ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک صاحب فلاں مدرسہ کے مبروں میں سے ہیں انہوں نے مجھ کا ایک یہودی تحریر لکھی تھی باوجود اس کے کہ ان کو تعلق اور محبت کا دعویٰ ہے چونکہ یہ تحریر اس کے بعد ان کے قول اور فعل میں تعارض ہے اس سے ناگواری ہوتی ہے یہاں پر وہ دوسرے متعدد ممبر آئے تھے میں نے صاف کہ دیا کہ مجھ کو شکایت تھی اور ہے اور رہے گی میں منقبض تھا اور ہوں رہوں گا جب تک اس تحریر کا تدارک نہ ہوگا باقی مہمان ہونے کی حیثیت ہونے سے ان کا احترام بھی پورا کیاگیا تو میرے قلب میں دونوں چیزیں جمع تھیں شکایت اور رنج بھی اور اکرام واحترام بھی –
بحمداللہ تعالی میرے یہاں ہر چیز اپنی حد پر رہتی ہے ان یہ شبہ کہ دو چیزیں متضاد کیسے جمع ہوسکتی ہیں کیونکہ اول مستلزم ہے ان کے اعتقاد نقص کو اور ثانی استھنار عضمت کو تو میں جواب میں اس پر ایک مثال بیان کیا کرتا ہوں ایک بزرگ نے یہ مثال بیان فرمائی ہے عجیب مثال ہے کہ کسی جرم پر بھنگی کو شاہی حکم ہوا کہ شہزادہ کے بید لگاؤ تو عین بید لگانے کے وقت کیا بھنگی یہ خیال کرسکتا ہے کہ میں شہزادے سے افضل ہوں ہر گز نہیں کرسکتا – تو دیکھئے دونوں باتیں ایک وقت میں جمع ہوگیئں اس کا نقص اور جرم بھی اور اس کی عظمت اور اپنے سے افضل ہونا بھی – یقینا وہ بھنگی یہی سمجھے گا کہ بھنگی بھنگی ہی ہے شہزادہ شہزادہ ہی اسی طرح مصلح میں بھی دونوں باتیں جمع ہوسکتی ہیں اصلاح و احتساب بھہ – تو ضع اور فنا بھی تو تعجب کرنا کہ دونوں کس طرح جمع ہوں غلطی اور غیر محقق تو ایسے جمع کے مطالبہ پر گھبرائے اور یہ کہے گا –
درمیان قعر در یا بندم کرؤہ باز میگوئی کہ دامن تر مکن ہوشیار باش
( دریا کی تہہ میں باندھ کر ڈال دیا – اور کہا جاتا ہے کہ دیکھو دامن بھی تر نہ ہو )
البتہ محقق چونکہ جامع ہوتا ہے وہ کہے گا کہ تختہ بند بھی ہو اور دریا میں بھی رہے پھر بھی دامن تر ہونے سے بچ سکتا ہے اور راز اس میں یہ ہے کہ وہ تختہ بندی محض صورۃ ہوتی ہے دوسرے کو ایسا تو ہم ہو تا ہے ورنہ واقع میں ہاتہ پاؤں کھلے ہوتے ہیں یعنی قدرت ہوتی ہے تو جن چیزوں کو جمع کیا گیا ہے ان میں محض ظاہرا اتضاد ہے حقیقی تضاد نہیں اور یہی محمل ہے اس قول لا کہ محقق وہ شخص ہے جق جامع بین الا ضداد ہو غرض واقع میں وہ چیزیں اضداد نہیں مگر عوام کی نظر میں اضداس نظر آتی ہیں اس ہی مومعنی میں میں نے یہ کہا تھا کہ میرے اندر دو چیزیں جمع تھیں شکایت اور رنج بھی اور احترام بھی شکایت اور رنج یہودگی پر تھا اور احترام مہمان ہونے کی حیثیت سے تھا البتہ ان حقائق کے سمجھنے میں فہم صیحح کی ضرورت ہے –
