ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ کلام کو علماء نے ایسا مدون کیا کہ ساری دنیا کو بند کر دیا کوئ آج تک اس کو نہیں توڑ سکا اسی طرح فقہاء نے احکام کی تدوین کیا اور اور نصوص کے محامل کو ظاہر کیا مگر اغبیاء نے بجاۓ شکر گزاری کے اور الٹا ان پر اعتراض کیا کہ یہ لوگ تاویل کر کے نصوص کو ترک کرتے ہیں چناچہ ایک غیر مقلد نے دہلی میں وعظ کہا اس میں بیان کیا کہ قرآن حدیث سب ظاہر ہے کہیں تاویل جائز نہیں ایک طالب علم مولوی عبدالحق تھے قصبہ جلال آباد کے انہوں نے کہا کیوں کہ صاحب تاویل نہ کی جاوے گی کہا کہ کہیں نہ کی جاوے گی انہوں نے کہا کہ بہت اچھا تو میں کہتا ہوں کہ اس قائدہ کی بناء پر تو کافر ہے کہنے لگا کہ یہ کیوں انوں نے کہا کہ یہ قرآن میں ہے
ومن کان فی ھذہ اعمی فہو فی الاخرۃ اعمی
یہ غیر مقلد اندھا تھا کہنے لگا اس کا تو یہ مطلب نہیں بلکہ مجازی معنی مراد ہے انہوں نے کہا یہ تو تاویل ہے اور تاویل بقول آپ کے باطل ہے بڑا پر یشان ہوا فرمایا کہ واقعی اگر ضرورت اور دلیل سے بھی تاویل نہ کی جاوے گی تو ایسا ہو گا ایک شخص نے شیخ سعدی علیہ الرحمہ کے اس شعر کا مطلب سمجھا تھاـ
دوست آن باشد کہ دوست دوست در پریشان حالی دور ماندگی
( دوست وہ ہے جو دوست کی پریشانی حالی درعاجز ہونے کے وقت مدد کرے 16 )
واقعہ یہ ہوا کہ اس کا دوست کسی سے لڑ رہا تھا اور وہ بھی ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا اس نے پہنچ کر دوست کے دونوں ہاتھ پکڑ لۓ جس سے بیچارے کی اچھی طرح مرمت ہوئ کسی نے کہا یہ کیا حرکت ـ کہتا ہے کہ میں نے تو شیخ سعدی علیہ الرحمتہ کی تعلیم پر عمل کیا وہ فرما گۓہیں ـ
دوست آن باشد کہ گیر دوست دوست در پریشانی حالی دور ماندگی
اگر تاویل سے بچیں تو کوئ کلام بھی صحیح معنی میں استعمال نہیں ہو سکتا اسی طرح کسی مطلق لفظ کو مقید پر محمول کرنا ایک قسم کا مجاز اور تاویل ہے مگر دلیل کی ضرورت سے اختیار کیا جاۓ گا ـ میں ایک مرتبہ علی گڑھ اپنے چھوٹے بھائ کے پاس مہمان تھا نواب وقار الملک کی استدعاء پر کالج گیا وہاں جمعہ بھی پڑھا ـ وعظ بھی کہا وہاں کے پروفیسر نے سائنس کے کمرہ کی بھی سیر کرائ اس میں بجلی بھی تھی ـ اس کے افعال خواص کا بھی مشاہدہ کیا اس کے بعد وعظ ہوا تو میں نے وعظ میں برق کے متعلق بھی بیان کیا کہ آپ لوگوں کو کہیں یہ شبہ نہ ہو کہ بجلی تو ہم نے بھی پیدا کر لی ہے پھر جو حقیقت بجلی کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے ہمارا مشاہدہ اس کی نفی کرتا ہےکیونکہ برق تو ہم بھی بناسکتے ہیں میں نے جواب دیا کہ برق کی دو قسمیں ہیں ایک سماوی اور ایک ارضی سو ارضی برق کی تو حقیقت ہے جو تم سمجھتے ہو اور سماوی برق کی وہ حقیقت ہے جوحضور صلی اللہ عیلہ وسلم نے ارشاد فرمائی گو سماوی کی قید لفظوں میں مصرح نہیں مگر قرائن سے اس کا اعتبار کیا جاوے گا میرے اس بیان کا ان لوگوں پر بے حد اثر ہو اس لئے کہ ایسا قریب جواب انہوں نے کبھی نہ سنا
تھا – میں نے یہ بھی کہا کہ جو کچھ میں نے اس وقت بیان کیا برق کے متعلق اس کو توجیہ وتکلیف نہیں کہتے تو ضیح وتحقیق کہتے ہیں یعنی حقیقت کا اظہار جو شخص دونوں میں منافات سمجھتا تھا اس کو حقیقت سمجھادی –
6 ذیقعدہ 1350 ھ مجلس بعد نماز یوم شنبہ
