ملفوظ 6: دیہاتیوں کی مزیدار گفتگو

ایک گفتگو کے سلسلہ میں فرمایا کہ کالے دہولے (سیاہ و سفید ) پر ایک حکایت یاد آئی
ایک گاؤں کا آدمی یہاں پر آیا اور مجھ سے دریافت کیا کہ مولوی اشرف کون سا ہے میں نے کہا کہ
بھائی میٰں ہی ہوں کہا تو نہیں ـ میں نے دریافت کیا کہ اس کی کوئی خاص پہچان ہے کہا کہ ہاں ہے
میں نے دریافت کیا کہ کیا پہچان ہے ـ کہا وہ دھولا دھولا (گورا گورا ) ہے میں نے پوچھا کب دیکھا
تھا معلوم ہوا بہت عرصہ جب دیکھا تھا میں نے کہا کہ بھائی وہ جوانی کا زمانہ تھا جب تم نے
دیکھا تھا جوانی کا رنگ و روغن اور ہوتا ہے اب بڈھے ہو گئے کہا کہ کیوں جھوٹ بولے مولوی
حبیب احمد صاحب سامنے بیٹھے تھے میں نے کہا کہ یہ دیکھ یہ ہوں گے یہ ہیں دھولے کہا کہ یہ بھی
نہیں ـ یہ ڈھیر دھولا ( زیادہ گورا ) ہے تب میں نے اس سے کہا کہ دیکھ وہ معمار مزدور کام کر رہے.ہیں ان سے پوچھ لے دوڑا گیا ان سے جا کر پوچھا پھر آیا کہنے لگا ہاں تو ہی ہے میری کھطا (خطا)
معاف کر دے ـ فرمایا کہ الفاظ تو اس کے پاس نہ تھے مگر خلوص تھا جی چاہتا تھا کہ اسی بے تہذیبی
کے ساتھ سلسلہ گفتگو جاری رہے بے حد لطف آ رہا تھا ـ ایک ایسی ہی حکایت قاری عبدالرحمن صاحب ؒ
پانی پتی کی مولوی حبیب احمد صاحب نے روایت کی ـ کہ
قاری صاحب ریل میں سفر کر رہے تھے ایک گنوار کو معلوم ہوا کہ یہ قاری ہیں اور وہ اتنا
جانتا تھا کہ قاری خوش آواز اور لہجے سے قرآن شریف پڑھنےوالے کو کہتے ہیں اس پر اس کو خیال
ہوا کہ قاری صاحب سے قرآن شریف سننا چاہئے ـ غرضیکہ قاری صاحب سے درخواست کی قاری
صاحب نے درخواست منظور فرما کر سنانا شروع فرما دیا یہ گنوار سن کر کچھ خوش نہ ہوا اس لئے کہ وہاں
اتار چڑھاؤ اور رنگینی نہ تھی قاری صاحب سے کہا کہ اب میرا بھی سن لے ـ مطلب یہ تھا کہ میں بھی
اچھا پڑھنےوالا ہوں قاری صاحب نے اجازت فرما دی اس نے بھی پڑھ کر سنایا اس طرف سے
بھی کوئی داد نہ ملی تو کیا کہتا ہے قاری صاحب سے کہ جیسا تو پڑھے ویسا ہی میں پڑھوں فرک
(فرق) یہ ہے کہ تو جنانی (زنانی) بولی میں پڑھے اور میں مردانی بولی میں مطلب یہ تھا کہ تیری
باریک بولی ہے اور میری موٹی ـ زنانی سے مراد باریک اور مردانی سے مراد موٹی ـ