چھوٹی چھوٹی باتوں میں احتیاط پختہ گڑھی سے ایک مخلص نے کچھ پکی ہوئی اشیاء حضرت والا کی خدمت میں بطور ہدیہ ایک شخص کے ہاتھ بھیجیں حضرت والا نے اپنے خادم سلیمان سے فرمایا کہ دیکھو بڑے گھر ان چیزوں کو پہنچا دو اور یہ کہہ دینا کہ یہ بٹی ہوئی نہیں ہیں اور جن برتنوں میں یہ چیزیں ہیں لا نے والے کے سامنے گن کر اور دکھلا کر لے جانا اور واپس لا کر پھر گنوا دینا – تا کہ گڑ بڑ نہ ہو – پھر حضرت والا نے دریافت فرمایا کہ گن لیا عرض کیا جی گن لیا – چار برتن ہیں مزاحا فرمایا کہ اچھی طرح پھر دیکھ لو ورنہ کبھی تمہارا اچار بنے فرمایا کہ میں ایسی چیزوں میں ضرور مداخلت کرتا ہوں اور وہ اسلئے کہ لوگوں کے مزاج میں احتیاط نہیں – اسلئے ہر شخص پر اعتماد نہیں ہوتا – ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ صحابی ہیں فاتح فارس ہیں جب غلام کو کھانا پکانے کے لیے اشیاء دیتے تو سب کا وزن فرما کر اور گوشت کی بوٹیاں گن کر دیتے تھے وجہ معلوم کرنے پر فرمایا کہ میں کسی مسلمان کی طرف سے کیوں بد گمانی کروں اسلئے گن کر دیتا ہوں اور گن کر لیتا ہوں – ورنہ یہ وسوسہ ہو سکتا ہے کہ نہ معلوم کس قدر رکھا اور کس قدر لایا – اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ یہ ہے مغز تصوف اور یہ ہیں علوم دقیقہ یہ علوم تو ہم کو نصیب بھی نہیں کہاں تک ان حضرات کی نظر پہنچتی تھی کیسی دقیق بات ہے یہ ہیں اعمال باطنہ کیوں نہ ہو صاحب ! آخر صحبت کس کی تھی اگر ان حضرات کے ایسے علوم نہ ہوتے تو اور کس کے ہوتے – عجیب حضرات تھے دینی حدود کی حفاظت میں اس کی بھی پرواہ نہ تھی کہ لوگ کیا کہیں گے لا یخافون فی اللہ لومۃ لائم پر عمل کر کے دکھلا دیا – سبحان اللہ فرمایا ان ہی چیزوں کے لیے شیخ کی ضرورت ہے اور شیخ بھی کامل جو جامع بین الاضداد ہو علماء ظاہر محض اعمال ظاہرہ کی اصلاح کرتے ہیں اور شیخ کامل ظاہر اور باطن دونوں کی اصلاح کرتا ہے اور ویسے تو کتابوں میں سب ہی کچھ ہے مگر ایسا ہی جیسے کتابوں میں تو نسخے بھی ہیں پھر خود کیوں نہیں علاج کر لیتے بس جو ضرورت طبیب کی ہے وہی ضرورت شیخ کی ہے –
