ملفوظ 381: حقیقت تصوف کا اظہار اور مسئلہ و حدۃ الوجود ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت پنجاب میں ایک بہت بڑے پیر ہیں ان سے کسی نے کہا کہ آجکل تصوف کی خدمت کہیں بھی نہیں ہو رہی مگر باوجود مسلک اورمشرب کے اختلاف کے ان پیر صاحب نے حضرت والا کا نام لیکر فرمایا کہ وہاں کافی خدمت تصوف کی ہو رہی ہے فرمایا کہ یہ ان کی حق پسندی کی بات ہے میں بے چارہ کیا تصوف کی خدمت کر سکتا ہوں ہاں اس کے نام سے جہلاء صوفیہ نے جو مخلوق کو گمراہ کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اس کو اپنے بزرگوں کی دعا ء کی برکت سے اور حق تعالی کے فضل و کرم سے اصل صورت میں مخلوق کے سامنے پیش کر دیا بڑی ہی گمراہی اس کی وجہ سے پھیلی تھی ان جہلاء نے بری طرح تصوف کو عوام کے پیش کیا ـ میں تو کہا کرتا ہوں کہ اگر خشک روٹی بگڑے تو گرم کر کے کام لا سکتا ہے کھا بھی سکتا ہے اور لطیف غذا اگر خراب ہو تو محلہ بھر کو پاس نہ آنے دے روٹی تو زائد سے زائد سوکھ ہی جائیگی اور لطیف غذا بدوں کیڑے پڑے رہ نہیں سکتی ـ اب ایک مسئلہ وحدۃ الوجود ہی کا ہے اس کی وہ گت بنائی ہے ـ الامان الحفیظ ـ مکہ معظمہ میں ایک عالم صاحب تھے ان سے مسئلہ وحدۃ الوجود پر گفتگو ہوئی وہ کہنے لگے کہ جناب وحدۃ الوجود کا مسئلہ ایسا ہے کہ اس کے ماننے سے ایمان سلامت نہیں رہ سکتا میں نے کہا حقیقت سے بے خبر ہو اگر معلوم ہو جائے کہ وحدۃ الوجود یہ ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے تو یہ کہو گے کہ بدوں وحدۃ الوجود کے تسلیم کئے ہوئے ایمان کامل نہیں ہو سکتا ـ کہنے لگے میں اس کے متعلق گفتگو سننے کو تیار ہوں اس گفتگو کے لیے جمعہ کا دن تجویز ہوا ـ میں نے اول فن تصوف کے مطابق اصطلاحی الفاظ میں وحدۃ الوجود پر ایک جامع تقریر کی اور ان سے میں نے کہہ دیا تھا کہ میری تقریر کو اچھی طرح آپ سن کر ذہن نشین کرتے رہیں پھر اجازت ہے کہ دل کھول کر آپ کے ذہن میں جو اشکال آویں وہ سنبھل کر بیٹھے اور غور سے سننا شروع کیا بعد ختم اشکالات کئیے مگر اسی تقریر کے اجراء سے سب اشکال ختم ہو گئے اور تمام شبہات رفع ہو گئے کہنے لگے کہ واقعی میں وحدۃ الوجود کی حقیقت ہی سے بے خبر تھا آج اللہ تعالی نے تمہاری بدولت اس کی حقیقت کو منکشف کرا دیا ـ اب کہتا ہوں کہ اسکے بدوں ایمان کی تکمیل ہی مشکل ہے ـ فرمایا کہ لوگ بےسوچے سمجھے جو جی میں آتا ہے اعتراض کر بیٹھتے ہیں پہلے اس چیز کی حقیقت سمجھ لو اگر خود سمجھ میں نہ آئے دوسرے سے سمجھ لو لیکن پھر بھی اگر وہ چیز قالی نہ ہو بلکہ حالی ہو تو کیا علاج ـ ایک حافظ صاحب کی حکایت ہے گو فحش ہے مگر توضیح کے لیے کافی مثال ہے وہ یہ ہے کہ شاگردوں نے کہا کہ حافظ جی نکاح میں بڑا مزاہ ہے ـ حافظ جی نے کوشش کر کے ایک عورت سے نکاح کر لیا شب کو حافظ جی پہنچے اور روٹی لگا لگا کر کھاتے رہے بھلا کیا خاک مزا آتا صبح کو خفا ہوتے ہوئے آئے کہ سسرے کہتے تھے کہ نکاح میں بڑا مزہ ہے ہمیں تو کچھ بھی مزہ نہ آیا ـ لڑکے بڑے شریر ہوتے ہیں ـ کہنے لگے اجی حافظ جی یوں مزہ نہیں آیا کرتا مارا کرتے ہیں تب مزہ آتا ہے ـ اگلے دن حافظ جی نے بیچاری کو خوب ہی زد وکوب کی مارے جوتوں کے بیچاری کا برا حال کر دیا ـ غل مچنے پر اہل محلہ نے حافظ جی کو بہت برا بھلا کہا بڑی رسوائی ہوئی صبح کو پہلے دن سے بھی زیادہ خفا ہوتے آئے ـ اور شاگردوں سے شکایت کی انہوں نے کہا کہ حافظ جی مارنے کے یہ معنی ہیں اسکے موافق عمل کیا تب حافظ کو معلوم ہوا کہ واقعی مزہ ہے ـ حقیقت سے بے خبری کا یہ نتیجہ ہوتا ہے ـ
