس کا انکار آپ جائز ہے۔ غرض کا رنگ ہی دوسرا ہوتا ہے مگر لوگوں کی عجییب حالت ہورہی ہے کہ اپنی فکر نہیں دوسروں کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ۔ حصوص عیب جوئی اور عیب گوئی کہ اس میں عام ابتلاء ہورہا ہے اپنے بدن میں تو کیڑے پڑرہے ہیں ان کی خبر نہیں اور دوسروں کے کپڑے پرجومکھیاں بیٹھی ہیں ان پرنظر ہے ارے اپنے کو تو دیکھ کہ کس حال ہیں ہے ۔
ایک مثال عیب چین کی ایک شخص نے عجیب بیان کی کہ باغ میں کوئی جاتا ہے تفریح سیرکے لئے ، کوئی پھول سونگھنے کے لئے اور کوئی پھل کھانے کے لئے مگر سور جب جائے گا نجاست ہی کو تلاش کرے گا کہ پاخانہ بھی کہیں ہے یا نہیں ایسے ہی اس عیب چیں کی مثال ہے کہ کسی میں کتنی ہی خوبیاں کیوں نہ ہوں مگر اس کی نظر عیوب ہی کی متلاشی رہتی ہے ۔
ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ تو ضروری نہیں ہے کہ کسی خاص طریق تربیت کو مثلا میرے ہی طرز کو سب اچھا ہی سمجھیں اس کی ایسی مثال ہے جیسے کسی کا لڑکا حسین ہے تو کیا ضرور ہے کہ ساری دنیا اس کو حسین ہی سمجھے بلکہ یہ اچھا ہے کہ دوسرے اس کو بدشکل اور غیر حسین سمجھیں تاکہ لڑکا بچا تو رہے گا اور پاک صاف رہے گا ۔ اسی طرح یہ کیا طرح یہ کیا ضرور ہے کہ جو چیز ایک کی نظر میں اچھی نہیں معلوم ہوتی اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس طریق میں کام کرنے سے حقیقت کا پتہ چلتا ہے کام ہی کرنے سے راستہ سمجھ میں آسکتا ہے اور لوگ کام کرتے نہیں اسی لئے اس سے اجنبیت ہے باقی محض بیان کرنے سے سمجھ میں نہیں آسکتا ۔ بلکہ اندیشہ ہے کہ کہیں اور مضرت نہ ہو اور حقیقت سے دور جا پڑے جیسے ٹیڑھی کھیر کی حکایت ہے ۔
ایک حافظ جی مادرزادنا بینا تھے ایک لڑکے نے ان کی دعوت کی حافظ جی نے سوال کیا کہ کیا کھلاؤ گے کہا کہ کھیر اب غلطی میں ابتلاء شروع ہوتا ہے ۔ حافظ جی نے پوچھا کہ بگلا کیسے ہوتا ہے اب لڑکا کس طرح سمجائے ہاتھ موڑ کر سامنے بیٹھ کرکہا ایسا ہوتا ہے ۔ حافظ جی نے جوٹٹول کردیکھا تو کہاں کہ بھائی یہ تو بڑی ٹیڑھی کھیر ہے حلق سے نیچے کیسے اترے گی مشبہ نہ تو تھا بگلا اورلڑکا تھا پگلا کا طباق بھر کرلا کرسامنے رکھ دیتا کہ لوکھا کردیکھ لو کھیر کیسی ہوتی ہے تواسی طرح بیان کرنے سے اس طریق کی حقیقت معلوم ہو نہیں سکتی بلکہ اور بعد ہوجانے کا اندیشہ ہے خلاصہ یہ ہے کہ قیل وقال وبحث وجدال اور فضول جواب وسوال چھوڑو اور کام میں لگو ولنعم ماقیل
کارکن کاربگذر از گفتا ر کاندریں راہ کا ر باید کار
انتھت المقالۃ الملقبۃ بذم القیل والقال ۔