ملفوظ 443: بزرگ شاعر بھی ہو سکتے ہیں

بزرگ شاعر بھی ہو سکتے ہیں خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت کیا شاعر بھی بزرگ ہو سکتے ہیں فرمایا کہ عنوان کو بد لئیے یوں کہئیے کہ کیا بزرگ بھی شاعر ہو سکتے ہیں فرق یہ ہے کہ پہلے جملہ کے معنی یہ ہیں کہ جس پر شاعری کا غلبہ ہو گیا وہ بزرگ ہو سکتا ہے سو اس کا جواب خود سوال سے ظاہر ہے کہ نفی میں ہے دوسرے جملہ کے معنی یہ ہیں کہ جس کی اصلی صفت بزرگی ہو کیا اس سے شاعری کا صدور ہو سکتا ہے سو ظاہر ہے کہ یہاں کوئی امر مانع نہیں یہ تفاوت ایسا ہے کہ جیسے ایک طالب علم نے مدرسہ کانپور میں دوسرے طالب علم کی کتابیں کپڑے چوری کر کے نکال لیے پولیس میں اطلاع کر دی سب انسپکٹر آ پہنچے اور مجھ سے کہنے لگے کہ طالب علم بھی چوری کرتے ہیں میں نے کہا ہرگز نہیں کہنے لگے کہ یہاں تو مشاہد ہے میں نے کہا کہ مشاہدہ تو صحیح ہے لیکن حقیقت اس کی آپ نہیں سمجھے – کہنے لگے وہ کیا میں نے کہا حقیقت اس کی یہ ہے کہ چور کبھی طالب علمی کرنے لگتے ہیں – حاصل یہ کہ جو اصل میں طالب علم ہوگا وہ چوری نہیں کریگا البتہ چور طالب علم بن سکتا ہے تاکہ مدرسہ میں چوری آسانی سے کر سکے اسلئے یہ کہنا غلط ہے کہ طالب علم چوری کرنے لگے -ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا ہنس کر کہنے لگے کہ صاحب مولویوں کے گھر کی بات ہے جس طرح چاہیں بنا سکتے ہیں – اسی طرح شاعر تو بزرگ نہیں ہو سکتے ہاں بزرگ شاعر ہو سکتے ہیں –