ھدایا کی واپسی اور شان توکل فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا ہے لکھا ہے کہ میں پانچ روپیہ بھیجنا چاہتا ہوں اور آ نے کی اجازت چاہتا ہوں اب ملاحظ ہو کہ ناگواری ہو یا نہ ہو دونوں کو جمع کیا ہے اصل میں ہم لوگوں کو طماع اور حریص سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے ان حرکات کی – میں بھی ایسا جواب دونگا انشاء اللہ کہ طبیعت خوش ہو جائے گی – اسی طرح ایک صاحب ہیں کسی مقام میں ایک سال کچھ روپیہ مدرسہ میں بھیجا میں نے وصول کر لیا غالبا دو سو روپیہ تھا – اگلے سال لکھتے ہیں کہ معمول کے موافق روپیہ بھیجتا ہوں اگر سال گذشتہ کی طرح امسال بھی رسید نہ آئی تو آئند روپیہ بھیجنا بند کر دو گا – میں نے منی آرڈر وصول نہیں کیا انگار لکھ دیا اور لکھ دیا کہ تم آئندہ سال بند کرو گے ہم امسال ہی بند کرتے ہیں – رسید یہاں سے نہیں روانہ کی جائیگی پھر فرمایا کہ رسید تو وہ بھیجے جو تحریک کرے یا مانگے یہاں پر تو محض توکل پر معاملہ ہے – اگر کسی کو ہم پر اعتماد ہو بھیجو دونہ مانگنے کون جاتا ہے – رہا یہ خیال کہ پھر مدرسہ ایسے چلے گا جیسے اب تک چل رہا ہے اور زائد سے زائد یہ ہوگا کہ نہ چلے گا آمدنی نہ ہو گی بند کر دیں گے کوئی فرض و واجب تو ہے ہی نہیں اور بہت سے دین کے کام ہیں اور بہت سی دین کی خدمتیں ہیں ان میں لگ جائیں گے حساب کتاب آمد و صرف کا نتظام باقاعدہ ہے مگر دوسروں کو کیا حق ہے کہ وہ مطالبہ کریں اگر ہم پر اعتماد نہیں نہ بھیجیں اور رسید ہی سے کیا ہوتا ہے جو کھانے والے ہیں اور گڑ بڑ کرنے والے ہیں وہ حساب ہی میں خوب کھاتے اور گڑ بڑ کرتے ہیں – میں کہا کرتا ہوں کہ میں طامع بھی ہوں حریص بھی ہوں مگر جن کو محبت کا دعوٰے ہے ان کو تو ایسا نہیں سمجھنا چاہئیے اگر میں عیب دار ہوں تو ان کو عیب دار نہ سمجھنا چاہئیے
