حضرت کے ماہ رمضان کے معمولات معلوم کرنےکی خواہش کسی نے یہاں کے ایک مقیم بزرگ کو خط بھیجا تھا کہ مولانا کے معمولات مجھ کو لکھ بھیجو اس اطلاع پر یہ فرمایا کہ معمولات بزرگوں کے ہوتے ہیں میرے کیا معمولات ہوتے نہ میرا کوئی معمول نہ مجھ میں کوئی کمال – البتہ اللہ تعالی کی ایک نعمت ہے اس کو خواہ کمال کہئیے فضیلت کہئیے کرامت کہئیے وہ یہ کہ اللہ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ معلوم ہے اور بتلا بھی سکتا ہوں – بس اور مجھے کچھ نہیں آتا نہ کچھ کرتا ہوں رہے معمولات – سو معمولات یہ ہیں کہ کچھ معمولات نہیں البتہ ایک معمول زائد ہے وہ یہ کہ آجکل کھانسی کی تکلیف ہے ساری رات اسی خیال میں گذر جاتی ہے کہ اب نیند آ جائے رات ختم ہو جاتی ہے باقی میرے رمضان المبارک کے معمولات سو وہی معمولات ہیں جو غیر رمضان میں تھے – بعض حضرات کے یہاں روزہ کی افطاری میں خاص معمولات ہیں کہ کھجور سے یا زمزم سے روزہ افطار کرنے کا اہتمام ہے میرا اس کے متعلق یہ معمول ہے کہ جو چیز روزی افطاری کے وقت قریب ہو چاہے وہ کھجور ہو زمزم ہو گرم پانی ہو امرود ہو اس سے روزہ افطار کر لیتا ہوں – پھر فرمایا کہ اگر میں جھوٹ کہدوں کہ میں تمام شب جاگتا ہوں اور تہجد میں پانچ پارہ پڑھتا ہوں اس میرے کہنے کا کوئی مکذب بھی نہ ہوگا – مگر اس سے کیا وہ معمولات ہو جائیں گے – سو ایسی حالت میں خود صاحب معمولات پوچھنا محض بے معنی ہے اور اصل یہ ہے کہ کسی کے معمولات پوچھنا ہی غیر مفید ہے اس کی ایک مثال ہے کہ ایک آم کا درخت ہے اس پر نہایت خوشنما اور خوش ذائقہ آم آ رہے لوگ کھا رہے ہیں اور ایک شخص ہے وہ یہ تحقیق کرتا ہے کہ وہ درخت کس قدر اونچا ہے کتنے فٹ لمبا ہے – شاخیں اس میں کس قدر ہیں رنگ اس آم کا کیسا ہے موٹائی کتنی ہے کس تاریخ اور ماہ و سنہ میں لگایا گیا – آپ ہی بتلائیں ان میں عاقل کون ہے جو تحقیقات میں مصروف یا جو کھا رہا ہے – ظاہر ہے تو کام لگنا چاہئیے ان فضولیات میں کیا رکھا ہے –
