ملفوظ 484 : غیر مقلدوں کا تشدد اور فساد

غیر مقلدوں کا تشدد اور فساد ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعضے غیر مقلدوں میں تشدد بہت ہوتا ہے طبیعت میں شر ہوتا ہے اور مجھے تو الا ماشاء اللہ ان کی نیت پر بھی شبہ ہے سنت سمجھ کر شاید ہی کوئی عمل کرتے ہوں مشکل ہی سا معلوم ہوتا ہے اسی لیے عمل کچھ ہو مگر جس نیت سے کیا جاتا ہے اس کا اثر دوسرے پر ضرور ہوتا ہے حاصرین میں سے ایک صاحب نے بیان کیا کہ ایک مقام پر آمین بالجہر پر جھگڑا ہوا – مقدمہ عدالت میں پہنچا ایک ہندو شہر کوتوال اسکی تحقیقات پر تعینات ہوا آدمی سمجھ دار تھا اس نے اپنی رپورٹ میں غیر مقلدین ہی پر فساد کا الزام ثابت کیا اور یہ لکھا کہ یہ جماعت شورش پسند اور مفسد جماعت ہے بلا وجہ ایسی بات کرتے ہیں کہ جس سے لوگوں کو اشتعال ہو – آمین بالجہر محض فساد اور شورش پیدا کرنے کے لیے کہتے ہیں اس رپورٹ پر غیر مقلدوں نے بڑا شور کیا – اور یہ کہا کہ آمین بالجہر مکہ میں بھی ہوتی ہے اس ہندو کوتوال نے جواب دیا کہ آمین مکہ میں محض اللہ کے یاد کی غرض سے اور سنت سمجھ کر کہی جاتی ہو گی فساد کے لیے نہ ہوتی ہو گی یہاں پر محض فساد کے لیے ہوتی ہے ـ دوسرا واقعہ خود فرمایا کہ ایسا ہی ایک اور واقعہ ہے ایک نو عمر طالب علم میرا شریک حجرہ بیان کرتا تھا کہ کسی ریاست میں ایک مقام پر آمین بالجہر کے معاملہ کی تحقیقات ایک انگریز نے کی اور آخر میں رپورٹ کے اندر عجیب و غریب تحقیقات بیان کی گویا کہ حقیقت کا فوٹو ہی کھینچ کر رکھ دیا اس نے یہ لکھا کہ آمین کی تین قسمیں ہیں ایک آمین بالجہر جو مسلمانوں میں ایک فرقہ کا مذہب ہے اور حدیثیں اس میں وارد ہیں اور ایک آمین بالسر یہ بھی مسلمانوں کے ایک فرقہ کا مذہب ہے اور یہ بھی حدیثوں سے ثابت ہے اور ایک آمین بالشر یہ مذہب ہے غیر مقلدوں کی لہذا اس سے روکا جانا چاہئیے – اسی سلسلہ میں فرمایا کہ مولوی سلیمان صاحب پھلواری نے ایک حکایت بیان کی تھی ظریف آدمی ہیں کہ ایک غیر مقلد نے کسی شہر میں پہنچ کر آمین بالجہر پڑھی ایک گاؤں کا شخص بھی اس وقت نماز میں شریک تھا اس نے کہا کہ ہمارے یہاں آؤ تو تم کو مزہ چکھاویں – یہ غیر مقلد صاحب اس گاؤں میں بھی پہنچے نماز میں آمین بالجہر کا کہنا تھا کہ چہار طرف سے رفع یدین شروع ہو گیا دونوں طرف جہالت تھی – اوپر کی حکایت کے سلسلہ میں جس میں ایک انگریز نے تحقیقات کی تھی فرمایا کہ بعضے انگریز بھی سمجھ دار ہوتے ہیں – چنانچہ ایک دوسری حکایت ہے کہ بھوپال میں ایک عورت کے مسلمان کر لینے پر ایک شخص پر مقدمہ چلایا گیا حاکم باوجودیکہ مسلمان تھا مگر اس نے اغواء کے الزام میں مسلمان کو حکم سزا کا دیا اس کا اپیل ایک انگریز حاکم کے یہاں کی گئی اس نے عجیب بات فیصلہ میں لکھی کہ جو شخص ارشاد اور اغواء میں فرق نہ کر سکا وہ قابل حکومت نہیں – ایک شخص نے اپنے مذہب کو حق سمجھ کر اس کی رغبت دلاتا ہے گویا اچھی بات کی طرف دعوت دیتا ہے سو یہ تو ارشاد ارشاد ہے وہ ہرگز مجرم نہیں اگر کوئی زیور کا قصہ ہوتا یا شہوانی معاملہ ہوتا جو کہ ثابت نہیں وہ اغواء ہوتا نو مسلم کو مسلمان کرنے کے سلسلے میں فرمایا کہ مولوی نے بھوپال میں ایک بھنگن کو مسلمان کر لیا مقدمہ دائر ہوا – حاکم نے خلوت میں بلا کر کہا کہ ثبوت تو کوئی ہے نہیں تم انکار کر دینا کہ میں نے مسلمان نہیں کیا انہوں نے کہا جو مناسب ہوگا جواب دوں گا جب با ضابطہ بیان لیا گیا تو انہوں نے کہا کہ مسلمان تو وہ خود ہوئی اس کی درخواست پر میں نے اظہار اسلام کا بتلا دیا اور یہ کوئی جرم نہیں حاکم نے کہا مسلمان کرنا قانونا اس طریقہ اظہار کو کہتے ہیں انہوں نے کہا میں ایسے مہمل قانون ہی کو نہیں مانتا حاکم حیران ہوا اور وزیر ریاست سے پوچھا کہ کیا کیا جائے انہوں نے جواب لکھا کہ جو شخص قانون کی زد میں نہ آ ئے اس کو زبر دستی کیون لاتے ہو مقدمہ خارج ہو گیا – اس پر فرمایا کہ ذہانت بھی خدا کی ایک عجیب نعمت ہے –